عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/گورنمنٹ میڈیکل کالج جموںمیں دو خواتین ڈاکٹروں پر مریض کے رشتہ دار کی مبینہ مار پیٹ کے خلاف جونیئر ڈاکٹروں کی ہڑتال جمعہ کو دوسرے روز بھی جاری رہی، جس کے باعث مریضوں کے علاج معالجے کی خدمات بری طرح متاثر ہو گئی ہیں۔ اس صورتحال نے مریضوں کی حفاظت اور علاج معالجہ کی فراہمی کو بری طرح سے متاثر کر دیا ہے۔
ہڑتال کے باعث آؤٹ پیشنٹ، اِن پیشنٹ اور معمول کی سرجریوں جیسی اہم طبی سہولیات مفلوج ہو گئی ہیں، جب کہ ایمرجنسی سروسز کو سینئر ڈاکٹروں اور کنسلٹنٹس کی مدد سے بمشکل جاری رکھا جا رہا ہے، تاہم عملے کی قلت نے اسپتال کے نظام پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔
ایک طرف جونیئر ڈاکٹروں اور ایک متوفی مریض کے اہلِ خانہ کے درمیان تناؤ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے الزام لگایا کہ ان کی ساتھی خواتین ڈاکٹروں پر تشدد کیا گیا، جبکہ مریض کے لواحقین نے ڈاکٹروں پر غفلت برتنے کا الزام لگایا، جس کے باعث مریض کی موت واقع ہوئی۔
بطور احتجاج جونیئر ڈاکٹروں نے ایمرجنسی وارڈ کے باہر مظاہرہ کیا، اور مطالبہ کیا کہ ملزم تیمادارکو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ ڈاکٹروں نے پلے کارڈز اٹھا کر نعرے بازی کی اور اعلان کیا کہ جب تک انصاف نہیں ملتا، وہ ڈیوٹی پر واپس نہیں آئیں گے۔ایک احتجاجی ڈاکٹر نے کہا، ’’ہماری ساتھیوں پر ڈیوٹی کے دوران حملہ کیا گیا۔ ہم فوری پولیس کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب تک گرفتاری نہیں ہوتی، ہم کام پر واپس نہیں آئیں گے۔‘‘
صورتحال کو سنبھالنے کے لیے سینئر فیکلٹی ممبران نے خدمات سنبھال لی ہیں۔ جی ایم سی جموں کے پرنسپل اور ڈین، ڈاکٹر آشوتوش گپتا نے کہا کہ ایڈمنسٹریشن ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے تاکہ بحران کو قابو میں رکھا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری پوری کوشش ہے کہ ایمرجنسی مریضوں کو فوری طبی امداد دی جائے اور کسی نازک مریض کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
دریں اثنا، سیکرٹری ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹر سید عابد رشید شاہ نے بدھ کی رات احتجاجی ڈاکٹروں سے ملاقات کی، اور انہیں عوامی مفاد میں ڈیوٹی پر واپس آنے کی اپیل کی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ تاہم، ڈاکٹروں نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ جب تک گرفتاری نہیں ہوتی، کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔
ہڑتال کے جاری رہنے سے سینکڑوں مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ معمول کی کارروائیاں مکمل طور پر معطل ہو چکی ہیں، آخری اطلاعات تک کوئی گرفتاری یا پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے، اس لیے بحران مزید طول پکڑ سکتا ہے۔
یہ واقعہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی حفاظت اور ہسپتالوں میں سیکیورٹی نظام کو مضبوط بنانے کے مطالبے کو پھر سے اجاگر کر رہا ہے۔