حاجی با با سید نو ران شا ہ مر حوم اور ان کا خا نوادہ 1947ء سے قبل سا رے خطہ پیر پنچال میں اپنی دینی و دعوتی ملی و انسانی خدما ت تحریک آزادی جمو ں و کشمیر کی آبیاری اور ڈوگرہ سامراج کے ظلم و جبر کے خلا ف تحریک مزاحمت کے حوالہ سے ایک منفرد پہچان اور تشخص رکھتا ہے انہو ں نے اس علا قہ کے مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے گائو ں لاہ راجو ری میں ایک دینی درسگا ہ اور مسجد تعمیر کی جہاں متعدد علما ء اس خطہ کی نو جوان نسل کی دینی تعلیم و تر بیت پر معمو ر تھے اس درسگا ہ کے اہم اساتذہ میں مو لا نا عبد الرشید مظفر آبادی الحاج سید امیر علی شا ہ اور مو لا نا نعمت اللہ وغیر ہ خاص طو ر پر قا بل ذکر ہیں ۔1947ء تک خطہ پیر پنچال کے دوردراز علا قو ں سے طا لبا ن علو م دین یہا ں آکر زیور تعلیم سے آراستہ ہو تے تھے اس خطہ میں مو لا نا محمد عثما ن ترالوی کی درسگا ہ کے بعد یہ دوسری بڑی دینی درسگا ہ تھی جس کے ذریعہ اس دور دراز پسماندہ علاقہ میں دینی علو م کو فروغ ملا مسلما نو ں میں ملی غیر ت اور جذبہ آزادی کی تحریک پیدا ہو ئی چو نکہ حاجی با با کے خاندان کے بزرگوں نے با لا کو ٹ علا قہ میں سید احمد شہید ؒاور شا ہ اسما عیل شہیدؒ کی تحریک جہا د میں کا م کیا تھا اس لئے باطل نظام اور شخصی ظلم و جبر کے خلا ف تحریک مزاحمت و حریت فکر و عمل کا جذبہ ان لوگو ں کے رگ و ریشہ میں کو ٹ کو ٹ کر بھرا ہو اتھا اس لئے یہ لو گ ہمیشہ ڈو گرہ شاہی کے نا قد اور ریا ستی مظلوم مسلما نو ں کی حما یت میں ننگی تلوار بن کر سا منے آتے رہے مہا راجہ پر تا ب سنگھ کے عہد میں جب اس کے ذیلی منصب داروں ریا ستی عوام پر بیجا زیا دتیا ں اور جبر کر نا شروع کیا تو حاجی با با کا ضمیر یہ مظالم دیکھ کر تڑپ اٹھا اور انہو ں نے اپنے فر زند اکبر سید حبیب شا ہ ضیا ء کو مہا راجہ گلاب سنگھ کے دربا ر میں خصوصی ایلچی کے طور پر بھیجا جنہو ں نے اس خطہ میں مہا راجہ کے منصب داروں کے عوام پر ظلم و جبر با رے آگاہ کیا اور کسی حد تک مہا راجہ پر تاب سنگھ نے اس شکا یت کا اثر قبول کر کے اپنے منصب داروں کی سر زنش کی جس کی وجہ سے خو دسر منصب داروں کے اختیا رات محدود اور حوصلے پست ہو گئے ۔
ڈوگرہ عہد میں راجو ری خطہ کی اکثر بڑی مساجدکو بغاوت کا بہا نہ بنا کر مقفل اذان نما ز با جماعت اور ہر قسم کی مذہبی و سیا سی سر گر میو ں پر پا بند ی عا ئد تھی جس کی وجہ سے اس خطہ کے مسلما نو ں مین ڈوگرہ شاہی کے خلا ف تحریک مزاحمت اور جذبہ آزادی کا شعور شد ت سے ابھر نے لگا اور انہیں اپنا سیا سی و مذہبی مستقبل زیا دہ مخدوش نظر آتا محسوس ہو نے لگا جس کی وجہ سے اس سارے خطہ پیر پنچال میں دن بدن زبر دست ہیجا نی و غیر یقینی صورت حال پیدا ہو نی شروع ہو گئی اور اس خطہ کے عوام کھل کر ڈوگرہ راج کی پا لیسیو ں کے خلا ف کھڑے ہو گئے میر پو ر سے راجہ محمد اکبر خان ،حاجی وہا ب دین،غازی الہی بخش اور غازی عبدالرحمن وغیر ہ کی تحریک عدم ادائیگی ما لیہ کے ساتھ تعاون جامع مسجد لڑی میدان راجو ری کی واگذاری آزادی تحریر و تقریر اور تنظیم سازی کی اجا زت اور سو د خور و جا گیردار مہا جن طبقہ کے سو دی و استحصالی نظام کے خلا ف اس خطہ کے مسلما نو ں میں زبر دست نفرت اور مزاحمتی جذبہ بیدار ہوا جس کی وجہ سے وہ کھل کر اور سر سے کفن با ندھ کر میدان عمل میں کو د پڑے 1914 ء اور 1932 ء کی جا مع مسجد لڑی میدان کی واگذاری کی تحریک چو دھر ی سخی محمداوانہ اور سر دار شکر دین کملا ک آف کنڈی کا آزاد و خو د مختار حکو مت کا اعلا ن مو لا نا مہر دین قمر راجو روی اور چو دھری دیوان علی کی جا گیر داروں اور سو د خورمہا جنوں کے خلا ف شدید رد عمل جلسے جلو س اور عوامی راج کے قیا م کی تحریک ڈو گرہ راج کے خلا ف ایک بھر پور اور منظم علامتی تحریک تھی جس نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی فطر ی رفتار سے زور پکڑنا شروع کر دیا تومر حوم حاجی بابا اور ان کے خاندان کے تما م معروف و قابل ذکر احباب نے ان تحریکو ں میں ہراول دستہ کا رول ادا کیا 1914 ء اور 1932 ء میں جا مع مسجد لڑی میدان کی واگذاری کی تحریک میں حاجی با با نے علا قہ تھنہ منڈی کے مسلمانو ں کے ایک بڑے قافلہ کی قیا دت کی تھی اور فریضہ شبیری بڑی جرات و استقامت کے ساتھ ادا کیا 1931 ء میں جمو ں اور سرینگر میں ڈوگرہ فو جیو ں کے ہا تھو ں جو واقعات پیش آئے ان کے رد عمل میں راجوری خطہ کے مسلمانو ں میں تشویش کی زبر دست لہر پیدا ہو ئی اورراجو ری قصبہ میں شہدائے خواجہ با زار سرینگر کے حق میں ایک زبر دست جلو س مر زا فقیر محمد راجو روی اور حاجی با با سید نو ران شا ہ کی قیا دت میں نکلا اس احتجا جی جلوس پر گور کھا رجمینٹ نے فائرنگ کر کے را جو ری کے تین مسلما نو ں کو شہید اور کئی کو زخمی کر دیا تھا ۔
1931 ء کے سانحہ خواجہ بازار سرینگر کے بعد ریا ست کے تیزی سے بد لتے ہو ئے سیا سی حالات کے پیش نظر مہا راجہ ہر ی سنگھ نے ریا ست کے تما م سر کر دہ مسلما نوں کو مشاورت کی غر ض سے دعوت دی جس میں حاجی با با نو ران شاہ بھی شامل تھے حاجی با با اپنی قلندرانہ ادا اور مو منا نہ انداز میں جب مہا راجہ کے محل میں پہو نچے تو وہا ں استقبال کے لئے مو جو د خاتون دربا ری آفیسر نے مصافحہ کے لئے ہا تھ بڑھا یا مگر حاجی با با نے یہ کہہ کر مصافحہ کر نے سے انکار کر دیا کہ میر امذہب اس کی اجا زت نہیں دیتا وہ جب مہا راجہ ہر ی سنگھ کے دربا ر میں پہو نچے تو نہ جھک کر دربا ری آداب بجا لا ئے اور نہ مہا راجہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بلکہ پو رے وقار اور ایما نی حمیت و جذبہ کے ساتھ مخصوص کر سی پر جا کر بیٹھ گئے اور سلسلہ گفتگو شروع ہو نے پر ریاستی مسلما نو ں اورخصو صا خطہ پیر پنچال کے مسلما نو ں کے مذہبی و سیا سی احساسات و جذبات کی تر جما نی کر تے ہوئے علا قہ کے سر کا ری آفیسرا ن منصب دارو ں جا گیر دارو ں اور سو د خور مہا جنو ں کے ظلم و جو ر اور زیا دتیو ں پر تنقید کر تے ہو ئے فی الفور ان پر لگا م کسنے اور مسلمانو ں کے جائز قا نو نی و مذہبی مطالبات تسلیم کر نے پر زور دیا جس کی وجہ سے ریا ست بھر سے آئے ہو ئے مسلمان زعما ء کی نظروں میں آپ کا وقار بڑھ گیا اور تما م مسلم زعما ء نے آپ کی اس قلندرانہ ادا کو بہت سراہا آپ کے اس جرات مندانہ اقدام کے باعث اس خطہ کے سر کاری منصب داروں و جا گیر داروں پر آپ کی پر جلا ل شخصیت کا رعب قائم ہو گیا اور کسی حد تک عوام کو ان منصب داروں کے ظلم و جبر سے راحت مل گئی ۔
حاجی با با نے اس خطہ کے مسلما نو ں اور دبی پسی مظلو م عوام کے حق میں اٹھنے والی ہر تحریک کا سا تھ دیا چنا نچہ 13 اپریل 1932 ئحضرت میا ں نظام الدین لاروی کی صدارت میں گو جر جاٹ کا نفر نس کا پہلا تا سیسی اجلا س آپ کے گھر مو ضع لاہ را جو ری میں ہوا حضر ت میا ں نظام الدین لا روی نے اپنے خطبہ صدارت میں حاجی با با کو مخاطب کر تے ہو ئے کہا آپ میر ے بزرگ با پ کی دولت فکر کے وارث ہو اس لئے اس مظلو م قو م پر دست شفقت قائم رکھیں اگر چہ حاجی با با اور آپ کے گھرانے کا تعلق آل جمو ں و کشمیر مسلم کا نفرنس سے تھا اور آپ اس علا قہ میں مسلم کانفرنس کے تاسیسی ممبران میں سے تھے اور دو قو می نظریہ پر پختہ اور غیر متزلزل یقین رکھنے والے مستقل مزاج آدمی تھے تاہم وہ گو جر جا ٹ کا نفرنس کے ہر مستحسن اقدام پر گو جر زعما ء کے ساتھ شا نہ بہ شانہ کھڑے نظر آتے ہیں پروڑی گجراں اور اکھنو ر کے مقام پر منعقد ہو نے والی گجر جا ٹ کا نفرنسوں میں بھی حاجی با با نے اپنے گھرانے کے اہم لو گو ں کے ساتھ شمو لیت اختیا ر کی تھی اس خطہ میں مسلم کا نفرنس کے تما م اہم فیصلہ جا ت آپ کی مشاورت اور رضا مندی سے ہو تے تھے سرینگر ،سو پو ر،جمو ں ،پونچھ اور میر پو ر میں مسلم کا نفرنس کے منعقد ہو نے والے تما م اجلا س میں آپ اس خطہ کے وفو د کی قیا دت کر تے ہو ئے شا مل ہو تے تھے آریہ سما جی تحریک کے با نی سوامی شر دھا نند کی شدھی تحریک کی جمو ں نواسی خاتو ن لیڈر شا نتا بھا رتی نے جب را جو ری پہو نچ کر بڑے بڑے اجلا س کر نے اسلا م اور پیغمبر اسلا م کے با رے میں بے بنیاد اور غلیظ پروپیگنڈہ کر نا شروع کیا تو حاجی با با نے اس خطہ کے دیگر با اثر زعما ء کے سا تھ اس تحریک کو کچلنے میں اہم رو ل ادا کیا جس کی وجہ سے یہ تحریک اس خطہ میں اپنے قدم نہ جما سکی اکتو بر و نو مبر 1947 ء میں جب اس خطہ میں ڈو گرہ را ج کے خلاف تحریک مزاحمت عر وج پر تھی تو حاجی با با اور ان کے خاندان نے اس میں ہراول دستے کا رول ادا کیا آپ کے چھو ٹے برادر سید سلیما ن شا ہ بڑے بیٹے مو لوی حبیب اللہ شا ہ ضیا ء اور سید عبد اللہ شا ہ آزاد نے با قا عدہ عسکر ی میدان میں کمان سنبھال کر بے مثال جرات و استقامت کا مظا ہر ہ کیا مو لوی حبیب اللہ شا ہ ضیا ء رئیس الاحرار چو دھر ی غلا م عبا س کے خصو صی دست راست اور قابل اعتما د سا تھیو ں میں سے تھے جنہیں حکو مت آزاد کشمیر نے تحریک آزادی میں نما یا ں رول انجا م دینے کے صلہ میں گو لڈ میڈلسٹ کا اعزاز عطا فر ما یا تھا آپ اردو ،فارسی ،گو جر ی اور پنجا بی زبا ن کے قادر الکلا م اور انقلا بی شا عر تھے آپ کے انقلا بی اور حر یت پسندانہ نغمو ں نے اس خطہ کے مسلما نو ں میں زبر دست تحریکی اور جہا دی رو ح پیدا کر کے انہیں اپنے حقوق کی خاطر مر مٹنے کے لئے ذہنی طو ر پر تیا ر کیا جب کہ آپ کے چھو ٹے برادر سید سلیما ن شا ہ کو 14 جو ن1948 ء کو انڈین اور ڈو گرہ فو ج نے عظمت آبا د کے مقا م پر ایک مکا ن میں حالت نما ز میں دیگر اکتا لیس غا زیو ں کے ہمراہ فا ئرنگ میں شہید کرکے مکا ن کو آگ لگا دی تھی، تما م اکتالیس آدمی جل کر را کھ ہو گئے جب کہ سید سلیمان شا ہ کی لا ش مکا ن جلنے کے با وجو د صحیح سلا مت تھی ،جسے بعد میں مقا می لو گو ں نے دہکتے انگا رو ں سے نکا ل کر منیہال گلی کے قریب ایک پہا ڑی پر دفن کیا گیا ۔
……………………
نوٹ :مضمون نگا ر:چیر مین الہدی ٹر سٹ، را جو ری ہیں