جی ایس ٹی کے مخفف سے موسوم جنرل سیلز ٹیکس قانون ملک بھر میں یکم جولائی 2017سے نافذ العمل ہو رہا ہے لیکن جموںوکشمیر میں اس کے نفاذ کے حوالے سے ایک زبردست ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے،کیونکہ اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ ریاست میں اس قانون، جو آئین ہند کی 101ویں ترمیم کے بعد وجود میں آیا ہے، کے موجودہ حالت میں نفاذ سے نہ صرف بلواسطہ ٹیکس انتظامات کے حوالے سے ریاست کو حاصل اختیارات ختم ہونگے بلکہ یہ دفعہ370کے تحت ریاست کو حاصل نیم خود مختاری کو بھی بُری طرح متاثر کرے گا اور ا س طرح عملی طورریاستی آئین کا سکین5غیر موثر بن جائے گا ، کیونکہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے ٹیکسوں کے تعین او رانکے نفاذ کے سارے اختیارات جی ایس ٹی کو نسل ، جسکے سربراہ مرکزی وزیر داخلہ ہیں، کو منتقل ہوجائینگے۔ اس طرح ریاستی آئین کے سیکشن5، جس کے تحت ریاستی حکومت کو بلواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ کا اختیار حاصل ہے ، کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور ٹیکسوںمیںکسی قسم کی تخفیف یا ضروری نرمی کےلئے ریاستی حکومت کو جی ایس ٹی کونسل سے ہی رجوع کرنا ہوگا، کیونکہ وہی ایسے کیسی فیصلےکی مجاز ہوگی اور پھر ریاستی حکومت کی تجاویز کو تسلیم کرنا یا مسترد کرنا اسی کے دائرہ اختیار میں ہوگا۔ اگر چہ ریاستی وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ کی طرف سے بار بار یہ یقین دہانی کرائی گئ ہے کہ وہ ریاست کے مالی و ٹیکس اختیارات کو کمزور کرنے کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کرینگےاور جی ایس ٹی کے نفاذ کے لئے تمام فریقین میں اتفاق رائے پیداکرینگے ،تاہم سیاسی جماعتوں اور تجارتی انجمنوں کے اس سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا ہے کہ اگر نئے قانون کا ریاست میں نفاذ عمل میں لایا جاتا ہے تو ریاستی حکومت کے ٹیکس اختیارات ختم ہوکرجی ایس ٹی کونسل کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ایسی صورت میں و ہکیسے فریقین کو اپنے ہمراہ لے جاسکتے ہیں؟۔ تجارتی حلقوں کی جانب سے اس قانون پر جو اعتراضات کئے جارہے ہیں ۔اُ ن سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتاکیونکہ ریاست کے اندر سیاحتی صنعت پر سروس ٹیکس عائد نہیں تھا جبکہ نئے انتظام کے تحت جی ایس ٹی کے تحت یہ ٹیکس عائید ہونگے ایسا ہی حال دیگر کئی شعبوں کا ہے۔چونکہ سیاحت کو فی الوقت ریاستی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ،لہذا اس حال میں اسکے تحفظ کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ حکمرانوں کی جانب سے بار بار یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ تجارتی حلقوں کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائیگا، لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا ، اسکی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ تجارتی حلقوں کے ترددات دو ر ہوسکیں۔ اصل میں حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ریاستی اسمبلی کے 17جون کو ہونے والے خصوصی اجلاس میں پیش کئے جان والے ترمیمی بل کے مسودے کو معلن کرکے عوامی مباحثے کے لئے پیش کرتیتاکہ متعلقین کی آراء کھل کر سامنے آتیں۔مگر ایسا نہیں ہوا، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ اس مجوزہ قانون کے حوالے سے عوامی اور تجارتی حلقوں میں مکمل ناواقفیت ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔اپوزیشن کا یہ کہنا بھی سرسری طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ستمبر2016میں صدر جمہوریہ کی جانب سے آئین کی دفعہ101میں ترمیم کی توثیق کے بعد مرکزی حکومت نے مختلف ریاستوں کو اس قانون کی تیاری کے انتظامات کے لئے 6ماہ کا موقع دیا ۔ چونکہ ریاست میں براہ راست اس قانون کا نفاذ ممکن نہیں تھا ، ریاستی حکومت کو بھی ترمیمی بل کی تیاری کےلئے متذکرہ وقت میسر تھا، مگر حقیقت یہی ہے کہ تقریباً دس ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس پر کوئی عوامی مباحثہ نہیں ہوا۔ اگر چہ وزیراعلیٰ نے کچھ تاجر نمائندوں سے تبادلہ خیال کیا تھا مگر اس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ اب جبکہ کُل ہند سطح پر قانون کے نفاذ کی تاریخ سر پہ آپہنچی ہے ،ریاست میں اس پر مباحثہ شروع ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس حوالہ سے بلائےگئے کُل جماعتی اجلاس میںکوئی متفقہ رائے نہیں بن سکی ہے۔17جون کو ریاستی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں کیا کچھ سامنے آسکتا ہے، اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم اپوزیشن اور تجارتی انجمنوں کے جو تیور نظر آرہے ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے کسی مثبت نتیجہ کی اُمید معدوم ہو تی جارہی ہے۔ اگر ڈیڈ لاک یونہی چلتا رہا اور کوئی حل سامنے نہیں آیاتو یکم جولائی سے ریاست کے تاجروں کو اشیاء کی خریداری پر دوہرے ٹیکس کی مار برداشت کرنا پڑیگی، جو بالآخر ریاستی صارفین کےلئے بے بیان مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ فی الوقت حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ٹکرائو کی پالیسی کو ایک طرف رکھ کر متفقہ طور پر ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں، جس سے ایک جانب ریاست کے مالی اختیارات متاثر نہ وں اور دوسری جانب تاجروں اور صارفین کے لئے راحت کا سامان ہو۔