سرینگر//’’ جی ایس ٹی کے ذریعے مالیاتی خود مختاری کا سرنڈر اور خصوصی خوداختیاری کی سودابازی‘‘ کے موضوع پر شہر خاص کے راجوری کدل میں تجارتی انجمنوں کے اتحاد جے کے سی سی نے اعلان کیا ہے کہ اگر ریاستی حکومت نے بہت جلد صدر کے حکم نامہ کو رد کرکے جی ایس ٹی واپس نہیں لیا تو وہ سول نافرمانی کی مہم چھیڑدیں گے۔ جے کے سی سی نے یہ بھی ا علان کیا کہ وہ لوگوں کو منظم کرنے کیلئے کشمیر صوبے کے تمام 10اضلاع میں سمینار منعقد کرکے جے ایس ٹی سے ریاستی کی مالی خوداختیاری اورخصوصی پوزیشن پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کریں گے۔ راجوری کدل میں مقررین نے خطاب کرتے ہوئے جی ایس ٹی کے اطلاق کو ریاست کی مالی خود مختاری اور خصوصی پوزیشن کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دیا ہے۔ سمینار میں مختلف تاجرانجمنوں کے نمائندوںکے علاوہ ماہر اقتصادیات، صحافیوں اور سول سو سائٹی ممبران نے بھی حصہ لیا۔ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے جے کے سی سی ممبر شکیل قلندر نے کہا ’’ ریاستی سرکار اپنے اختیارات کا استعمال کررہی ہے، ہمیں بھی اختیار ہے کہ ہم لوگ کوئی بھی ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا ’’ ہم ریاستی سرکار سے کوئی بھی رعایت یا مراعات نہیں چاہتے ہیںجو ہم پہلے سے لاگو ٹیکس نظام میں بھی حاصل کرتے تھے بلکہ ہم مالی خودمختاری کی بحالی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مالی معاونت یا رعایت ہمیں ملے گی مگر ہم ریاست کو مالی اختیار کی واپسی چاہتے ہیں جو ریاست جی ایس ٹی کے اطلاق سے کھوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے ذریعے مالی خود مختاری اورریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن سے سودا بازی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاستی سرکار نے فوراًجی ایس ٹی کو ختم نہیں کیا تو وہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے پر مجبور ہونگے۔ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہر قانون ایڈوکیٹ غلام نبی شاہین نے کہا ’’ ہم آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں اور پچھلے 30سال میں ہم نے کئی قربانیاں دی ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مگر ان تین دہائیوں سے ہم اس تحریک سے جڑے دیگر مسائل کو نظر انداز کرتے آئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی غلطی ہے کہ اس نے جبری قبضہ کیا مگر ہماری غلطی ہے کہ ہم نے دلی میں خود کو عریاں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2007میں عبداللہ خاندان کی جانب سے امرناتھ شرائن بورڈ کی تشکیل سے ریاست کی خصوصی پوزیشن کو نقصان پہنچایا گیا اور اسی امرناتھ تنازعہ کی وجہ سے ہمیں سال 2010میں اپنے چھوٹے بچوں وامق فاروق اور زاہد فاروق جیسے نونہالوں کی لاشیں اٹھانی پڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے ذریعے پی ڈی پی پہلے سے ہی کمزور دفعہ 370کے بقایات کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے اور اس کا خمیازہ ہم آج بھی اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب سپریم کورٹ میںدفعہ 35اے زیر بحث ہے۔ ایڈوکیٹ شاہین نے کہا کہ یہ وہی بھارت کی سپریم کورٹ ہے جس سے نیلوفر اور آسیہ کے معاملے میں بار کو اپنی پوزیشن بیان کرنے کیلئے ایک منٹ کا وقت بھی نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی پیلٹ کے استعمال پر شنوائی کے دوران بھارتی سپریم کورٹ ہم سے پوچھ رہی ہے کہ ہم لوگ کس طریقے سے مرنا پسند کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے اطلاق سے ریاست کی مالی خود مختاری اور خصوصی پوزیشن کا سودا کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمر عبداللہ یا محبوبہ لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں تو دفعہ370کی حفاظت انکی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی قانونی ذمہ داری ہے کہ ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کی حفاظت تب تک کرے جب تک نہ مسئلہ کشمیر کا مکمل حل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے این آئی کی جانب سے شروع کئے گئے گرفتاریوں کے سلسلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاریوں کا سلسلہ جلد بند ہوناچاہئے ورنہ صورتحال کافی بگڑ جائے گی۔ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہر اقتصادیات پروفیسر نثار علی نے کہا ’’جموں و کشمیر میں جب مہاراجوئوں کا دور تھا تو انگریزوں سے بچانے کیلئے انہوں نے یہاں کے لوگوں کو ایک خصوصی پوزیشن دی تھی جویہاں کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنی کی پالیسی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ کی یہ پالیسی دفعہ 370کے تحت جاری رکھی گئی تھی مگر 1950سے اسے آہستہ آہستہ ختم کیا گیا ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے تمام قوانین ریاست جموں و کشمیر میں نافذ نہیں کئے جاسکتے جس کی ایک زندہ مثال دفعہ 73 کے تحت 1992میں پنچایتی راج ایکٹ نافذ کیا گیا مگر ریاست جموں و کشمیر میں یہ قانون لاگو نہیں ہوسکا کیونکہ کسی نے ریاستی وزیر اعلیٰ کو بتایا تھا کہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے ۔ اس قانون کے اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کو سالانہ 300کروڑ روپے کا نقصان ہوتا تھا مگر پھر ریاستی سرکار نے اپنا پنچایتی راج ایکٹ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ سال 2006میں سٹیٹ فائناشل کمیشن ایکٹ بنایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی ڈگری حاصل کرنے والے نوجوانوں کو ایم سی آئی کے علاوہ ریاست کے سٹیٹ میڈیکل کونسل سے بھی سند حاصل کرنی پڑتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کا اطلاق از خود بھارتی آئین کے خلاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے اطلاق سے قبل یہ بات کہی جاتی تھیں کہ چیزوں کے داموں میں گراوٹ آئے گی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہو بلکہ کچھ چیزوں کے داموں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی سرکار نے جی ایس ٹی کے اطلاق میں جلد بازی سے کام لیا اور اسے اسی طریقے سے لاگو کیا گیا ہے جس طریقے سے 101ترمیم بھارت کے دوسرے حصو ں میں لاگو ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور اقتصادی ماہر میں جی ایس ٹی کے اطلاق کے خلاف نہیں ہوں تاہم میں ریاست کی مالی خود مختاری اور خصوصی پوزیشن کو قربان کرنے کے حق میں بھی نہیں ہوں۔ اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے ظہور احمد ترمبو نے کہا ’’ بقول وزیر خزانہ ریاست نے اپنی مالی خودمختاری نہیں کھوئی ہے تو وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ کو کشمیر کی گھریلو صنعتوں کو جی ایس ٹی نظام سے مشتثنیٰ رکھنے کی درخواست مرکزی سرکار کو کیوں کرنی پڑ رہی ہے۔ سمینار میں کئی تاجر انجمنوں کے نمائندوں کے علاوہ یاسین خان، مبین شاہ، صحافی گوہر گیلانی کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی خطاب کیا ۔