سرینگر //کارخانے بند، روزگا رختم ،بمشکل کچھ خریداری اور جی ایس ٹی کے اطلاق نے کشمیر میں قالین بافی کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا دیا ہے۔ ایک زمانے میںکشمیری اقتصادیات کی ریڈ کی ہڈی مانے جانے والی قالین صنعت میں مستقبل کی مخدوشی، روزگار ختم ہونے کی وجہ تین ماہ قبل عائد کیا گیا جی ایس ٹی ہے کیونکہ جی ایس ٹی نے قالین صنعت کی کمر توڑ دی ہے اور کشمیر میں قالین صنعت کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے۔ فاروق احمد نامی ایک ڈیلر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ لوگوں نے کشمیر قالین خریدنا بند کردیا ہے، مزدوری زیادہ ہونے کی وجہ سے کشمیری قالین پہلے بھی سستے نہیں تھے اور اب جی ایس ٹی کے اطلاق سے قیمتیں آسمان کو چھو گئی ہیں۔پلوامہ کے ایک معروف قالین ڈیلر محمد یوسف کا کہنا ہے کہ قالین تجارت میں اب کوئی فائدہ نہیں رہا کیونکہ اب کوئی کشمیری قالین نہیں خریدتا۔معروف سیول سو سائٹی ممبر شکیل قلندر کا کہنا ہے کہ پہلے ٹیکس نظام میں قالین کی صنعت پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا تھا لہٰذا اگر قالین صنعت کو زندہ رکھنا ہے تو اسکو ٹیکس سے مشتثنیٰ رکھنا ہوگا۔ ایک قالین ڈیلر سلیم بٹ کہتے ہیں کہ 54فٹ سلک آن سلک قالین تیار کرنے میں ایک سال لگتا ہے اور کبھی کھبار اس سے زیادہ بھی، کیونکہ یہ قالین کے ڈیزائن پر انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قالین صنعت اس لئے زندہ تھی کیونکہ بہت سارے لوگ ایک ساتھ ملکر کام کرتے تھے جس میں کاریگر اپنا ہنر دکھاتا تھااور ڈیلر اپنا پیسہ صرف کرکے قالین بناتا تھا اور گاہکوں کو فروخت کرتا تھا۔بٹ نے کہا کہ قالین صنعت پر پیسہ صرف کرنے والوں کو قرضے نہیں مل رہے ہیں جسکی وجہ سے یہ صنعت ختم ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی قالین خریدتا ہے و ہ کاریگروں کیلئے خریدتا ہے کیونکہ میٹریل پر صرف 20فیصد ہی خرچ ہوتا ہے باقی مزدوری ہوتی ہے اور ڈیلروں کو زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ نذیر احمد ڈار جو جی ایس ٹی کے اطلاق سے قبل 30لوم چلاتے تھے اور اب صرف 24چلاتے ہیں۔ کیونکہ اب نئے آرڈر ملنا بند ہوگئے ہیں ۔ ڈار نے کہا ’’ ہمارے پاس کوئی نیا آرڈر نہیں ، ہم صرف پرانے آرڈر مکمل کررہے ہیں جبکہ 80فیصد لوم بیکار ہیں‘‘۔ کارپیٹ ڈیلر اور قالین کی بر آمد کو بڑھاوا دینے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے ممبر شیخ عاشق کہتے ہیں کہ قالین صنعت کا مستقبل خطرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قالین زیادہ قیمت والی چیز ہے اور ہم ان پر اچانک سے جی ایس ٹی کا اطلاق نہیں کرسکتے۔