سرینگر// جی ایس ٹی کے اطلاق سے کشمیر کی دستکاری صنعت 1865کی صورتحال کی دہلیز پر پہنچنے کا اندیشہ ہے کیونکہ جہاںگھریلو سطح پر تیارکردہ بیشتر اشیاء ایسی ہیں جن پر 28فیصدتک ٹیکس نافذ ہوسکتا ہے، وہیں دستکاروں کو اپنی محنت کی کمائی پر بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگاجو موجودہ جمہوری نظام میں ایک طرح کی برائی سمجھی جاتی ہے ۔ ادھر محکمہ ہنڈی کرافٹس کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کشمیر کی گھریلو صنعت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ساتھ ملاقات کر کے ریاست میں تیار کئے جانے والے کئی اشیاء اور مصنوعات پر ٹیکس کے استثنیٰ کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔وزیر اعلیٰ نے اس سلسلے میں خصوصی طور اخروٹ اور بادام(بشمول گِری اور دیگر منسلک اشیاء)، مقامی دستکاری اشیاء، لکڑی کی مصنوعات، وِلو اینڈ وِکر انڈسٹری، مقامی سپورٹس اشیاء کی صنعت اور زعفران کو مستثنیٰ رکھنے کی مانگ کی۔ ریاست میں جی ایس ٹی کے اطلاق سے سمال اینڈ میڈیم سائز انڈسٹریز، کشمیر کی گھریلو دست کاریاں اور کشمیر میں تجارتی شعبہ بری طرح متاثر ہونے کا قوی احتمال ہے۔ جے سی سی ممبر شکیل قلندر نے بات کرتے ہوئے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’کشمیر کی گھریلو صنعتوں میں کام کرنے والے لوگوں کی محنت سے تیار ہونے والی چیزوں کشمیر ی شال، قالین، پیرماشی اوردیگر چیزوںپر ٹیکس کا عمل بہت پرانے زمانے میں تھا‘‘۔انہوں نے کہا’’ 1865تک مزدوری کرنے والے لوگوں کی کمائی پر ٹیکس عائد ہوتا تھا جس کیلئے مہاراجہ نے راج کاک دھر کو شالبافوں اور دیگر ہنرمند افراد سے ٹیکس حاصل کرنے کیلئے تعینات کیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’ شالبافوں نے اسی ٹیکس نظام کے خلاف 1865میں مہم چلائی جس دوران 28شالبافوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ شکیل قلندر نے کہا ’’ کشمیر میں بیشتر لوگ ان پڑھ تھے اور اسی لئے اس واقعہ کی تشہر نہیں ہوپائی مگر اس کے 21سال بعد سال 1886میں یورپ میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا اور اسکی تشہیر دنیا میں ہوئی اور یکم مئی کو ہر سال یوم مزدور کے طور پر منایا جانے لگا۔ انہوں نے کہا کہ 1947میں بھارت میں جمہوری نظام کے قیام کے بعدمزدوری پر ٹیکس عائد کرنے کو ایک گناہ سمجھا جاتا تھا اور محنت مزدوری کے کاموں مثلاًروزانہ اجرت پر کام کرنے والے کسانوں، ہنرمندوں اور دیگر محنت کشوں کی کمائی پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا تھا۔ شکیل قلندر نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی کے اطلاق سے محنت مزدوری پر ٹیکس عائد کرنے کا سلسلہ پھر سے شروع ہوجائے گا اور کشمیر کے ہنرمند اور محنت کش افراد کیلئے صورتحال پھر سے 1865کی ہوجائے گی کیونکہ کشمیر کی گھریلو صنعت میں زیادہ حصہ مزدوروںاور ہنر مند کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قالین بافی، شالبافی اوردیگر گھریلوصنعتوں میں کوئی بھی چیز تیارکرنے کیلئے خام مال صرف 10فیصد سے 15فیصد صرف ہوتا ہے جبکہ باقی ہنرمندوں کی مزدوری کی قیمت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قالین ، شال اور دیگر گھریلو صنعتوں سے جڑے ہنرمندوں کی طرف سے بنائی گئی چیزوں پر 28فیصد تک جی ایس ٹی نافذ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مزدوروں اور ہنرمندوں کی محنت کی کمائی پر جی ایس ٹی کا اطلاق کشمیری ہنرمندوں کو 1865کی صورتحال تک پہنچا دے گا اور یہ کشمیر کی گھریلو صنعت کو تباہی کے دہانے پر لیکر جائے گا۔ محکمہ ہنڈی کرافٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر مشتاق احمد شاہ نے بتایا ’’کشمیر کی گھریلو دستکاریوں کی تابوت پر جی ایس ٹی آخری کیل ثابت ہوگا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جی ایس ٹی کا اطلاق جان لیوا ہے اور اسلئے ہم نے حکومت کو پہلے ہی باخبر کردیا ہے کہ کشمیر کی گھریلو دستکاریوں سے جڑے افراد کو جی ایس ٹی سے 100فیصد مشتثنیٰ رکھا جائے کیونکہ یہ دستکاریاں ویٹ ٹیکس نظام کے دوران بھی ٹیکس سے مشتثنیٰ تھیں‘‘۔مشتاق احمد شاہ نے بتایا کہ ہنرمندوں اور کاریگروں کی طرف سے بنائی گئی کسی بھی چیز کا سارا خرچہ ہنرمند اور کاریگر کو ہی برداشت کرنا ہوتا ہے۔