محکمہ ٹریفک میں رشوت خوری نئی بات نہیں ہے اور عام آدمی سے لے کر حکومت تک سبھی کو بخوبی معلوم ہے کہ سرینگر جموں شاہراہ سمیت جموں وکشمیر یوٹی کی دیگر سڑکوں اور سرمائی و گرمائی راجدھانی میں تعینات اہلکارکیا گل کھلاتے ہیں ۔ خصوصی طور پر اگر آپ گاڑی ما لک یا ڈرائیور ہیں تو اس کا متعد د بار تلخ تجربہ ہو چکا ہو گا بشرطیکہ ان کے اثر و رسوخ کا شجرہ بھی اعلیٰ سطح تک جا کر نہ ملتا ہو اور اگر آپ ’’ مٹھی گرم ‘‘ کر نے کیلئے تیار ہیں تو آپ چاہے ٹریفک قوانین کی جتنی بھی بڑی خلاف ورزی کے مرتکب کیوں نہ ہوں ،آپ پر کوئی آنچ آنے والی نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر اس وقت مہلک سڑک حادثات کی شرح کے مطابق بین الاقوامی سطح پر بھی بدنام ہو چکاہے ۔
گزشتہ دنوںحکومت کی جانب سے ٹریفک حادثات کے حوالے سے جو اعدادوشمار پیش کئے گئے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں ، وہ نہ صرف چونکا دینے والے ہیں بلکہ فکر مندی کے بھی متقاضی ہیں ۔ ان کے مطابق رواں سال کے پانچ ماہ میں مئی کے آخر تک جموںوکشمیر میں2375سڑک حادثات رونما ہوئے ہیں جن میں368انسانی جانیں تلف ہوئیں جبکہ 3132افراد زخمی ہوگئے ۔ یعنی ان پانچ ماہ میں اوسطاً ماہانہ 475اور روزانہ 16سڑک حادثات رونما ہو ئے جن میں ہرماہ تقریبا ً74اور روزانہ اوسطاً2سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اسی طرح ماہانہ اوسطاً626افراد اور یومیہ اوسطاً21افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ جموںوکشمیر کی سڑکیں موت کی شاہراہوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور اس میں شاہراہوں ، رابطہ سڑکوں یا شہری و قصباتی سڑکوں کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹی بڑی شاہراہ پر موت کا رقص جاری ہے ۔ یہ بات بھی بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ حادثات میں اس بے پناہ اضافہ کے لئے جہاں دیگر عوامل ذمہ دار ہیں ، وہاں سب سے زیادہ حصہ محکمہ ٹریفک کی تساہلی و غفلت کا ہے جو اگر موجودہ ٹریفک قوانین پر 50فیصد بھی عمل درآمد کر کے ذمہ داری و احتساب پر عمل پیرا ہو جائے تو حادثات میں نمایاں کمی آسکتی ہے لیکن جیسا کہ عیاں ہے کہ اگر کبھی کبھار کسی ٹریفک اہلکار کے خلاف کو ئی کارر وائی ہو تی بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ اسے معطل کر دیا جاتا ہے جسے چنداں کوئی سزا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ معطل ملازمین کو چند ماہ بعد ہی بحال بھی کر دیا جاتا ہے اور ان کی تمام تنخواہ بھی انہیں مل جاتی ہے ۔ جس طرح گزشتہ دنوں حکام نے رشوت ستانی کی شکایات پر فوری کاررروائی کی، اگر اسی سرعت سے راشی، تساہل پسنداور کو تاہ ٹریفک ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹریفک حادثات میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے ۔
چند سال قبل ٹریفک حادثات سے متعلق قانون سازیہ کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کی تھی جس میں جہاں حادثات میں کمی لانے کے لئے متعدد اقدامات کی سفارش کی گئی تھی ، وہیں ریاستی سطح پر ایک ٹریفک ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام پر بھی زور دیاگیاتھا ۔گوکہ اس طرح کی ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ناگزیر بن چکا تھا تاہم کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی وہ ریگولیٹری اتھارٹی قائم نہ ہوسکی اور ابھی ایڈہاک ازم سے کام لیاجارہا ہے ۔بلاشبہ محض جامع ٹریفک پالیسی بنانے یا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے سے ٹریفک حادثات سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہے تاہم یہ اصلاح احوال کی سمت میں ایک اچھی پیش رفت ہوسکتی تھی جو تاحال ہونا باقی ہے۔
اصل میں حادثات روکنے کیلئے محکمہ ٹرانسپورٹ سے لیکر تعمیرات عامہ اورٹریفک پولیس محکمہ تک تمام متعلقین کا مکمل پوسٹ مارٹم لازمی بن چکا ہے۔اولین فرصت میں صوبائی سطح اور ضلعی سطح پر قائم ٹرانسپورٹ دفاترمیں شفافیت لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈرائیونگ لائسنس کی فراہمی یہاںایک بڑے دھندے کی صورت اختیار کرچکا ہے جس پر فوری قابو نہ پایا گیا تو حادثات میں اضافہ طے ہے۔اس کے علاوہ ٹریفک پولیس محکمہ میں کھلے عام رشوت ستانی کا تدارک بھی وقت کی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ حکومت لاکھ انکار کرے تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ٹریفک محکمہ میں پوسٹنگ کیلئے ایک خطیر رقم صرف اس لئے بطور نذرانہ دینے کی ریت چلی ہے کیونکہ افسران سے لیکر ٹریفک محکمہ میں ڈیوٹی دینے کے خواہشمند پولیس اہلکاروں کو بخوبی معلوم ہے کہ ٹریفک محکمہ میں جاکر وہ خوب’’کمائی‘‘کرسکتے ہیں۔
جہاں تک تعمیرات عامہ محکمہ کا تعلق ہے تو اس محکمہ میں بھی شفافیت لانا ضروری ہے کیونکہ سڑکوں پر کروڑوں روپے صرف کرنے کے باوجود ہماری سڑکوں کی حالت بہتر نہیں ہوپارہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تعمیری کام معیاری نہیں ہوتا ہے۔حکومت جتنا جلدی ان پہلوئوںپر غور کرکے اصلاح احوال کا عمل شروع کرے گی ،اتنا ہی بہتر رہے گا ورنہ ہم یہاں روز سڑک حادثات میں مرنے والے افراد کی لاشوں پر ماتم کرتے رہیں گے تاہم موجودہ روش کے چلتے آنسو تو خشک ہوسکتے ہیں لیکن سفر محفوظ نہیں بن سکتا ہے۔