پی آئی بی
یکم جنوری 2025کوکینیڈا نے G7کی صدارت کا عہدہ، ساتویں سنبھالا۔اس سال G7سربراہی اجلاس کی 50ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ G7کی بنیاد50سال قبل رکھی گئی تھی، جب فرانس نے 1975میں اس گروپ کے پہلے اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ 2025، G7کی شراکت داری اور تعاون کا نصف صدی کا سنگ میل ہے۔ گزشتہ 5 دہائیوں کے دوران، یہ گروپ بین الاقوامی امن و سلامتی، عالمی اقتصادی خوشحالی اور پائیدار ترقی کا ایک محرک قوت رہا ہے۔اگرچہ بھارت G7کا رکن نہیں ہے، لیکن ہمارے وزیر اعظم نے گزشتہ سربراہی اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔یہ بھارت کی G7سربراہی اجلاسوں کے رابطہ نشست میں 12ویں شرکت اور وزیر اعظم مودی کی 6ویں شرکت ہوگی۔
گروپ آف سیون (G7) دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں کے 7رکنی غیر رسمی جماعت پر مشتمل ہے، جن میں فرانس، امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، اٹلی، اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ یورپی یونین بھی شامل ہے۔اس کے رکن ممالک عالمی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ہر سال G7سربراہی اجلاس میں مل کر بیٹھتے ہیں۔جو ملک G7کی صدارت سنبھالتا ہے، وہ سربراہی اجلاس کی میزبانی اور اس کے انتظامات کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور سربراہی اجلاس سے قبل وزراء اور اعلیٰ حکام کے درمیان کئی اجلاس کا انعقاد بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔صدر اس سال کا ایجنڈا طے کرتا ہے اور G7کی جانب سے ترجمانی کرتا ہے۔
G7ممالک(کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ)نے پہلی سربراہی اجلاس G6کے طور پر فرانس میں 1975میں منعقد کی تھی، کینیڈا اس کے اگلے سال اس گروپ میں شامل ہوا۔ 2010-2014سے روس اس گروپ کا حصہ تھا اور اسے G8کہا جاتا تھا۔ G7کے رہنما ہر سال ملاقات کرتے ہیں، اور سالانہ صدارت ان سات ممالک کے درمیان باری باری گردش کرتی رہتی ہے۔ G7کوئی باقاعدہ ادارہ نہیں ہے جس کا کوئی منشور یا سیکرٹریٹ ہو؛ ہر ایک سال جن کی صدارت ہوتی ہے، اس سال کے سربراہی اجلاس کا ایجنڈا طے کرنے کی ذمہ دار انہیں کی ہوتی ہے۔ G7کے رکن ممالک اس وقت عالمی مجموعی گھریلو پیداوار (GDP) کا تقریباً45فیصداور دنیا کی آبادی کا زائد از10فیصد حصہ نمائندگی کرتے ہیں۔ G7کو وسعت دے کر G10یا D10(جمہوریتیں 10) بنانے کے حوالے سے گفتگو جاری رہی ہے، جس میں بھارت اور چین جیسے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو شامل کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
G7نے ابتدا میں اقتصادی امور پر توجہ مرکوز کی تھی، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک مشاورتی فورم بن گیا ہے جو اہم عالمی چیلنجز جیسے امن و سلامتی، انسداد دہشت گردی، ترقی، تعلیم، صحت، ماحولیات اور ماحولیاتی تبدیلی پر مشترکہ موقف تلاش کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ 2003سے غیر رکن ممالک (روایتی طور پر ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک) کو ’آؤٹ ریچ‘ سیشنز میں مدعو کیا جاتا رہا ہے۔G7 نے غیر سرکاری فریقین کے ساتھ بھی روابط قائم کیے ہیں، جس کے نتیجے میں کاروبار، سول سوسائٹی، محنت کشوں، سائنس و تعلیم، تھنک ٹینکس، خواتین کے حقوق اور نوجوانوں سے متعلق امور پر کئی مشاورتی گروپس قائم کیے گئے ہیں۔ یہ گروپس G7کی صدارت کو سفارشات فراہم کرتے ہیں.
بھارت اب تک گیارہ G7سربراہی اجلاس کے آؤٹ ریچ سیشنز میں شرکت کر چکا ہے۔:2003(فرانس)، 2005 (برطانیہ)، 2006(روس)، 2007(جرمنی)، 2008(جاپان)، 2009(اٹلی)، 2019(فرانس)، 2021(برطانیہ)، جرمنی (2022)، جاپان (2023)، اور اٹلی (2024)۔ بھارت کی تمام شرکت وزیر اعظم سطح کی ہوئی ہیں۔
51ویں G7سربراہی اجلاس کے آؤٹ ریچ سیشن میں ایک سیشن شامل ہوگا۔ دستیاب معلومات کے مطابق، G7سربراہی اجلاس کے توجہ طلب شعبےہماری کمیونٹیز اور دنیا کا تحفظ— امن و سلامتی کو مضبوط بنانا، غیر ملکی مداخلت اور سرحد پار جرائم کا مقابلہ کرنا، اور جنگلاتی آگ جیسے خطرات سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنانا ،توانائی کے تحفظ کو مضبوط بنانا اور ڈیجیٹل تبدیلی میں تیزی لانا— اہم معدنیات کی فراہمی کی زنجیروں کو مستحکم بنانا اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مصنوعی ذہانت اور کوانٹم ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا،مستقبل کی شراکت داری کو محفوظ بنانا— مضبوط ڈھانچے کی تعمیر، زیادہ اجرت والی ملازمتوں کی تخلیق، اور متحرک منڈیوں کے قیام کے لیے نجی شعبے کی بڑی سرمایہ کاری کو فروغ دینا جہاں کاروبار مقابلہ کرتے ہوئے کامیاب ہو سکیں۔
G7کے لیے بھارت کی بڑھتی ہوئی اہمیت درج ذیل نکات سے ظاہر ہوتی ہے:
گزشتہ چند سالوں سے بھارت کو باقاعدگی سے G7سربراہی اجلاس کے آؤٹ ریچ سیشن میں مدعو کیا جا رہا ہے
آج بھارت دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے. اس کی معیشت کم از کم 3 G7 رکن ممالک — فرانس، اٹلی، اور کینیڈا — سے بڑی ہے
بھارت نے 2023میں اپنی G20 کی صدارت مکمل کی اور اب عالمی جنوب کی ایک مضبوط آواز کے طور پر ابھرا ہے
بھارت نے ہمیشہ اپنے سابقہ G7سربراہی اجلاسوں میں کی گئی تدارکات کے دوران عالمی جنوب کے مسائل اجاگر کیے ہیں
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپولیا (2024) میں اپنے 5ویں G7سربراہی اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے دیگر مدعو ممالک کے ساتھ G7سربراہی اجلاس میں اہم موضوعات جیسے مصنوعی ذہانت، توانائی، افریقہ، اور بحیرہ روم پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ اجلاس ایک اہم پلیٹ فارم تھا جہاں G7 اور آؤٹ ریچ ممالک نے اپنے خیالات اور نقطہ نظر کا تبادلہ کیا، تاکہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے کی اجتماعی کوششوں کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ 51ویں G7سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم کی شرکت کے دوران ضمنی باہمی ملاقات بھی شامل ہوگی۔
وزیر اعظم کا آج سے 3ملکوں کا دورہ | جی7چوٹی کانفرنس میں شریک ہوں گے
عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی//وزیر اعظم نریندر مودی اآج سے تین ملکوں کے دورہ پر رہیں گے۔ اس دوران وہ جی-7 سمٹ میں حصہ لیں گے۔ مودی کا یہ غیر ملکی دورہ 15 سے 19 جون تک جاری رہے گا، جس میں وہ قبرص، کینیڈا اور کرویشیا کا سفر کریں گے۔ مودی سب سے پہلے 16-15 جون کو قبرص جائیں جائیں گے۔ اس کے بعد وہ 17-16 جون کو کینیڈا کا سفر کریں گے۔کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کی دعوت پر وزیر اعظم مودی کینیڈا کے دورہ پر جا رہے ہیں۔ اس دوران وہ جی-7 چوٹی کانفرنس میں بھی شریک ہوں گے۔ جی-7 چوٹی کانفرنس میں اس بار وزیر اعظم مودی چھٹی مرتبہ شامل ہو رہے ہیں۔چوٹی کانفرنس میں وزیر اعظم مودی توانائی تحفظ، ٹکنالوجی اور اِنوویشن، خاص طور سے اے آئی-توانائی نیکسس اور کوانٹم سے متعلق معاملوں سمیت اہم عالمی مدعوں پر جی-7 ملکوں کے رہنماوں، دیگر مدعوئین آوٹ ریچ ممالک اور بین الااقوامی تنظیموں کے سربراہوں کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔ وزیر اعظم چوٹی کانفرنس سے الگ کئی دوطرفہ میٹنگ بھی کریں گے۔