پرویز احمد
سرینگر //دسمبر2016میں سرینگر بارہمولہ قومی شاہراہ پر جے وی سی ہسپتال بمنہ میں داخل ہونے کیلئے 1کروڑ 32لاکھ روپے کی لاگت سے بنایا گیا لوہے کا اوور ہیڈ برج مریضوں، تیمارداروں اور عمر رسیدہ افراد کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ بدترین انجینئرنگ ماڈل بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ ہسپتال جانے والے مریضوں کا کہنا ہے کہ لوہے کا اوور ہیڈ برج اونچائی کی وجہ سے مریضوں کیلئے سڑک کراس کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اوور ہیڈ برج بنانے کے برعکس سب وے کی تعمیر زیادہموزون اور بہتر ہوتی جس سے جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔
اوور ہیڈ برج کی تعمیر
ہسپتال میں سال 2011میںشعبہ امراض زچگی کے قیام کے بعد قومی شاہراہ پر اوور ہیڈ برج کامطالبہ زور پکڑا۔ اُس سال شاہراہ پار کرتے ہوئے 6مریضوں اور تیمارداروں کی جان گئی تھی جبکہ سال 2012میں 2تیمارداروں اور مریضوں نے اسی مقام پر اپنی جان گنوائی اور کئی دیگر مضروب ہوئے ۔ اب چلڈرن ہسپتال جانے والے مریض اور تیماردار بھی اسی جگہ سڑ ک پار کررہے ہیں، اس لئے زیادہ حادثات کا خطرہ ہمیشہ رہتاہے۔کشمیر عظمیٰ نے ہسپتال میں علاج و معالجہ کیلئے آنے والے مریضوں اور خاص کرحاملہ خواتین سے بات کی ، جن کا تعلق زیادہ تر شمالی کشمیر سے تھا۔جن کا کہنا تھا کہ اوور ہیڈ برج زیادہ اونچا اور حد سے زیادہ سیڑھیاں ہونے کی وجہ سے سڑک پار کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بیمار اور تیماردار اس اوور ہیڈ برج کا استعمال نہیں کرتے ہیں اور ہسپتال جانے والے مشکل سے 10فیصد ہی اس کے ذریعہ سڑک پار کررہے ہیں۔شمالی کشمیر سے آنے والے مریضوں کیلئے یہ اوور ہیڈ برج بنایا گیا تھا لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں اورر ہیڈ برج زیادہ تر ریلوے سٹیشنوں پر ہوتے ہیں جن کی سیڑھیوں کی اونچائی کم رکھی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو چلنے میں آسانی پیدا ہو۔ لیکن جے وی سی کے باہر حد سے زیادہ سیڑھیوں کو رکھ کر اور انکی اونچائی زیادہ ہونے سے اسکی تعمیر ضائع ہوگئی ہے۔عمر رسیدہ اور حاملہ خواتین کسی بھی صورت میں اتنی تعداد سیڑھیاں چڑھنے اور اتنی ہی تعداد میں اترنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔ہسپتال آنے والی ایک حاملہ خاتون شازیہ نے بتایا ’’ میرا ساتواں مہینہ چل رہا ہے اور اس میں اوور ہیڈ برج کے ذریعے سڑک کراس کرنے کیلئے بہت ساری سڑھیاں نہیں چڑھ سکتی کیونکہ ڈاکٹروں نے مجھے سیڑھیاں چڑھنا منع کیا ہے۔ ‘‘ شازیہ نے بتایا ’’ میرے لئے تیز رفتار گاڑیوں کے بیچ سڑک کراس کرنا مجبور ی ہے کیونکہ سرکار نے اوور ہیڈ برج اتنااونچا بنایا ہے جو کسی بھی کام کا نہیں ہے۔ مریضوں اور عام لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی کسی بھی ریاست میں کسی بھی ہسپتال کیلئے قومی شاہراہ پر اوور ہیڈ برج نہیں ہے بلکہ زیر زمین سب وے تعمیر کی گئیں ہیں تاکہ وہیل چیئر پر بھی مریض ہسپتال پہنچ سکیں لیکن جے وی سی کیلئے ایسا نا ممکن ہے۔انہوں نے کہا اگر حکومت مریضوں اور تیمارداروں کو راحت پہنچانا چاہتی ہے تو اسی جگہ زیر زمین راستہ بناکر مریضوں کو راحت پہنچا سکتی ہے۔ جے وی سی میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر شفا دیوا نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ یہ لوہے کا پل بھی کافی مدد گار ثابت ہورہا ہے اور بہت سے لوگ اس کا استعمال کررہے ہیں لیکن یہ بات سچ ہے کہ حاملہ خواتین اور مختلف امراض میں مبتلا عمر رسیدہ افراد کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا ’’ اس جگہ پر کافی ٹریفک حادثات ہورہے تھے، اسی لئے اوور ہیڈ برج بنانے کی ضرورت پڑی‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آر اینڈ بی کو سب وے بنانے کو کہا تھا لیکن اس میں مشکلات پیش آ رہی تھیں اور مزید جانوں کا زیاں ہونے سے بچانے کیلئے لوہے کا پل بنانے کی اجازت دی ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جے وی سی کے نزدیک ہی اب چلڈرن ہسپتال بھی ہے جہاں اسی طرح کی صورتحال پیش آرہی ہے اور یہاں بھی حادثات کا خطرہ رہتا ہے۔ دونوں ہسپتالوں تک پہنچنے کیلئے سب ویز کی تعمیر انتہائی موزون اور تمام صورتحال کے مد نظر اچھا فیصلہ ہوتا لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک اس اہم معاملے کو صرف نظر کیا گیا ہے،جس کیساتھ لوگوں کی جانیں منسلک ہیں۔