سرینگر//ریاست میں اشیاء اور خدمات ٹیکس کے اطلاق کے حق اور مخالفت میں وادی اور جموں کے تاجروں کی طرف سے ایجی ٹیشن چھیڑنے کی دھمکی کے بیچ مخلوط سرکار نے کہا ہے کہ29جون کو کل جماعتی مشاورتی اجلاس کے دوران’’جی ایس ٹی ‘‘ پر حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔وزیرخزانہ ڈاکٹر حسیب درابو نے کہا کہ اس قانون کے اطلاق سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کسی بھی طور متاثر نہیں ہوگی،تاہم اگر جی ایس ٹی لاگو نہیں کیا گیا تو ریاست کا کوئی بھی تاجر اور صنعت کار تجارت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔بھارت کی ریاستوں میں یکم جولائی سے یکساں ٹیکس نظام’’جی ایس ٹی‘‘ لاگو ہونے سے صرف2روز قبل ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر جمعرات کو حتمی فیصلہ لیا جائے گا کہ جموں کشمیر میں کب سے اس نظام کو رائج کیا جائے گا۔ پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹرحسیب درابو نے اس بات کا کھل کر اعتراف کیا کہ جموں کشمیر میں اشیاء اور خدمات ٹیکس کو لاگو کرنے پر سماج کے ایک بڑے طبقے،سیاسی اور سماجی انجمنوں کے علاوہ سیول سوسائٹی کو خدشات اور تحفظات ہیں ۔انہوں نے اس حوالے سے بتایا ’’اگر جموں وکشمیر میں جی ایس ٹی کا اطلاق نہیں ہوتا ہے ،تو ریاست بُری طرح متاثر ہوگی جبکہ عوام کی پریشانیوں میں کئی گنااضافہ بھی ہوگا‘۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا’ ’جی ایس ٹی کے بغیر ریاست کے تاجر کسی سے بھی تجارت نہیں کرسکتے ہیں ،نہ کوئی چیز برآمد ہوگی اور نہ ہی در آمد ہو گی‘،دہرا ٹیکس تو دور کی بات ہے‘۔انہوں نے اس خد شے کا اظہار کیا کہ اگر وقت پر ریاست میں جی ایس ٹی کا اطلاق نہیں ہوتا ہے تو عام آدمی کو ایشیاء ضروریہ کیلئے مشکلات کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے جبکہ اس کے اطلاق میںتاخیر کی صورت میں سمگلنگ کرنے کو موقع حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیکس نظام کو رائج کرنے سے کورپشن بھی کم ہوگا،کیونکہ نقد لین دین کا گراف بھی نیچے آئے گا۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ قانون لاگو کرنے سے ابتدائی طور پر اگر چہ’’نوٹ بندی‘‘ کے طرز پر ہلچل مچ جائے گی،تاہم آئندہ3سے4ماہ تک سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مالی علیحدگی کا شکار ہوگی اور ریاست کی مالی صحت بھی متاثر ہوگی۔ درابو نے کہا ’’ریاست کی مالی خود مختاری پر سمجھوتہ کئے جانے کی غلط افواہیں پھیلائی جاری ہیں‘‘ ۔انہوںنے کہا کہ ریاست کی آئینی پوزیشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور ہم ریاستی اسمبلی کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ یہ سرکار کے ایجنڈاآف الائنس میں موجود ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن متاثر نہ ہو، ایسے میں سوال ہی نہیں اٹھتا ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن جی ایس ٹی کے اطلاق سے متاثر ہوگی۔ اْنہوں نے سوالیہ انداز میںکہا کہ اگر سرکار کا کوئی غلط مفاد ہوتا تو ہم جی ایس ٹی کو اسمبلی میں بحث کے لئے کیوں لاتے؟ڈاکٹر درابو نے کہا کہ صدارتی احکامات کی توسیع کے ذریعے تقریباً 46ترامیم کو ریاست میں لایا گیا ہے جنہوں نے آہستہ آہستہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کو زک پہنچایا جبکہ یہ تمام خفیہ طور ریاست میں لاگو کی گئیں ۔ان کا کہناتھا کہ مذکورہ ترمیم47ویں ہوتی اور اگر پی ڈی پی چاہتی تو خفیہ طور اس ترمیم کو بھی جموں وکشمیر میں لاگر کرتی لیکن پی ڈی پی وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ کوئی خدشہ موجود نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے ’’ ریاست کا آئین ہمیں جامع قانونی اختیارات فراہم کرتا ہے، البتہ ہم اس ریاستی قانون سازیہ کو پھر سے بااختیار بنانا چاہتے ہیں‘‘۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اپوزیشن کو ہٹ دھرمی کے بجائے ریاست کی خصوصی مالی خود مختاری کا تحفظ کرتے ہوئے جی ایس ٹی کو عملانے کے لئے ایک جامع لائحہ عمل کے ساتھ آگے آنا چا ہئے۔انہوں نے کہا 29جون کو کل جماعتی مشاورتی کمیٹی کی ایک اور میٹنگ منعقد ہونے جارہی ہے ،جس میں جی ایس ٹی کے اطلاق پر حتمی فیصلہ لیا جائیگا۔درابونے کہا کہ سرکار ہر ایک کو اعتماد میں لیکر ریاست میں جی ایس ٹی کا اطلاق کرنا چاہتی ہے تاکہ شک وشبہات کی کوئی گنجائش نہ رہے۔جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ اگر جی ایس ٹی کے اطلاق سے ریاست کی خصوصی پوزیشن متاثر نہیں ہوگی اور اسکے اطلاق سے جموں وکشمیر کو فائدہ حاصل ہو گا ،تو وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کیلئے ناکام کیوں رہے؟ان کا کہناتھا کہ ہر ایک کو اعتماد میں لینے کیلئے ہی اس معاملے پر بحث اور مشاورت ہورہی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ جی ایس ٹی کا اطلاق ریاست میں ہوتا ہے یا نہیں،مخلوط سرکار کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جموں وکشمیر انتہائی حساس ریاست ہے یہاں معمولی چنگاری بھی بھیانک آگ میں تبدیل ہوسکتی ہے لہٰذا پی ڈی پی کی سر براہی والی سرکار ریاست کو شعلوں کی نذر کرنے کے بجائے تمام خدشات افہام وتفہیم کے ذریعے دور کرنا چاہتی ہے۔