ریاستی اسمبلی کا خصوصی اجلاس 17جون کو طلب کیا گیا ہے، جس میں جنرل سیلز ٹیکس، جو عرف عام میں جی ایس ٹی کے نام سے معنون ہے، کے ریاست میں اطلاق کے حوالے سے بحث مباحثہ ہوگا، کیونکہ آئین ہند میں کی گئی 101ویں ترمیم، جسکی رو سے یہ قانون باقی تمام ریاستوں میں نافذ ہوگا، ریاست کے اپنے آئین کی وجہ سے جموںوکشمیر میں نافذ العمل نہیں ہے۔ کاروباری و صنعتی حلقوںکی جانب سے ابتداء سے ہی اس قانون پر تحفظات ظاہر کئے گئے ہیں، کیونکہ ان حلقوں کو یہ خدشہ ہے کہ سارے ملک میں ایک ہی ٹیکس کے اطلاق کے بعد ان کےلئے بیرون ریاست سے تعلق رکھے والے تجارتی اور صنعتی حلقوں سے براہ راست مسابقت میں اضافہ ہوگا۔ چونکہ ہماری ریاست صرفے کی حامل ایک پسماندہ ریاست ہے، لہٰذا لا زمی طور پر اُن ریاستوں کی سبقت پیدا ہوگی جو پیداواری صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ ریاستی وزیر خزانہ کی یہ بات نہایت ہی اہم اور باعث دلچسپی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے اطلاق سے ریاست کو1500کروڑ روپے کی اضافی آمدن ہوگی۔یہ جی ایس ٹی کے اُس حصہ سے علاوہ ہوگا جو مرکزی حکومت کی طرف سے ریاست کو ادا ہوگا۔ یقینی طور پر یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن تجارتی و صنعتی حلقوں کی طر ف سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اس قانون کے اطلاق سے ریاست کو فی الوقت ہونے والی آمدن میں کتنا نقصان ہوگا، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ کاروباری و خدمات کے شعبے سے جُڑے تجریہ نگاروں کے مطابق ٹھیکہ داری کے شعبہ میں بھر پور سرگرمیوں کے بہ سبب اس سے ریاستی حکومت کو ایک ہزار کروڑ روپے کے آس پاس آمدن ہوتی ہے، جس میں سے نصف مرکز کے حصہ میں آتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جی ایس ٹی کے اطلاق کے بعد ریاست کو یہ آمدن نہیں ہوگی۔ اسی طرح باہر سے منگائے جانے والے مال کے عوض اوکٹرائے اوراینٹری ٹیکس جیسے محصولات کی آمدن700کروڑ کے قریب پہنچ گئی تھی، ظاہر ہے کہ وہ بھی اب بندہوگی۔ اسی طرح اور بھی بہت سے شعبے ہیں، جن سے ریاستی خزانہ بھرتا تھا۔ چونکہ جی ایس ٹی کے اطلاق کے بعد یہ سارے ٹیکس اُس میں ضم ہو جائینگے، لہٰذا آمدن کا یہ ذریعہ بھی بند ہو جائیگا۔ْ اس طرح ایک سرسری جائزے سے ریاست کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ اُس رقم سے زیادہ لگتا ہے ، جو متوقع اضافی آمدن بتائی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اگر وہ اضافی آمدن کے بارے میں اعداد و شمار پیش کرنےکی پوزیشن ہے توریاست کی ٹیکس آمدن کو اس قانون سے ہونے والے نقصان کا صحیح اندازہ یا تخمینہ کو بھی سامنے لایا جائے۔ یہی وجہ سے کاروباری ، صنعتی اور خدمات کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جی ایس ٹی کے بارے میں جو خدشات ہیںانہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ جموںوکشمیر کی معیشت کےلئے سیاحتی صنعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اسی وجہ سے یہ صنعت کسی قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ تھی، لیکن جی ایس ٹی کے اطلاق کے ساتھ یہ حیثیت ختم ہوگی اور اس صنعت پر بھی برابر ٹیکس عائید ہوگا۔ کہیں یہ عمل سیاحتی صنعت کو نقصان پہنچانے کا سبب تو نہیں بنے گا۔ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں، جنکا جواب لوگ چاہتے ہیں، اسی لئے یہ بہت ضروری تھا کہ اسمبلی میں لائے جانے سے قبل بل کے مسودے کو عوامی مباحثے کےلئے سامنے لایا جاتا اور متعلقہ حلقوں سے حاصل ہونے والی آراء کو قانون تشکیل دیتے وقت زیر نظر رکھاجاتا، مگر نہ جانے کیوںایسا نہیں کیا گیا ۔؟ حالانکہ کئی ریاستوں میں اس نوعیت کے صلاح ومشورے کئے گئے۔ ریاست کی سیاسی جماعتوں کی رائے بھی اس حوالے سے منقسم ہے اور کئی ایک کا ماننا ہے کہ یہ قانون مالی سطح پر ریاست کو معذور بنانے کا سب بن سکتا ہے اور مستقبل میں ٹیکسوں کے نفاذ پر ریاستی حکومت کی دسترس ختم ہو جائے گی۔ تاہم وزیر خزانہ نے ان خدشات کو صحیح قرار نہ دیتے ہوئے یہ جتلایا کہ ریاست کو جی ایس ٹی میں سے اپنا حصہ ملنے کے علاوہ اضافہ آمدن ہوگی نیز اس سے ریاست کی خصوصی پوزیشن میں کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ علاوہ ازیں موصوف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس قانون کے عدم اطلاق سے ریاست میں کاوربار اور صنعت کو سخت دھچکہ پہنچنے کا خدشہ ہے کیونکہ اُس صورت میں لوگوں کو دوہرا ٹیکس ادا کرنا پڑیگا، جو مجموعی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ بہر حال 17جون کو ریاستی اسمبلی میں قانون کا مسودہ پیش ہونے کے بعد ہی اصل حقائق اور خدشات کھل کر سامنے آسکتے ہیں۔