یکم جولائی سے ملک بھر میں جنرل سیلز ٹیکس کا نظام نافذ ہوچکا ہے تاہم جموںوکشمیر میں اس کے نفاذ کے حوالے سے تعطل بنا ہوا ہے، جس کے بہ سبب ریاست کی تاجر برداری اور صنعتی حلقے سخت پریشانی میں مبتلا ہو چکے ہیں، کیونکہ فی الوقت بیرون ریاست سے منگوائے جانے والے مال پر دوہرا ٹیکس عائد ہوگا اور کچھ ایسی ہی صورتحال ریاست سے باہر جانے والی اشیاء کا بھی ہے۔ جموںوکشمیر گزشتہ پون صدی کے دوران برسراقتداررہنے والی حکومتوں کی ناقص اور سیاست زدہ معیشی پالیسیوں کے طفیل ایک کم و بیش خود کفیل ریاست سے برآمدات کی حامل صارف ریاست میں تبدیل ہو چکی ہے، لہٰذا اس طرح کا تعطل ریاست کے مفادات کے لئے کاری ضرب کی حیثیت رکھتا ہے۔اگر موجودہ تعطل کو ختم کرنے کی فوری طور پر سنجیدہ اور پُر خلوص کوشش نہیں کی گئی تو یقینی طور پر صارفین کو زبردست مشکلات کا سامنا ہوگا، کیونکہ ریاست کے اندر اشیائے خورد و نوش کے ذخائر چند ہفتوں سے زیادہ عرصہ کےلئے موجود نہیں ہوتے ،اس حالت میں نہ صرف ضروری اشیاء کی قیمتوںﷻمیں اضافہ ہوگا بلکہ اخلاق و اصول سے عاری ناجائز منافع خوری کرنے والے طبقہ کو عام لوگوں کی جیبوں پر بے دردی کے ساتھ ہاتھ صاف کرنے کی کھلی چھوٹ بھی ملے گی۔ ویسے بھی گزشتہ دو روز کے دوران لکھن پور ٹول پوسٹ سے گزرنے والی مال بردار گاڑیوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے، جو آنے والے بحران کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔ آئین ہند کی دفعہ101میں ترمیم کے نتیجہ میں وجود میں آیا یہ نیا قانون آئینی وجوہات کی بنا پر ہی جموںوکشمیر میں نافذ العمل نہیں ہے، کیونکہ اس کے لئے ریاستی آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے، جو بظاہر قانون ساز اسمبلی میں ہی ممکن ہے۔ اگر چہ اس کےلئےاسمبلی کا اجلاس بلایا بھی گیا تھا اس سے ماقبل مشاورتی نشتوں میں برسراقتدار اتحاد اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان اتفاق راے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجلا س ایک دن کے بعد ہی مؤخر کردیا گیا۔ چنانچہ آج اجلاس دوبارہ سے ہو رہا ہے، جس میں نئے ٹیکس نظام کے نفاذ کے حوالےسے بحث و مباحثہ ہوگا۔ صورتحال کیا رُخ اختیار کر یگی، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قابل از وقت ہوگا تاہم کلیدی اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس سمیت حزب اختلاف کی مختلف جماعتوں نے یہ موقف بنائے رکھا ہے کہ وہ موجودہ مسودے سے متفق نہیں ، کیونکہ بقول انکے اس سے جموںوکشمیر کی مالی خودمختاری کم و بیش ختم ہو کر ٹیکسوں کے نفاذ کے متعلق کلہم اختیارات مرکز کو منتقل ہو جائینگے، جو ریاست کو دفعہ370کےتحت حاصل خصوصی پوزیشن کو نقصان پہنچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ریاست کی اٹانومی کے حوالے سے برسراقتدار مخلوط حکومت میں شامل دو جماعتوں پی ڈی پی او ربی جے پی کے مواقف میں بُعد المشرقین ہے۔ ایک طرف داخلی خود مختاری کی حفاظت پی ڈی پی کے بنیادی ایجنڈا کا حصہ ہے، دوسری طرف بی جے پی ابتدائے آفر نیشن سے اٹانومی، جو عملی طو رپر اب برائے نام ہی رہ گئی ہے،کو مسئلہ کشمیر کی بنیاد ی وجہ گردانتی ہے۔ حقیقت میں پچاس کی دہائی کے دوران اس جماعت ، جو ان دنوں جن سنگھ کے نام سے موصوم تھی، نے ہی جموں میں ’’ ایک ودھان ایک پردھان ایک نشان‘‘ کے نعرے کی بنیاد پر شروع کی گئی ایجی ٹیشن کو کل ہند سطح پر حمایت دیکر، اُس وقت کی مرکزی حکومت کو جموںوکشمیر کے اندر مداخلت کرکے ایک منتخب حکومت کو گرانےاور وقت کے ریاستی وزیراعظم کو رات کی تاریکی میں برطرف کرکے جھیل بھیجنے کا موقع فراہم کیا۔اب موجودہ حالات میں اس جماعت سے اٹانومی کے حوالے سے کسی قسم کے مثبت مؤقف کی توقع رکھنا غالبا ً درست نہیں، لہٰذا لے دے کے گیند پی ڈی پی کے پالے میں جاتی کہ وہ شریک اقتدار جماعت کو کن بنیادوں اور شرائط پر آمادہ کرسکتی ہے۔ اگر چہ وزیرخزانہ بار بار یہ یقین دہانی کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ قانون کے نفاز کے دوران ریاست کی داخلی خود مختاری کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا لیکن یہ بھی ایک حقیقت انکی اپنی جماعت میں بھی اس ایشو پر تشویش پائی جاتی ہے۔ حق بات یہ ہے کہ جی ایس ٹی کئی برسوں سے ملک کے اندر زیر بحث ہے لیکن ریاست کے اندر نہ تو موجودہ حکومت نے اور نہ ہی سابق نیشنل کانفرنسی سرکار، جسکے وزیر خزانہ جی ایس ٹی کونسل کے چیئرمین بھی تھے، نے عوامی بیداری پیدا کرنے کی کوئی کوشش کی۔ ایسا دانستہ طو رپر ہوا یا غیر دانستہ طور ، اسکا جواب تو وہی دسے سکتے ہیں، لیکن اتنا تو طے ہے کہ فی الوقت تمام سیاسی جماعتوں کو ایک مثبت طر زعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور وہ مسودۂ قانون پر مباحثے کے دوران اس کے مالی فوائد ہی نہیں بلکہ ریاست کے اندر اسکے آئینی مضمرات کو بھی صدق دلی اور خلوص نیت کے ساتھ زیر نظر رکھیں۔ یہ ریاست کے سیاستدانوں کےلئے ایک امتحان ہوگا؟