سرینگر//مرکزی جی ایس ٹی کے جموں وکشمیر میں من و عن اطلاق سے نہ صرف ریاست کی مالی خودمختاری مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے جبکہ یہاں کا تاجر اور صنعتی طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج صنعتی اور تجارتی طبقے اس قانون کیخلاف سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور ہوگئے ہیں۔ ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے پارٹی ہیڈکوارٹر پر مختلف تجارتی انجمنوں کے نمائندوں، دستکاروں اور کاریگروں کے وفود کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیشنل کانفرنس ہی تھی جس نے جی ایس ٹی قانون کیخلاف آواز اُٹھائی لیکن حکمران پی ڈی پی اور بھاجپا نے اسمبلی میں اکثریت کا جارحانہ استعمال کرکے یکطرفہ فیصلہ لیا اور اس مرکزی قانون کو ریاست کے اندر لاگو کردیا۔ ساگر نے کہا کہ ہم نے ہر ایک سطح پر مرکزی جی ایس ٹی قانون کے ریاست میں من و عن اطلاق سے ریاست کی مالی خودمختاری اور اقتصادیات پر پڑھنے والے منفی اثرات کو اُجاگر کیا اور اس کیخلاف آواز اُٹھائی، لیکن حکمران جماعت نے ریاست اور عوام کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے ناگپور اور نئی دلی کو خوش کرنے کیلئے یہ انتہائی غلط فیصلہ لیا۔ جنرل سکریٹری نے کہا کہ پی ڈی پی حکومت نے جی ایس ٹی کا اطلاق عمل میں لاتے وقت جو رویہ اختیار کررکھا تھا وہ انتہائی غیر دانشمندانہ، عوام دشمن اور ریاست مخالف تھا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی کو دفعہ370اور ریاست کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کیلئے اقتدار سونپا گیا ہے اور اس جماعت کے خودساختہ لیڈران تن دہی سے کرسی کے عوض بھاجپا اور آر ایس ایس کے خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔ ساگر نے کہا کہ جنوری2015میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے آج تک پی ڈی پی سرکار نے 3مرکزی قوانین کو ریاست میں نافذ کروایا۔ اس سے بڑی سودابازی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی کی وزیر اعلیٰ اور وزراء نے لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے یہ بیانات جاری کئے گئے جی ایس ٹی کا اطلاق محض ٹیکس معاملات تک ہی محدود ہے لیکن اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد بھاجپا والوں نے جس طرح جشن منایا اور اسے جموں و کشمیر کا بھارت کیساتھ اقتصادی انضمام قرار دیا، اُس سے پی ڈی پی والوں کی فریب کاری اور مکاری خود بہ خود عوام کے سامنے آگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ پی ڈی پی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی گذشتہ دنوں مرکزی وزیر خزانہ کے پاس جموں وکشمیر میں چند ٹیکسوں میں رعایت کیلئے منت سماجت کرنے گئیں تھی لیکن موصوفہ کو وہاں سے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا۔