سرینگر//متنازعہ ٹیکس قانون ’جی ایس ٹی ‘مخالف مہم کے تحت تاجروں ،صنعت کاروں اورسیول سوسائٹی کارکنوں نے لالچوک میں احتجاجی دھرنادیاجبکہ کشمیراکنامک الائنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین فاروق احمدڈار کو پولیس نے پریس کالونی کے نزدیک کچھ ساتھیوں سمیت حراست میں لیا۔تجارتی انجمنوں اور سیول سوسائٹی نے منگل کو جی ایس ٹی قانون کے نفاذ کی منسوخی، آرٹیکل35Aپر مبینہ ضرب کاری اور شہری ہلاکتوں کے خلاف لالچوک میں جموں کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی کے بینرتلے گھنٹہ گھر کے نزدیک احتجاجی دھرنا دیا۔مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں بینیر اور پلے کارڑ اٹھا رکھے تھے،جن پر جی ایس ٹی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس موقعہ پر چیمبر آف کامرس انڈسٹریز کشمیر کے صدر ظہور احمد ترمبو نے کہا کہ اشیاء و خدمات ٹیکس سے ریاست کی اقتصادی خود اختیاری دائو پر لگا دی گئی اور اس قانون کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔انہوں نے اس بات کو دہریا کہ وہ ٹیکس نظام کے خلاف نہیں ہے،تاہم ریاست کو جیسے پہلے بھی مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنا جی ایس ٹی قانون بنائے،آج بھی تاجر وہی صلاح دے رہے ہیں۔اس دوران پروگرام کے پیش نظر پولیس نے کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن کے صدر حاجی محمد یاسین خان اور ڈاکٹر مبین شاہ کو کئی روز قبل ہی خانہ نظر بند رکھاتھا۔اس دوران کشمیر اکنامک الائنس کی طرف سے پریس کالونی میں احتجاجی جلوس نکالا گیاجس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان مخاصمت کے بعد پولیس نے الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار اورحاجی نثار سمیت کئی افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ۔فاروق احمد ڈارنے بتایا کہ ایک منصوبے کے تحت مخلوط سرکار آر ایس ایس کی پشت پناہی سے کشمیر میں’’جی ایس ٹی‘‘ کو لاگو کیا گیاتاکہ ریاستی عام بالخصوص وادی کے لوگوں کو دہلی کے سامنے کشکول اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔انہوں نے کہا’’ آرٹیکل35Aپر ضرب لگا کر جموں کشمیر میں بیرون ریاستوں کے باشندں کیلئے دروازہ کھولا جا رہا ہے‘‘۔