حکمران پی ڈی پی بھاجپا گٹھ جوڑ نے ایک اور بار اپنی ڈولتی ہوئی کرسی بچانے کیلئے ریاستی عوام سے دھوکہ کیاہے۔ آخر کار جی ایس ٹی کو ہماری ریاست پر بھی بالکل اُسی طرح نافذ کردیا گیا ہے جس طرح ملک کی دوسری ریاستوں میں۔ حالانکہ گٹھ جوڑ نے بار بار یقین دہانی کرائی تھی کہ ایسا بالکل نہیں کیا جائے گا لیکن یہ سب فریب کاری تھی اور حکومت ایسا صرف عوام کو دھوکہ دینے کیلئے کررہی تھی۔ ریاست کی مالی خودمختاری کے ساتھ اس کی خصوصی پوزیشن، جس کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، بری طرح بگاڑ دی گئی ہے۔ در حقیقت دفعہ370؍ جو ہندوستانی آئین کا حصہ ہے اور دفعہ5؍جو ریاستی آئین کا حصہ ہے ، کو بری طرح پامال کردیا گیا ہے۔ سرکاری گٹھ بندھن کے اصل ارادے اُسی وقت صاف طور پر سامنے آئے تھے جب 5؍جولائی 2017کو ریاست کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابونے قانون ساز اسمبلی میں اعلاناً کہا تھا کہ دفعہ370ریاست کی تعمیر و ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اُس نے بالکل وہی زبان استعمال کی جو وہ انتہا پسند سیاسی عناسر استعمال کرتے ہیں جو دفعہ370کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے ایک مرکزی وزیر نے ریاست پر جی ایس ٹی کے نفاذ کو مرکز کے ساتھ جموں وکشمیر کے الحاق کو اس کی حتمی تصدیق کے مترادف قرار دیا۔
ریاست میں جی ایس ٹی کے اطلاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے حزب اختلاف اور دوسرے متعلقین (Stakeholders) کے اُن اندیشوں اور خدشات کو قطعی طور نظرانداز کردیا، جو وہ اس کے متعلق ظاہر کرتے آئے تھے۔ یہ ساری کارستانی اتنی جلدی سے کی گئی جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ یہ اس لئے تعجب کی بات نہیں ہے کہ انہیں نہ صرف دلی بلکہ ناگپور کے ساتھ بھی اپنی وفاداری دکھانی تھی۔ قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کے پاس ایک مبہم اور مشکوک قرارداد پیش کی گئی تھی، جنہوں نے اس کو اسمبلی کی کارروائی سے متعلق قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے بحث کیلئے رکھا اور ایسا کرتے ہوئے پارلیمانی روایت کی دھجیاں اُڑانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ متعلقہ قاعدے کے مطابق قرارداد پیش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ’’اسے صاف الفاظ اور مختصر طور پر بیان کیا گیا ہو‘‘۔ اس کے برعکس اس قرارداد کی زبان غیر واضح اور مبہم تھی، قرارداد کو اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے غلط اور گمراہ کن دعویٰ کیا گیا کہ اس کی غرض اتفاقِ رائے (Consensus)پیدا کرنا تھا، لیکن ایسا ہوا ہی نہیں۔ اس کو ایک جارحانہ اکثریت کا سہارا لے کر پاس کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا اور حزب اختلاف نے اس کے متعلق جو مسکت دلائل پیش کئے تھے ،اُن کو بالائے طاق رکھا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ تجارتی اداروں اور انجمنوں پر کریک ڈائون کیا گیا۔ ان اداروں میں صنعتی انجمنیں اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی تھے۔ ان میں سے بیشتر ارکان کو قید کرلیا گیا اور بہت سے اصحاب کو خانہ نظربند کردیا گیا۔ اُن کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ ایوانِ اسمبلی کے باہر جی ایس ٹی کو آئین میں 101؍ ویں ترمیم کے مطابق پیش کرنے کیخلاف پُرامن مظاہرے کررہے تھے۔ اس طرح حزبِ اقتدار کے گٹھ بندھن نے اپنی اکثریت کو جموں و کشمیر کے عوام کی اُس آواز کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جو وہ اس نازک اور حساس مسئلے کے متعلق ظاہر کررہے تھے۔ اس کے فوراً بعد اُسی وقت کابینہ کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ جس میں مکتوب ِاتفاق منظور کرکے، پہلے سے اُس پر کھینچی گئی لکیروں کے عین مطابق، دستخط ثبت کردئے گئے۔ گورنر کو جلدی جلدی سے اطلاع دی گئی ، اُن کی منظوری ملنے کے بعد رضامندی کامکتوب بہ عجلت حکومت ہند کو بھیج دیا گیا تاکہ متعلقہ وزارتوں کی توثیق حاصل کی جائے۔ یہ سارا سلسلہ دوسرے دن صدرِ جمہوریہ کا فرمان جاری ہونے سے انجام پذیر ہوا۔ اتنی غیر معمولی جلدی سے یہ سب کچھ کیوں کیا گیا اس کے متعلق ہر شہری غور کرکے اپنی فہم و فراست سے نتیجہ نکال سکتا ہے۔ پی ڈی پی نے حکومت ہند کا اس بات کیلئے شکریہ ادا کیا کہ اُس نے اُن کے نکتہ نگاہ کو شرفِ قبول بخشا۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور اُن کی پارٹی کے کچھ اور ساتھیوں کو یہ باور کرالیا گیا کہ انہوں نے کچھ بڑا حاصل کیا ہے۔ دستبرداری اور جی حضوری کو ایک کامیابی سے تعبیر کرکے سامنے لایا گیا۔ کتنا جھکائو اور کس قدر جھوٹا پروپیگنڈا …! ع
چہ دلاور است دُز دے کہ بہ کف چراغ دارد
ترجمہ:کتنے دلیر ہیں، جو چوری کرتے ہوئے ہاتھوں میں چراغ رکھتے ہیں
جی ایس ٹی بل، جو 227صفحوں پر مشتمل ہے، اسمبلی میں 8جولائی 2017کو متعارف کردیا گیا۔ اس کی نقلیں جلدی جلدی بنادیں گئیں اور اسمبلی ممبروں میں بانٹی گئیں۔ اس کو بغیر مباحثے کے آدھے منٹ میں منظور کیا گیا۔ جی ہاں 30سکینڈ میں…!
افسوس کی بات ہے کہ ایک نیا ٹیکس، جو پہلے نافذ شدہ کئی ٹیکسوں کی جگہ لے گا اور جس کا اثر ریاست کے مستقبل پر پڑے گااور جس کو ابھی تک سارے سٹیک ہولڈرس نے سمجھا ہی نہیں، کو زبردستی لوگوں پر ٹھونسا گیا ہے۔
آئین ِجموں وکشمیر پر عائد ترمیم کا حکم مجریہ 2017ء:
اس صدارتی فرمان کی وساطت سے مرکز کو وہ وسیع اختیارات بخشے گئے ہیں جن کی وجہ سے وہ اشیاء اور خدمات ٹیکس کے بارے میں قوانین بنا سکتا ہے، جو پہلے ریاست کی قانون سازیہ کو حاصل تھے۔ مرکزی اشیاء اور خدمات سے متعلق ٹیکس (CGST) کو ریاست پر پورے طور لاگو کردیا گیا ہے۔ ایسا نئے عائد کردہ آئین ہند کی دفعہ 246Aکے ذریعے کیا گیا۔ اس طرح آئین ہند کی دفعہ370اور ریاستی آئین کی دفعہ5؍کو بے دست و پا بنا دیا گیا۔ بلکہ یوں کہئے کہ اسے ایک پرکاہ (بھوسہ) بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ279A؍کوبھی ریاست پر مکمل طور پر لاگو کردیا گیا۔ یہ جتانے کی ضرورت نہیں کہ جی ایس ٹی کونسل کو 279Aکے تحت بے حد اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ جس کی رو سے کونسل مرکز اور ریاستی حکومتوں کو مندرجہ ذیل معاملات میں سفارش کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
…اشیاء اور خدمات جن پر ٹیکس لگایا جائے یا جن کو ٹیکس سے مبّرا رکھا جائے۔
… مختلف اشیاء پر ٹیکس کی شرحوں کو مقرر کرنا۔
…Floor Ratesکا تعین کرنا۔
…Turn Overکی حد جس کے نیچے جی ایس ٹی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
…جی ایس ٹی کیلئے ماڈل قانون تیار کرنا۔
… جی ایس ٹی سے متعلق کسی بھی دوسرے معاملے کے بارے میں سفارش کرنا جس کا تعین کونسل نے خود کیا ہو۔
اس صدارتی فرمان کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں جی ایس ٹی کونسل کو وہی اہم اختیارات تفویض کئے گئے جو ملک کی دوسری ریاستوں میں اسے حاصل ہیں۔
پی ڈی پی صدارتی فرمان کی اس شق کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے ، جو یہ بتاتی ہے کہ جموں وکشمیر ریاست کی آئین کی دفعہ5کے تحت جو اختیارات ریاستی سرکار کو حاصل ہیں، وہ سالم و ثابت رہیں گے۔ ایک طرف صدارتی فرمان نے آئین جموں و کشمیر کی دفعہ5کو اُس کے متن سے محروم کردیا ہے، جس کے تحت ریاستی قانون سازیہ کو بلا شرکتِ غیرے ریاست میں ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ اب بے معنی اور غیر متعلقہ باتیں کرنا کہ یہ حق اب بھی ریاستی قانون سازیہ کو ہی حاصل ہے، ایک گمراہ کن بات ہے۔
اس بات کا واضح ثبوت ریاستی عوام کو اس وقت ملا جب حال ہی میں ریاست کی وزیر اعلیٰ کو چند اشیاء پر ٹیکس معاف کرانے کے لئے دہلی کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ وہ مرکزی وزیر خزانہ سے ملیں اور اُن سے مانگ کی کہ چند اشیاء کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ ان اشیاء پر جی ایس ٹی لگنے سے پہلے کوئی ٹیکس عائد نہیں تھا اور اس قسم کے معاملے ریاستی سرکار کے حد اختیار میں تھے۔ اب اس کے لئے ان کو دہلی جاکر در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔
پی ڈی پی وزیر اعلیٰ اور اُن کے رفقاء کے جھوٹے پروپیگنڈا کا مدعا و مقصد ریاست کے لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے کیونکہ جی ایس ٹی کی رو سے مرکزی حکومت کو بھی ریاست کے اندر ٹیکس لگانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جس سے ریاست کی مالی خودمختاری بری طرح مجروح ہوگئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ریاستی آئین کی دفعہ5جوں کی توں رہے گی، اگر صدارتی فرمان میں ایسا کہا بھی نہ جاتا تو بھی یہ جوں کی توں ہی رہتی لیکن ریاست پر جی ایس ٹی کی توسیع پذیری کے بعد ٹیکس لگانے کے لئے باقی رہ ہی کیاجاتا ہے؟
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی صدارتی فرمان کے شق12 ،جو 279Aکا حصہ ہے،کو نمایاں طور اچھال رہی ہے۔ ذرا اُس کی عبارت ملاحظہ ہو۔ ’’شق 4سے شق11تک کے قطعی نظر اگر جی ایس ٹی کونسل کے کسی فیصلے سے آئین کے کسی دفعہ یا کچھ دفعات ، جس کا تعلق جموں وکشمیر سے ہو ، کی تنسیخ ہوتی ہو یا خلاف ورزی ہوتی ہو اُس کیلئے جی ایس ٹی کونسل میں ریاست کے نمائندے کی تصدیق لازمی ہوگی اور اس کیلئے دفعہ370میں موجود طریقہ کار اپنانا ہوگا۔‘‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا 101ویں آئینی ترمیمی ایکٹ میں کوئی ایسی دفعہ شامل ہے جو جی ایس ٹی کونسل کو اختیار دیتا ہے کہ جموں و کشمیر کے آئینی معاملات کے بارے میں کوئی فیصلہ لے، ٹکرائو(Impingement) کی بات تو بعد میں آتی ہے؟جواب بالکل نفی میں ہے۔تب آخر آپ کس چیز کے تحفظ کا یقین دلا رہے ہو؟ عام آدمی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ جی ایس ٹی کونسل کو ایک ’بے وجود ‘ اختیار استعمال کرنے سے باز رکھا گیا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ صدارتی حکم نامے کی مذکورہ شق جموں و کشمیر کے عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
آئین ہند کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو جو مالی اٹانومی اور خصوصی مرتبہ حاصل ہے اُس کے مخالف تب سے بڑے چائو سے خوشیان منا رہے ہیں جب سے یہ مبہم اور نفرت انگیز قرارداد ریاستی اسمبلی میں پاس کی گئی۔ ریاستی بی جے پی کے صدر نے کھلے بندوں اپنے پارٹی کی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ جی ایس ٹی کی ریاست تک توسیع پذیری ریاست کے یونین آف انڈیا میں مکمل طور مدغم ہونے کی ابتداء ہے۔ اور اس بات کی ذرائع ابلاغ میں خوب چرچا کی گئی ہے۔ اس سے پی ڈی پی بھاجپا گٹھ بندھن کے ان کھوکھلے وعدوں کی قلعی کھل گئی ہے کہ جی ایس ٹی کے ریاست جموں وکشمیر پر لاگو کرنے کی بات محض ٹیکس سے متعلق ہے اور اس کا ریاست کی سیاست اور تشخص سے کوئی تعلق نہیں۔
ہندوستان کے وزرائے خزانہ کی بااختیار کمیٹی میں راقم کا رول:
جہاں میں نے ملک کی دوسری ریاستوں کے درمیان جی ایس ٹی کے بارے میں اتفاقِ رائے قائم کرنے کیلئے اپنا رول نبھایا، وہاں اس سلسلے میں ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں میرے خیالات بالکل مختلف، محکم اور مستقل تھے۔ میں نے بار بار اس بااختیار کمیٹی اور مرکزی وزیر خزانہ کو بتایا کہ کشمیر کا معاملہ بالکل الگ نوعیت کا ہے۔ اس کو پوری احتیاط اور پورا دھیان دیکر نبھانا ہوگا تاکہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کو کوئی گذند نہ پہو نچے۔ میں نے جموں وکشمیر کے متعلق جی ایس ٹی کا ایک الگ ماڈل تیار کیا تھا، جس کا خاکہ 2011میں مکمل کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک نامور وکیل سے رائے لی گئی تھی جس کو ٹیکس کے متعلق امور کا ماہر مانا جاتا تھا، اُس نے اس تجویز کے حق میں مثبت جواب دیا تھا۔ اس معاملے کو ریاست کے اندر ایک کمیٹی میں بھی زیر غور لایا گیا تھا جس میں قانون اور ٹیکس سے متعلق ماہرین شامل تھے۔ انہوں نے پورے طور اس خیال کی تائید کی۔ اُس کے بعد اس پر ریاستی کابینہ میں بھی سوچ بچار کیا گیا اور کابینہ نے اپنے فیصلے نمبر 137/21/212مورخہ یکم اگست 2012کو اس کی توثیق کی تھی۔ اس کے بعد ہم نے اس متبادل جی ایس ٹی تجویز کو ملک کی ریاستوں کے وزرائے خزانہ کی بااختیار کمیٹی) (Empowered Committeeکے سپرد کیا۔ تاکہ وہ اس پر بحث و مباحثے کے بعد مناسب عملی اقدامات کریں۔ اس مسودہ کو 28اور 29جنوری 2013کو بھبنیشور (اڑیسہ)میں منعقدہ مذکورہ کمیٹی کے اجلاس میں بحث کیلئے لایا گیا۔ اُس وقت میں Empowered Committeeکا ممبر تھا۔ اس میٹنگ میں اس بارے میں کارروائی کے متعلقہ حصے درج ذیل ہیں:
’’جموں وکشمیر کے آنریبل فائنانس منسٹر نے بیان کیا کہ ہماری ریاست کو آئین میں خصوصی درجے کا پورا خیال رکھ کر مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں مناسب تحفظات رکھے جانے چاہئیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس معاملے پر ریاستی کابینہ میں بھی غور کیا گیا ہے اور فیصلہ ہوا ہے کہ ملک کے باقی حصوں میں جی ایس ٹی عمل میں آنے کے ساتھ ہی ریاستی قانون سازیہ اس معاملے کی نسبت اپنا الگ قانون بنانے پر غور کریگی، ایسا قانون بناتے وقت ملک کی دوسری ریاستوں میں رائج جی ایس ٹی کے خدو خال کو ملحوظ نظر رکھا جائے گا، اس مجوزہ قانون میں جی ایس ٹی کے سارے عناصر (Components) کو شامل کیا جائے گا اور ایک طریقہ کار طے کیا جائے گا جس کے تحت سی جی ایس ٹی (CGST)اور آئی جی ایس ٹی (IGST)کی مقدار کا تعین ہوگا۔ اس طرح سے جمع شدہ ٹیکسوں میں مرکز کا حصہ مرکزی حکومت کو ادا کیا جائے گا۔ بے شک مرکزی سرکار ریاستی سرکار کو وصولیابی کے اخراجات ادا کرنے کی پابند ہوگی۔ یہ ساری باتیں مجوزہ ریاستی قانون میں درج ہونگی، جس کو کافی غور و خوض کے بعد بنایا جائے گا،ایسا طریقہ کار اپنانے سے ریاست کو حاصل خصوصی آئینی پوزیشن برقرار رہے گی اور ریاست جموںوکشمیر اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق جی ایس ٹی نظام کی حصہ دار بنے گی۔ اس پر بااختیار کمیٹی کے چیئرمین نے میٹنگ میں موجود مرکزی سرکار کے نمائندوں سے کہا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیںاوراس بات کو یقینی بنائیں کہ ریاست کے خصوصی مرتبے پر کوئی آنچ نہ آنے پائے‘‘۔
متبادل جی ایس ٹی تجویز پر ایک اور بار شیلانگ (میگھالیہ) میں 18؍اور 19؍نومبر 2013کو پھر غور و خوض کیا گیا۔ یہ اجلاس میری صدارت میں منعقد ہواکیونکہ اُس وقت مجھے بااختیار کمیٹی (Empowered Committe)کا چیئرمین چُن لیا گیا تھا۔ اس میٹنگ کی کارروائی کا متعلقہ اقتباس حسب ذیل ہے:
’’جموں وکشمیر کے فائنانس اور امورِ لداخ کے وزیر ، جو Empowered Committeeکے چیئرمین بھی ہیں، نے بتایا کہ جموںوکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ہر حال میں تحفظ دینا ہوگا۔ اس بات کو کمیٹی نے متفقہ طور منظور کیا۔ بھبنیشور میٹنگ کی کارروائی نے جموں وکشمیر سرکار کے موقف کو صاف طور پر واضح کیا ۔ جیسا کی ذیل کی عبارت سے ظاہر ہوگا۔اس کو حکومت ہند کے پاس روانہ کیا جانا چاہئے اور اُس کے ساتھ وہ تاثرات بھی جو Empowered Committeeکے اُس وقت کے چیئرمین صاحب نے ظاہر کئے تھے۔
’جموں وکشمیر کے آنریبل فائنانس منسٹر نے بیان کیا کہ ہماری ریاست کو آئین میں خصوصی درجے کا پورا خیال رکھ کر مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں مناسب تحفظات رکھے جانے چاہئیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس معاملے پر ریاستی کابینہ میں بھی غور کیا گیا ہے اور فیصلہ ہوا ہے کہ ملک کے باقی حصوں میں جی ایس ٹی عمل میں آنے کے ساتھ ہی ریاستی قانون سازیہ اس معاملے کی نسبت اپنا الگ قانون بنانے پر غور کریگی، ایسا قانون بناتے وقت ملک کی دوسری ریاستوں میں رائج جی ایس ٹی کے خدو خال کو ملحوظ نظر رکھا جائے گا، اس مجوزہ قانون میں جی ایس ٹی کے سارے عناصر (Components) کو شامل کیا جائے گا اور ایک طریقہ کار طے کیا جائے گا جس کے تحت سی جی ایس ٹی (CGST) اور آئی جی ایس ٹی (IGST)کی مقدار کا تعین ہوگا۔ اس طرح سے جمع شدہ ٹیکسوں میں مرکز کا حصہ مرکزی حکومت کو ادا کیا جائے گا۔ بے شک مرکزی سرکار ریاستی سرکار کو وصولیابی کے اخراجات ادا کرنے کی پابند ہوگی۔ یہ ساری باتیں مجوزہ ریاستی قانون میں درج ہونگی، جس کو کافی غور و خوض کے بعد بنایا جائے گا،ایسا طریقہ کار اپنانے سے ریاست کو حاصل خصوصی آئینی پوزیشن برقرار رہے گی اور ریاست جموںوکشمیر اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق جی ایس ٹی نظام کی حصہ دار بنے گی۔ اس پر بااختیار کمیٹی کے چیئرمین نے میٹنگ میں موجود مرکزی سرکار کے نمائندوں سے کہا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیںاور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ریاست کے خصوصی مرتبے پر کوئی آنچ نہ آنے پائے‘۔
Empowered Committeeکے چیئرمین نے کہا کہ ہم جموں وکشمیر جیسی حساس ریاست کی آئین کے تحت حاصل خصوصی پوزیشن کو چھیڑ نہیں سکتے۔ اس اہم معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جب ہم ریاست میں جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کی بات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ریاست جموں وکشمیر رضامند نہ ہو جی ایس ٹی کونسل کا کوئی بھی فیصلہ وہاں پر لاگو نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘
مندرجہ بالا حقائق میری پوزیشن کو پوری طرح واضح کریں گے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی کہ اُس مکروہ اور فریب کارانہ تہمت کو تہس نہس کریں گے جو جان بوجھ میرے اوپر لگائی جاتی ہے اور جس کا زور زور سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، کہ میں نے کبھی بھی جی ایس ٹی کو جموں وکشمیر میں اُسی صورت میں نافذ کرنے سے اتفاق کیا تھاجس صورت میں اس کو ملک کی دوسری ریاستوں میں نافذ کیا گیا۔یہ شرانگیز ، گمراہ کن اور بے بنیاد مہم مفادِ خصوصی رکھنے والے عناصر نے شروع کی تاکہ اُن کے حقیر ذاتی مفاد بھر آنے کی سبیل پیدا ہو۔
حکمران جماعت نے ایک انفارمیشن آفیسر جہانگیر علی کو اس بار ے میں لکھنے کی ہدایت کی اور اُس نے بڑی تابع داری سے یہ کام انجام دیا۔ (گریٹر کشمیر میں10جولائی 2017میں اُس کا شائع شدہ مضمون ملاحظہ ہو)۔ کسی کو حکومت کی اس بے جا مہم پراعتراض نہیں ہوتا، لیکن یہ مضمون مفہوم اور معنی میں بالکل خالی تھا۔ اس میں کسی سچ کا ذرہ بربھی حصہ نہ تھا۔ بلکہ صرف نفرت انگیزی ، عداوت آمیزی اور بے بنیاد اندازوں پر مبنی تھا۔ یہ بات ہر صاحب نظر کو معلوم ہے کہ میں نے اقتدار میں یا اس سے باہر پہلو بدلے نہ رُخ تبدیل کئے ہیں۔
دفعہ370اور نیشنل کانفرنس کا رول:
مہاراجہ ہری سنگھ کی بھارت کیساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کے بعد یہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ اور اُن کے ساتھیوں کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ آئین ہند میں دفعہ370شامل کی گئی۔ ریاست جموں وکشمیر وہ اکلوتی ریاست ہے کہ جس نے ہندوستانی وفاق کا حصہ بننے کیلئے شرائط طے کرنے کی خاطر بات چیت کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ مذاکرات وسط مئی 1949سے لیکر وسط اکتوبر 1949تک جاری رہے۔ ان مذاکرات میں مجوزہ ہندوستانی آئین میں اُن شرائط پر بات ہونی تھی جن کے تحت جموں وکشمیر ہندوستانی یونین کا رکن بنتا۔ یہ مذاکرات 15اور 16مئی 1949میں دہلی میں ریاستی اور مرکزی رہنمائوں کے درمیان ایک کانفرنس میں شروع ہوئے۔ریاستی وفد میں شامل نیشنل کانفرنس ارکان کی قیادت شیخ صاحب خود کررہے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بات چیت میں طے شدہ معاملات ایک خط میں بیان کئے جو انہوں نے 18مئی کو شیخ صاحب کے نام لکھا۔’’ریاست کا اپنا الگ آئین ہوگا، ریاست کی آئین ساز اسمبلی ،جب اُس کی تشکیل ہوگی،یہ فیصلہ کریگی کہ کن باقی معاملات میں ریاست مرکز کے ساتھ الحاق کریگی۔16جون کو شیخ محمد عبداللہ، مرزا محمد افضل بیگ، مولانا محمد سعید مسعودی اور موتی رام بیگڈا نے ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے ممبروں کی حیثیت سے حلف لیا اور اس اسمبلی کے ممبروں کی رجسٹر پر اپنے دستخط ثبت کئے۔ وہ پوری مستعدی اور استقلال کیساتھ معاملے کی پیروی کرتے رہے اور جبھی دفعہ370کا حتمی ڈرافٹ منظور کیا گیا۔ لہٰذا یہ کہنا درست اور بجا ہوگا کہ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس ہی دفعہ370کی معمار ہے۔
ریاستی حکومت کی توثیق کے عبوری اختیار :
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ریاست اور مرکزی لیڈران کے درمیان دفعہ370پر جو مذاکرات ہوئے اُن میں اس بات پر مکمل اتفاقِ رائے تھا کہ دستاویزِ الحاق میں درج کئے گئے اختیارات کے علاوہ اگر مرکز کو کوئی مزید اختیار سپرد کرنے کی بات ہو تو اس کا فیصلہ ریاست کی وہ آئین ساز اسمبلی کریگی جب اس کی تشکیل دی جائیگی۔ لیکن یہ احساس کرکے کوئی صورت ایسی بھی پیدا ہو کہ جب ہندوستانی آئین کی کسی شق کا نفاذ ریاستی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل سے پہلے لازمی بن جائے ، فیصلہ ہوا کہ ایسی صورت میں دفعہ370میں تشریح شدہ ریاستی حکومت اس کو منظوری دے سکتی ہے، لیکن صر ف یہ توثیق کافی نہیں ہوگی ۔ اس کو بعد میں ریاستی آئین ساز اسمبلی کی تصدیق کرانا بھی ضروری ہوگا۔اس غرض کیلئے دفعہ370میں ایک خاص مد شامل کی گئی ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریاستی حکومت کے پاس توثیق کے اختیارات عبوری تھے اور جونہی ریاست کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا یہ اختیارات بھی ختم ہوگئے۔ اس کے بعد ریاستی حکومت خود اپنی مرضی سے ایسی کوئی توثیق نہیں کرسکتی۔ جب آئین ساز اسمبلی کا انعقاد ہوا اور اپنا کام پورا کرنے کے بعد یہ برخواست ہوئی تو اس قسم کی توثیق کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
شیخ صاحب نے 11؍اگست 1952 کو ریاستی آئین ساز اسمبلی کو بتایا کہ ’’جو بھی تبدیلیاں، ترامیم یا چھوٹ دفعہ370میں ، یا آئین ہند کی کسی دوسری دفعہ میں جموںوکشمیر ریاست پر اطلاق کے حوالے سے لازمی بن جائے گی وہ سبھی اِس خودمختار تنظیم (آئین ساز اسمبلی) کے تابع ہونگے‘‘۔ صاف ظاہر ہے کہ اپنا کام انجام دینے کے بعد جب یہ تنظیم برخواست ہوئی تو پھر اس کے بعد جموںوکشمیر ریاست پر لاگو کرنے کی غرض سے آئین ہند میں کوئی بھی ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ تصدیق کرنے والی مقررہ اور خودمختار تنظیم (آئین ساز اسمبلی) وجود میں ہی نہیں تھی۔ دیگر کوئی بھی تشریح دفعہ370کے شرائط کو ذائل کردیگی اور اس قسم کی تمام تر عمل بے معنی ہوگی اگر اس عمل کو مستقل بنادیا جاتا ہے،جو کہ جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے حتمی طور پر مندرجہ ذیل کام کاطے پانے تک کیلئے ایک عبوری نظام تھا۔
۱۔ ریاست کا آئین مرتب کرنا اور دفعہ370میں درج ہدایات کے تحت صدرِ جمہوریہ کو سفارشات پیش کرنا۔
شیخ صاحب نے وارننگ دی کہ:
’’میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ بھارت کے ساتھ ہمارے رشتے کی اس بنیاد کو یک طرفہ طور بدلنے کی کوئی بھی تجویز نہ صرف آئین کی روح اور اُس کے جذبے کی ادھولی ہوگی بلکہ اس سے ہماری ریاست کے بھارت کے ساتھ خوشگوار وابستگی کیلئے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں‘‘۔
شیخ صاحب کے یہ الفاظ بالکل صحیح ثابت ہوئے اور ہم تبھی سے ریاست میں ہنگامہ خیز صورتحال دیکھ رہے ہیں جب سے بھارت سرکار نے بلاوجہ اور غیر دانشمندانہ اقدام کئے جن سے ریاست کی اندرونی خودمختاری کمزور ہوگئی۔
مرکز کی آئین ساز اسمبلی میں دفعہ370پیش کرنے والے شری گوپال سوامی اینگر نے اس دفعہ کی ماہرانہ طریقے سے وضاحت کی تھی۔ مسٹر اینگر نے اس آئین ساز اسمبلی میں 17اکتوبر 1949کو بتایا کہ ’’ ہم نے یہ بھی مان لیا ہے کہ جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی عوامی خواہشات کے عین مطابق یہ طے کریگی کہ ریاست کا آئین کیا ہوگااور یہ کہ ریاست پر یونین کا دائرہ اختیار کہاں تک ہوگا…آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ان میں سے کئی دفعات کیلئے ریاست جموں وکشمیر کی سرکار کی منظوری لازمی ہے، اُن کا تعلق خاص طور پر اُن معاملات سے ہے جن کا ذکر الحاق کی دستاویز میں ہے اور یہ ہمارا جموں وکشمیر کی سرکار کیساتھ ایک وعدہ ہے کہ کوئی بھی اضافہ آئین ساز اسمبلی کی رضامندی کے بغیر نہیں کیا جانا چاہئے ، جس کا قیام ریاست میں آئین تیار کرنے کیلئے عمل میں لایاجائے گا۔باالفاظِ دیگر ہم جس بات پر کاربند ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اضافات ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے طے ہونگے۔‘‘
اس کے علاوہ صدر یہ اختیار بھی استعمال نہیں کرسکتا ہے کہ وہ بھارتی آئین کو غیر معینہ مدت کیلئے جموں وکشمیر پر نافذ کردے۔ یہ اختیار وہیں پر ختم ہوگا جب ریاست کی آئین ساز اسمبلی ریاستی آئین کا مسودہ طے کریگی اور یہ حتمی فیصلہ کریگی کہ ایسے کون سے اضافی دفعات ہونگے جو مرکز کو تفویض کئے جائیں گے اور بھارتی آئین کی دیگر کون سی دفعات ریاست پر لاگو ہونگی۔ ایک بار جب ریاست کی آئین ساز اسمبلی یہ سکیم طے کریگی اور اس کا اجلاس برخواست ہوگا تو صدر کا قانون لاگو کرنے کا اختیار اپنے آپ مکمل طور پر ختم ہوگا۔
اوپر جو کچھ بھی کہا گیا اس کی رو سے سرکار کی طرف سے منظوری دینے کا اختیار اُس کے بعد وجود میں ہی نہیں ہے جب 31اکتوبر 1951کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ یوں 31اکتوبر1951کے بعد سے اس غیر موجود اختیار کے تحت جاری کئے گئے تمام صدارتی احکامات غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔
شیخ محمد عبداللہ کی غیر آئینی برطرفی اور ما بعد کے حالات:
شیخ محمد عبداللہ کو غیر آئینی طریقے سے معطل کرنے اور ساتھ ہی قید میں ڈالنے کے بعد ریاست میں ایک غیر یقینی دور شروع ہوا۔ کافی مشقت کے بعد حاصل کی گئی اٹانومی ایسے مسخ کی گئی کہ وہ اپنی پہچان کھو گئی۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ریاستی سرکار جو عبوری توثیق کا اختیار 1951میں آئین ساز اسمبلی کے قیام کیساتھ ہی کھو چکی تھی، وہ اس مقصد کیلئے غیر آئینی طریقے سے استعمال کیا گیا ۔
1954 میں جموں وکشمیر پر صدارتی حکمناے کے اطلاق کیساتھ ہی ریاست کی خودمختاری کو زائل کرنے کا آغاز ہوا اور اٹانومی کی یہ پامالی اس کے بعد سے تیزی کیساتھ جاری رہی۔ 1953کے بعد سے ریاست کی خودمختاری سلب کرنے کی کارروائی جس شدت اور رفتار کیساتھ ہوئی اُس کا انداز صدارتی احکامات (چار درجن کے قریب) کی اُس لمبی فہرست سے لگایا جاسکتا ہے جن کی رو سے بھارتی آئین کی مختلف دفعات کو ریاست پر لاگو کیا گیا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 1953کے بعد سے خاص طور پر 60کی دہائی میں ریاست کی خودمختاری کو زائل و پامال کرنے کا عمل اتنا تیز رہا کہ دفعہ370کو ، جس کے تحت بھارتی یونین میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کو محفوظ رکھناتھا اور اُس کی ضمانت دینی تھی، اہم متن سے خالی کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جن معاملات پر اکتوبر1947کے دستاویزِ الحاق اور 1952کے دہلی سمجھوتے کی رو سے ریاست کا دائرہ اختیار تھا انہیں رفتہ رفتہ کم کرکے منصوبہ بند طریقے سے مرکز کو منتقل کیا گیا۔
دفعہ370کے تحت خصوصی پوزیشن محفوظ رکھنے کی بات تو دور، ریاست کو دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بھی کم درجے پر رکھا گیا۔ یہ بات یوں واضح ہوجاتی ہے کہ مئی 1987کو صدارتی راج نافذ کرنے کیلئے پارلیمنٹ کو آئین میں 4دفعہ ترمیم کرنا پڑی۔ (ترمیم نمبر59,64,67اور 68) اور جموں وکشمیر پر 1990میں صدارتی راج نافذ کرنے کیلئے محض دفعہ370کے تحت ایک ایگزیکٹو حکم جاری کیا گیا۔ دوسری مثال دفعہ370کے غلط استعمال کو اُجاگر کرتی ہے۔ 30جولائی 1986کو صدر ِ ہند نے دفعہ370کے تحت ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت پارلیمنٹ کو ایسے معاملات پر قانون بنانے کا اختیار دیا گیا جو ریاست کے حداختیار والی فہرست میں شامل ہیں۔اس کیلئے توثیق مرکز کے اپنے مقررہ کردہ گورنر جگموہن نے دی۔
اختتا م
غیر آئینی صورت حال کایہ بدنصیب دور 1977میں ختم ہوا جب نیشنل کانفرنس کو جموںوکشمیر قانون ساز اسمبلی کیلئے منتخب کیا گیا۔ بغیر اُس وقت کے جب 1985اور 1986میں چند صدارتی حکمنامے جاری کئے گئے ، جب جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس اقتدار سے باہر تھی۔ مختلف حلقوں کی طرف سے کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں کہ اس معاملے پر White Paperجاری کیا جانا چاہئے اور یہ طے کیا جائے کہ اس سب کیلئے ذمہ دار کون ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ اس معاملے کا حقیقت پسندانہ اور بامقصد مطالعہ عوام کو صحیح نتائج پر پہنچنے میں مدد کریگا۔ اس کیساتھ ہی ریاست کی خودمختاری پر حملہ پلٹ دیا جانا چاہئے اور اسے پلٹنا ہی ہوگا۔ اس مقصد کیلئے جموں وکشمیر کے آئین میں مناسب ترمیم کئے جانے چاہئیں اور ساتھ ہی جموں وکشمیر پر لاگو آئینی ہند کی دفعات میں بھی ترمیم ہو ۔ ظاہر ہے کہ ایسا حکومتِ ہند کی عملی حمایت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی، جب ہم ریاست اور قومی مفاد کے پس منظر میں اس کے خوشگوار نتائج کو زیر نظر رکھیں۔
نوٹ: مضمون نگار سابق وزیر خزانہ جموں وکشمیر تھا
ای میل[email protected]