بالآخر جموںوکشمیر میں جی ایس ٹی کے نفاذ کا قانون پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا اور مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اسے ملک کے ساتھ ریاست کے معیشی انضمام قرار دیکر اُن خدشات کو درست ٹھہرایا، جنکا اظہار ریاست کی اپوزیشن سیاسی جماعتیں اور تجارتی و صنعتی حلقے روز اول سے ہی کرتے آئے ہیں کہ مرکزی قانون لاگو ہونے سے ٹیکسوں کے نفاذ سے متعلق ریاستی حکومت کو حاصل اختیارات مسدود ہو کر رہ جائینگے۔ وزیر خزانہ نے ٹیکس نظام کے حوالےسے جموںوکشمیر کے لئے مخصوص رعایات کو ختم کرنے کی ضرورت کو اس نئے قانون کا مقصد ٹھہراتے ہوئے یہ دلیل بھی پیش کی کہ جموںوکشمیر ایک صرفہ کی حامل ریاست ہے، لہٰذامذکورہ قانون کے عدم نفاذ کی صورت میں یہاں صارفین کو مطلوب اشیاء مہنگے داموں خریدنا پڑتیں نیز تاجروں کو ہمسایہ ریاستوں سے مال منگوا کر دوہرا محصول ادا کرنا پڑتا ، جسکا بوجھ بالآخر صارفین کو ہی برداشت کرنا پڑتا۔ مذکورہ قانون کے بل پر بحث کے دورا ن جب اپوزیشن کانگریس پارٹی کے کچھ اراکین نے اسے ریاست کو حاصل خصوصی آئینی درجہ کے حوالے سے نازک مضمرات کا حامل قرار دیا تو وزیر موصوف نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ اسے ’’ علیحدگی پسندوں کی دلیل‘‘ جتلاتے ہوے اُنہیں اس سے احتراز کرنے کا مشورہ دیا۔ وزیر خزانہ کی تقریر سے دو باتیں صاف ہو کر سامنے آتی ہیں اور دونوں ریاست کے سنجیدگی فکر سیاسی، معیشی و سماجی حلقوں کےلئے قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ جموںوکشمیر ایک پیداواری ریاست نہیں بلکہ صارف ریاست ہے، جہاں بیش تر اشیاء دیگر ریاستوں سے درآمد کی جاتی ہیں۔ دوم یہ کہ ریاست کی داخلی خودمختاری، جو یہاں کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی نظریاتی بنیاد رہی ہے، پر بات کرنا علیحدگی پسندی کے مترادف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب جی ایس ٹی کو نسل کا اجلاس سرینگر میں منعقد ہوا تھا تو جیٹلی صاحب نے جی ایس ٹی قانون کے نفاذ کی صورت میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھار نہ کرنے کی قسمیں کھائی تھیں اور آج وزیر موصوف اسکے دفاع میں با ت کرنے کو علیحدگی پسندانہ سوچ قرار دیتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ایسا کیو ں ہو رہا ہے؟ کیا یہ جموںوکشمیر کے بارے میں مرکزی حکومت کے نئے اپروچ کی طرف اشارہ کر رہا ہے یا پھر یہ کہ آر ایس ایس کے حامل دائیں بازو کے انتہا پسند حلقوں کی اس سوچ کا مظہر ہے کہ ریاستی عوام کو زیادہ سے زیادہ بے اختیار بنا کر انہیں انکی اوقات دکھائی جائے۔ حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت، جب جموںوکشمیر ڈوگرہ حکمرانوں کے تحت ایک خود مختار ریاست تھی، صارف نہیں بلکہ پیداوار کی حامل ایک ریاست تھی اور کشمیر آرٹس کے برآمدات کی وجہ سے دنیاکی بڑی معیشی منڈیوں سے منسلک تھی۔ اسکے علاوہ بنیاد خوردنی اشیاء کےلئے کسی قسم کی درآمدات کی محتاج نہ تھی۔ آج صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ برآمدات کا کاروبار سمیٹ کر نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، جبکہ خوردنی اشیاء کے لئے ریاست دانے دانے کو محتاج ہے۔ کیا یہ اُن سیاسی پالیسوں کا نتیجہ نہیں ہے، جو یہاں وقت وقت پربرسراقتدار رہی سیاسی جماعتوں نےترتیب دے کر نافذ کی ہیںاور اسکے دوران اپنے مفادات کےلئے ریاست کے اقتصادی مفادات کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ اس کا جواب وہی حضرات دے سکتے ہیں۔ نئی دہلی گزشتہ پون صدی سے علیحدگی پسندوں کے خلاف الیکشنوں میں ریاستی عوام کی بھر پور شمولیت کو ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فخر کے ساتھ یہ کہتی آئی ہے کہ جموںوکشمیرکو بھارت کے وفاق میں خصوصی درجہ حاصل ہے۔ حکمران پی ڈی پی اور اپوزیشن نیشنل کانفرنس کی سیاست کا بنیادی محور بھی یہی نظریہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے 22برس تک محاذ راے شماری کی تحریک چلانے کے بعد داخلی خود مختاری کے نظریہ پر ہی کشمیر ایکارڈ بھی کیا تھا۔ یہ الگ بعد ہے کہ بعد اذاں اسکے بنیادی نکات کو اقتدار کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ ریاست کی مین اسٹریم جماعتوں بالخصوص حکمران پی ڈی پی اور اپوزیشن نیشنل کانفرنس کےلئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ جس سیاسی نظریئے کو وہ ملک کے ساتھ رشتوں کی بنیاد تصور کرتے ہیں، اُسے کس طرح علیحدگی پسندی کے مترادف ٹھہرایا جا رہا ہے۔ پی ڈی پی چونکہ فی الوقت ریاست میں مسند اقتدار پر متمکن ہےلہٰذا اس کی یہ اضافی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مرکزکی ان تر کتازیوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے عوامی ذہنوں میں پیدا ہو رہے انتشار کو رفع کرے۔