ریاست جموں وکشمیر میں اشیاء اور خدمات ٹیکس یعنی جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کے حوالے سے کافی بحث و مباحثہ ہوا ۔ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ اس قانون کے جموںو کشمیر میں نافذ العمل ہونے سے ریاست کی خصوصی حیثیت اور مالی خودمختاری پر اثر انداز ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا ۔اس آئینی ترمیم کو پورے ہندوستان میں لاگو کرنے سے قبل تقریباً ایک دہائی تک ملک میں بھی کافی بحث و مباحثہ ہوا ۔چونکہ جموں وکشمیر ریاست کو دفعہ 370کے تحت بھارت کے آئین میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے اور ریاست کو جموں وکشمیر آئین کے سیکشن 5؍کے تحت مالی خود مختاری حاصل ہے، اس لئے ہر ذی حس اور سیاسی طور با شعور شخص کیلئے یہ معاملہ واقعی تشویش کا باعث تھا۔جموں وکشمیر حکومت نے اس ترمیم کو ریاست میں لاگو کرنے سے قبل تمام سیاسی جماعتوں اور تاجروں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ بھی شروع کیا اور ہر میٹنگ میں تمام حصہ داروں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن اور مالی خودمختاری کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔کشمیری قوم کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ان کے ساتھ وقت وقت پر دھوکے کئے گئے اور جو خصوصی پوزیشن اور خودمختاری ریاست کو حاصل تھی اُسے وقت وقت پر حکمرانوں نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرکے بیخ کنی کی اوراس طرح جمہوری اداروں اورحکمرانوں پر لوگوں کا اعتماد ہی ختم ہوگیا۔جب بھارتی آئین کی اس۱۰۱؍ویں ترمیم کو ریاست میں لاگو کرنے کی بات شروع ہوئی تو عوام کو ماضی کے واقعات یاد آئے کہ شایدایک بار پھر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
جی ایس ٹی کو اقتصادی اور کاروباری نقطہ نظر سے بھی دیکھنا ضروری ہے ۔ریاست میں جی ایس ٹی کو لاگو کرنا لازمی تھا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مقامی تاجر ریاست سے باہر کے تاجروں کے ساتھ کاروبار نہیں کرسکتے تھے ۔یہ ریاست ایکسپورٹ سے زیادہ مصنوعات واشیاء ایمپورٹ کرتی ہے جس کا مطلب صاف ظاہر تھا جی ایس ٹی نہ ہونے کی صورت میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جب کہ ریاست میں تیار ہونے والی چیزوںکا باہر کے مارکیٹ میں خریدار بھی نہیں ملتے اور ایسی صورت حال میں ریاست کی اقتصادیات درہم برہم ہوجاتی۔
پورے بھارت میں جی ایس ٹی قانون کو لاگو کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کی گئی ۔ بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد اب تک بھارتی آئین کی 46ترمیمات کو ریاست میں لاگو کیا گیا ہے لیکن جی ایس ٹی ایک واحد ایسی ترمیم ہے جس پر نہ صرف پہلے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا گیا بلکہ قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں میں بحث و مباحثہ ہوا جو جموں وکشمیر کے قانون سازیہ کوبا اختیار بنانے کی ایک نہ صرف اچھی کوشش ہے بلکہ جمہوری اداروں کی مضبوطی کی علامت ہے۔ریاست کی تاریخ میں شایدایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی آئینی ترمیم کولاگو کرنے سے متعلق کوئی قراردا د ایوان میں پیش کی گئی ہو ۔اس قرارداد کو پہلے ایوان میںمنظور کیا گیا اور پھرصدارتی دستخط کے لئے صدر جمہوریہ ہند کو بھیجی گئی اور وہاں منظوری ملنے کے بعد ایوان میں جی ایس ٹی قانون کو پاس کیا گیا۔اس بل کو قانونی یا آئینی طور پر قانون سازیہ میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ کابینہ کی سفارش کے بعد صدر جمہوریہ کو روانہ کیا جاسکتا تھا اور صدارتی حکم نامے کے بعد ریاست میں اس قانون کو لاگو کیا جاسکتا تھا لیکن جس طرح سے محبوبہ مفتی کی قیادت والی موجودہ سرکار نے اس قانون کو منظور کیا اُس سے تقریباً یہی ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نے نہ صرف قانون سازیہ کو با اختیار بنایا بلکہ صاف اور نیک نیتی سے کام لے کرتمام حصہ داروں کو اس میں شامل کیا گیا۔
5؍جولائی کو جب وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو نے ایوان میں قرارداد پیش کی تو انہوں نے اس یقین دہانی کے ساتھ ممبران سے حمایت طلب کی کہ جموں وکشمیر میں جی ایس ٹی لاگو کرنے کے دوران ریاست کی خصوصی پوزیشن اور آئینی اختیارات کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گااور جس کا صدارتی حکمنامے میں برابر خیال رکھا گیا ہے۔ریاست میں جی ایس ٹی لاگو کرنے کیلئے جاری صدارتی حکمنامے میں کئی اہم چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔صدارتی حکم نامے کے سیکشن 2،سب سیکشن 3میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہیــ’’ جموں وکشمیر آئین کے دفعہ5کے مطابق ریاستی قانون سازیہ کو کسی بھی طرح کا ٹیکس لگانے کا مکمل اختیار ہوگا اور آئین ہند کے سیکشن 246A(1)کے تحت قانون سازیہ کو اختیار ہوگا کہ وہ اشیاء اور خدمات پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے قانون بنا سکتی ہے اور جموں وکشمیر آئین کے دفعہ 5کے تحت جو مالی خودمختاری ریاست کو حاصل ہے اس پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ہے‘‘۔جی ایس ٹی کونسل میں ریاست جموںوکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370کے تحت لایا گیا اور کونسل میں جموں وکشمیر کے نمائندے کو ریاست میں ٹیکس لگانے کے معاملات پر اختیار ہوگا یعنی ہماری ریاست کے ٹیکس بنانے او ر دیگر مالی خود مختاری ہر صورت برقرار رہے گی۔صدارتی حکمنانے کے سیکشن 13؍میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے ’’جموں وکشمیر قانون سازیہ کو ریاستی آئین کی دفعہ 5؍کے تحت جو اختیار ات اور ضمانت حاصل ہے وہ اس قانون کے نفاذ کے بعد اُس پر کوئی بھی اثر نہیں پڑنا چاہیے ‘‘
ریاست میں ٹیکس اصلاحات کو لاگو کرنے کے دوران تمام اہم اور سنجیدہ معاملات کو زیر نظر رکھا گیا اور اس کوشش کو اگر ادارتی اور آئینی کامیابی بھی کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔چند سیاسی جماعتیں جو اس معاملے پر کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں،کو ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اُنہوں نے ریاست کی خودمختاری کو اند ر ہی اندر سے کھوکھلا کرنے اورریاست کے وسائل کا اپنے مفادات کے لئے سودا کرنے میں کوئی کمی نہیں رکھی۔سابق وزیر خزانہ اور نیشنل کانفرنس لیڈر عبدالرحیم راتھر کل ہند ریاستی وزرائے خزانہ کی جی ایس ٹی کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور ملک میں جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کیلئے اُن کے رول کی مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کافی سراہنا کی ،فی الوقت جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کے مخالف ہیں لیکن اُن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جب اس ترمیم کو لاگو کرنے کے لئے تمام ریاستیں مشاورت کر رہی تھیں اور آپ کمیٹی کے چیئر مین تھے تو کس مقصد کیلئے اس نازک مسئلہ پر آپ نے تب وہ موقف اختیار نہ کیا جو آ پ نے آج اختیار کیا ہے؟راتھر صاحب نے جی ایس ٹی کمیٹی کی اُن میٹنگوں میںوہی مطالبہ کیا تھاجو موجودہ سرکار کا موقف ہے اور صدارتی حکم نامے کے ذریعہ حاصل کیا کہ ریاست کی مالی خودمختاری کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے لیکن پی ڈی پی رہنما اور ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ کی قیادت والی کنسلٹیٹو کمیٹی کی میٹنگوں میں راتھر صاحب نے اپنے ہی موقف سے دوری اختیار کرکے ایسے مطالبات کئے جن کے بارے میں وہ خود بھی جانتے تھے کہ وہ ممکن العمل نہیں ۔ان کا مقصد صرف کنفیوژن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس کو ریاست کے سیاسی نقشہ پر دوبارہ ریلیوینٹ بنانا تھا۔
نیشنل کانفرنس کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے اس جماعت نے ہمیشہ سے اپنے مفادات اور مقاصدکیلئے ریاست کی خود مختاری کی بیخ کنی اور دفعہ370کو کمزور کرنے کی سازشوں کی حصہ دار بنی ۔نیشنل کانفرنس نے اگر خود مختاری کا سودا کرنے ،دفعہ370کو کمزور کرنے ، ریاستی وسائل کا سودا کرنے اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کا کام نہ کیا ہوتا تو اس وقت ریاست کے حالات بالکل مختلف ہوتے ۔آج اگر کسی جماعت نے دفعہ 370؍کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے اس پر شک اور کنفیوژن پیدا کرنے کی کوششوںکے بجائے اس کی سراہنا کی جانی چاہیے۔اس سنجیدہ اور نازک مسئلہ کو جس طرح سے محبوبہ مفتی سرکار نے ہینڈل کیا ہے، اس کیلئے وہ مبارکبادی کے مستحق ہیں۔
………………………..
نوٹ :یہ تحریرآراء مضمون نگار کی ذاتی آراء پر مبنی ہے
ٹیویٹر ـ@TahirsyeedK