اللہ اکبر ۔۔۔۔وہ کون سا گھر ہے آپ کی نگاہیں جس کی دیوار وں کی بلا ئیں لے کر پلٹی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں آپ کا جسم بھی طواف میں تھا اور آپ کا دل بھی ۔۔۔۔۔۔دنیا کے بت کدوں میں کل بھی وہ پہلا گھر تھا خدا کا اور آج بھی ہے۔ دو چار صدیوں کی بات نہیں بلکہ دنیا کا سب سے پہلا عبادت خانہ بنی آدم میں کسی کے حافظے میں اس وقت کی یادیں محفوظ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اس طویل عرصے میں بے حساب مندر تعمیر ہوئے ،لا تعداد گرجے آباد ہوئے ‘ کیسے کیسے انقلابات سے یہ زمین آشنا ہوئی، کیسی کیسی بلندیاں پستیاں ہوئیں ‘ کون کون سی تہذیبیں اُبھریں اور مٹیں ۔۔۔۔چاہے مصر وبابل ہوں یا روم و ایران لیکن عرب کے ریگستانوں میں چٹانوں اور پہاڑوں کے وسط میں سیاہ غلاف میں لپٹی یہ عمارت جس کو رب نے ’’اپنا گھر ‘‘ کہا ،اس کو زمانے کاکو ئی طوفان ، کوئی انقلاب ، کوئی زلزلہ اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا ۔۔۔۔جو ابرہہ اس کو مٹا نے اٹھا وہ خو د مٹ گیا ۔۔۔۔!!
اللہ نے کرم کیاکہ جلدہی دوبارہ اپنے گھرکی زیارت کی توفیق مرحمت فرمائی ۔اس سفر حجاز میں بار بار طواف کیا ہے آپ کی نظروں نے اس گھر کا ۔۔۔۔! ہر تکلف وتصنع سے مبرا یہ سیاہ چوکور گھر ۔۔۔۔آپ کی نگاہ جب پڑی ہوگی تو جم کر رہ گئی ہو گی !! اور اس موقع پر آپ کو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام یا د آتے چلے گئے، جب اس کے گھر کی تجلی پر ہوش وحواس قائم رکھنا مشکل ہے تو اس گھر کے رب کی تجلی نے کیا کیا ہلچل بپا کی ہو گی ! جب گھر کی برق پا شیوں کا ہ عالم ہے کہ جو دیکھتا ہے وہ کچھ اور دیکھنا بھول جا تا ہے اور ہمیشہ کے لیے یہی نظروں میں سما جا تا ہے تو گھر والے کے دیدا ر کی تاب انسانی بصارت بھلا کہاں لا سکتی ہے ؎
در مصحف روئے او نظر کن
خسر و، غزل و کتاب تا کے
’’اس کے چہرے کی زیبائی کو دیکھو اے خسرو ‘شعر و کتاب میں کب تک مشغول رہو گے ‘‘ وہ گھر آپ کی نظروں کے سامنے تجلیاں بکھیررہا تھا جسے کسی انجینئر ، کسی ماہر تعمیرات نے نہیں بنا یا تھا‘ نہ لا کھوں روپے کا سامان ِ تعمیراس پر لگا تھا نہ جد ید مشینری استعمال ہوئی تھی !!! اللہ کے گھر کا معمار ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ ہاں وہ معمار بھی لمحہ لمحہ آپ کے تصور میں رہا ہو گا جو اپنے سر پر بھاری بھاری پتھر اٹھا کر لا رہا تھا ، جس کے ہاتھ چونے ، مٹی اور گارے سے بھرے ہوئے تھے ۔ عرب کی چلچلا تی ہوئی دوپہروں میں ریگستان کی آگ بھرساتی دھوپ کی پروا کئے بغیر روپے پیسے کی مزدوری سے بے نیاز وہ دو مزدور ۔۔۔۔۔جو گویا اپنے پورے وجود کو اس گھر کی تعمیر میں لگا رہے تھے اور گھر کا مالک بڑے چاؤ سے بڑے پیارسے ذکر کرتا ہے ان ’’مزدوروں ‘‘ کا ’’جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علہ السلام اس گھر کی بنیادیں اٹھارہے تھے:
ہاں محترم بھائی! اس گھر کی زیارت کرتے ہوئے جب نظریں اس پر ٹھہرگئی ہوں گی آپ کو لگا ہو گا کہ جوہاتھ اب تعمیربیت اللہ میں مشغول ہیں،پتھر پر پتھر رکھ رہے ہیں، ہاتھوں میں گارا ہے اور چشم ِ اشکوں سے لبریز ۔۔۔۔۔ کہ دل کا سوزوگد ا ز یہ نغمہ بنا زبان پر آ جا تا ہے ’’۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے بے شک تو سب کچھ سننے اور جا ننے والا ہے ‘‘ (البقر ہ ۱۲۷ )
تو یہ ہے دوستوں کی شان ۔۔۔۔۔۔عشق کی منزلوں سے آگے کی منزلیں ۔۔۔۔۔۔فدائیت کی منزلیں ۔۔۔۔۔۔کہ سب کچھ لگا کر بھی دھڑ کا یہی لگا ہوا ہے کہ مٹنا قبول بھی ہو گا کہ نہیں ۔۔۔۔۔؟؟؟
اگر ایسا گھر نہیں دنیا میں تو اس گھر کے سے مزدور کب دیکھے ہیں دنیا نے ؟ دنیا کے کسی مزدور نے وہ مزدوری مانگی جو بیت اللہ کے مزدوروں نے مانگی تھی اور مزدوری کی طلب تو دیکھئے، تنہا اپنی ذات کے لیے نہیں ہم بھی شریک تھے اس اُجرت طلبی میں کہ ’’اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو اپنا فر ما نبردار بنا اور ہماری اولاد سے ایک امت اپنی فر ما نبردار بنا اور ہمیں ہمارے حج کے اعمال بتا اور ہم پر رحمت سے تو جہ فرما اور توبے شک رحمت سے توجہ کرنے والا ہے ‘‘ (البقر ہ ۱۲۸ )
گھر بنانے والے کو جو مزدوری ملی وہ مزدور جانے یا مالک ۔۔۔۔۔لیکن اس اُجرت میں آپ کو جو حصہ ملا اور اس گھر کی زیارت کرنے والوں کو ، طواف کرنے والوں کو ، سفر کرنے والوں کو ، اس گھر سے محبت کرنے والوں کو، اس کی تعظیم کرنے والوں کو۔۔۔۔۔کیا کچھ نہیں ملا کیا کچھ نہیں مل جا تا ، بر کتوں اور عزتوں کے اس گھر سے ۔ ہر ایک یہی خزانے لے کر پلٹتا ہے اور ۔۔۔۔ ۔ ۔ساتھ آپ کا دل بھی تو انہی خزانوں سے مالا مال ہے ۔ ایک شکرو سپاس ہے آپ کے پاس بھی اس وقت کہ آپ کا نفس پاک ہو کر اپنی خودی (انا ) کو مٹا کر اپنے رب کی معرفت کی منزلوں میں سرگرداںہے ۔ رب کا گھر ہے یہ !!! مقام ِتفریح تو نہیں ۔ یہ آگرہ کے تاج محل یا فرانس کے ایفل ٹاور کا نظارہ تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ گھروندے جو سیر تماشے اور دل کے بہلاوے کے لیے صدیوں سے موجود ہیں لیکن وہاں آنے والے لا کھوں لوگ نہ عقیدت مند ہوتے ہیں ،نہ انہیں چومتے ہیں ،نہ آنکھوں سے لگاتے ہیں ،نہ والہانہ طواف کرتے ہیں، نہ سجدے کرتے ہیں ،نہ روتے گڑگڑا تے ہیں، نہ جھکتے اور گرتے ہیں، نہ عشق وفدائیت سے سر شار پکارتے رہتے ہیں کہ ’’لبیک اللھم لبیک ‘‘آگیا ہوں مولا ،میں آگیا میرے رب ،میں حاضر ہو گیا ،تو نے بلایا تھا میں کیوں نہ آتا ؟ میں آگیا سب کچھ چھوڑ کر آگیا،درویشوں اوردرماندہ فقیرکے روپ میں تیرے درپہ آیا ہوں ،دنیا کی لذتوں کو ٹھو کر مار کر آیا ہوں ۔ لاکھوں لوگ ۔۔۔۔ایک ہی وقت میں ایک ہی لے ہے ایک ہی دُھن جس کاسودا سر میں سما یا ہے ،دیوانہ وار طواف کرتے ہیں اور میرے خوش نصیب بھائی ! آپ بھی احرام کا یو نیفارم پہنے اس سلطانِ عالم کی فوج کا حصہ تھے اور جب نما زوں کے اوقات میں بھی اور صبح کے تڑکے میں بھی جب ہر بلندی اور ہر پستی پر لبیک کی آوازیں گو نجتی تھیں تو آپ بھی ایک نشہ ٔایمان میں سر شار ہو جا تے ہوں گے ،ایک کیفیت میں جذب ہو جا تے ہوں گے اور آپ کو اس خاک پر کبھی اس محبوب علیہ السلام کے قدموں کے نشان نظر آتے ہوں گے ،جوکبھی آگ میں کودا تو کبھی عزیز ازجان نور نظر کے حلقوم پر چھری پھیردی کہ آسمانوں پرملائکہ بھی ششدررہ گئے اوریک زبان ہوکرپکاراٹھے کہ واقعی اس نے خلیل اللہ ہونے کاحق اداکردیا اورپسر دلبراطاعت کی معراج کوجاپہنچا اور ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔چودہ سو برس پیچھے لے گیا یکدم آپ کا شعور آپ کو کہ اسی خاک پر اس عظیم ہستی علیہ السلام پر قربان،اور یوں طواف کرتے کرتے آپ کی وار فتگی میں یکبارگی اضافہ ہو تا چلا گیا ہو گا کہ یکا یک یہ شعر حجاب بن کر آپ کی نظروں کے سامنے ضرورآگیا ہوگا ؎
چو بطرف کعبہ رفتم بحرم اہم ندا اند
تو بردن درچہ کردی کہ درون خانہ آئی
’’جب میں کعبہ کے طواف کے لیے گیا تو مجھے حرم میں داخل نہ ہونے دیا گیا کہا گیا کہ تو نے حرم سے باہر تو نا فرمانی کی اب بیت اللہ کس منہ سے آیا ہے؟ ‘‘
تب آپ کی سانسیں تھم تھم گئی ہوں گی ،گردشِ ایام کے دوران ہوئے گناہوں ، لغزشوں، خطاؤں اور توبتہ النصوح کا مفہوم آپ پر آشکار ہوا ہو گا ۔میرے عزیزبھائی ! دوران سعی آپ کو اس خاک ِ پاک پر سیدہ ہاجرہؑ صدیقہ کے قدموں کے نشان بھی نظر آئے ہوں گے جو نبی کی ماں اور نبی کی زوجہ محترمہ ہونے کے شرف سے مشرف تھیں اور برسہا برس سے قافلے اس عظیم خاتون کے قدموں کے نشانوں پر دوڑ رہے ہیں کیسا شرف ایک عورت کو دیا ہے اس دین نے کہ اپنے محبوب ﷺکوبھی بی بی ہاجرہؑ کی سنت کی پیروی کرنے کاحکم دیا۔۔۔کیامنظرہوگاجب رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مخصوص مقامات پراماّں ہاجرہ ؑپرتفاخرکرتے ہوئے تیزتیزبھاگ رہے ہوں گے ! یقیناحضرت ام المومنین حضرت عائشہؓبھی بی بی حاجرہؑ کی سنت کی ادائیگی کے مناظراور عظیم عورت کے عظیم کردارپراپنے رب سے مناجات میںرازونیازکرتی ہوں گی۔ یقینا یہ سب کارہائے عظیم کتابوںمیں پڑھے ہوں گے، لیکن آج اپنی چشم تر سے ان کاجی بھرکرنظارہ کرتے ہوئے اپنے مقدرپررشک کرتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے کئی مرتبہ جبیں سرنگوں ہوئی ہوگی۔
میرے محترم بھائی!گنبدخضریٰ پرجب پہلی نظرپڑی ہوگی تویقینادل کوتھامنابہت ہی مشکل ہوگاکہ محسن انسانیت ﷺکے درپرحاضری ،اپنی قسمت پررشک توآتاہوگاکہ ایسی عظیم الشان شخصیت جس پرخوداللہ اوراس کے ملائکہ کثرت سے درودپڑھتے ہیں اوراہل ایمان کوبھی حکم دیاگیاکہ وہ بھی کثرت سے درودپڑھتےرہاکریں۔ایسی فخرکائنات ہستی جس کے بارے میںغیرمسلم بھی کچھ اس طرح رطب اللسان ہیں:
مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundredمیں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضورﷺ کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمدﷺ پورے نسل انسانی میں سیدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔
٭تھامس کارلائیل نے۱۸۴۰ء کے مشہور دروس میں کہا کہ میں محمد(ﷺ) سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہ اخلاص پیش کرتے ہیں ۔٭ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے محمد دراصل سروراعظم تھے،۱۵سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں،یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا ۔٭ جارج برناڈشا لکھتا ہے: موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد (ﷺ)اس دنیا کے رہنما بنیں ۔ ٭گاندھی لکھتا ہے کہ بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ،میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا ۔٭ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار گوئٹے حضور (ﷺ)کا مداح اور عاشق تھا ،اپنی تخلیق دیوانِ مغربی میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد (ﷺ)کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔٭ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب تاریخِ ترکی میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے :اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱)مقصد کی بلندی ، (۲) وسائل کی کمی(۳)حیرت انگیر نتائج ، تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمدﷺ سے ہمسری کا دعوی کرسکتی ہے ۔ ٭فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے: فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ، بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا….وہ محمد ﷺہیں ….جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اترنے والا محمدﷺ سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے؟٭ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں محمدﷺ گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعا غیر ممکن ہے۔
میرے انتہائی عزیزبھائی!مدینہ کے شمال میں واقع پہاڑ جبل احد کے پاس اس مقام پر حاضری دینے کی سعادت ضرورملی ہوگی جہاں نبی کریم ﷺ کے پیارے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی ا للہ تعالیٰ ابدی آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت حمزہؓ جنگ احد میں۷۰دیگر صحابہ ؓکے ہمراہ شہید ہوگئے تھے، اور کفار نے آپؓ کی لاش کی دل آزار بے حرمتی کی تھی۔ رسول کریمﷺ کو اپنے اس ہم عمر چچا سے بڑی محبت تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے شہیدلاشے کودیکھ کرفرطِ غم سے آپ ؐپھوٹ پھوٹ کررودیئے اورجب تک اس دنیامیں قیام فرمایاآپ ﷺ ہر بدھ کو شہدئے احد کے مزار پر جاکر فاتحہ کہتے تھے!
میرے خوش قسمت بھائی ! اس سفر حجاز نے ایک پیغام ضرور آپ کو دیا ہے، وہ اک پیغام جو مسجد حرام نے بھی آپ کو دیا ہے اور مسجد نبویؐ نے بھی ،وہ ایک صدا جو عرفات کے میدا ن میں بھی آرہی تھی اور منیٰ کی قربان گاہ میں بھی ، وہ شیطان سے نفرت جس رمی جمار کی کنکریاں گواہی دیتیں ،جو زم زم کے م وصراحی نے بھی آپ سے سر گوشی میں کی ہے، جو استلام حجر اسود کی وارفتگی اور تمنا نے دیا اور خاکِ حرمین کے ذروں نے بھی آپ کے قدموں سے لپٹ کر کی ہے اور وہ صدا ہے، بس ایک صدا ،کیا صدا:’’کونو انصار اللہ ‘‘ اللہ کے مدد گار بنو ، جب دنیا ظلم وستم سے بھر گئی تو کیا تم اللہ کے لئے اپنے حصے کا کام کرنے نہ اٹھو گے ؟ راستہ بھی موجود ہے اورمولا کی دی ہوئی ٹانگیں بھی موجود ہیں اور اس راستے پر چلنے کا قرض بھی تادم ِزیست واجب الاد ہے ۔مالک کائنات نے جو زمین حوالے کی ، مزارع نے اس پر ہل نہ چلا یا اور زمین زہر آلود جھاڑیوں اور کا نٹوں سے بھر گئی تو مالک ارض وسما کس مزدوری کی توقع رکھ سکتے ہو ؟ سفر حجاز نے یہی تو کہا ہے آپ سے کہ جیسے یہاں کے ہر چپے پر اللہ کی بڑھائی اور اس کا ذکر ہے اللہ کی ساری کائنات یونہی اس کی بڑھائی چاہتی ہے ۔ معرکۂ بدر وحنین اور واقعہ کر بلا آج بھی بپا ہے ۔ ہمارے اندر کتنا عزم ہے اس دین پر خود عمل کر نے اور اسے اپنی دنیا پر نفاذ کر تے ہوئے راستے کی سختیاں جھیلنے کی۔۔۔۔۔۔۔سفر حجاز کی یادیں آپ سے مسلسل کہتی ہیںکہ پہلے خود ربّ کعبہ کی بندگی میں پورے کے پورے آجاؤ اور پھر اللہ کے بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کرخالقِ کائنات کی غلامی اورعبادت میںواپس لانے کیلئے اپنا حتی ا لمقدورکردارکر، او ر یا رکھئے کچھ بھی تو نہ رہے گا ، کچھ بھی تو نہیں بس نام رہے گا اللہ کا! ۔