نوٹ :جموں و کشمیر عوامی مجلس عمل کے بانی سربراہ میر واعظ کشمیر مولوی محمد فاروق مرحوم نے ستمبر 1973 کو جو تاریخی انٹرویو ماہنامہ’’ شبستان‘‘ دلی کو دیا تھا ، اس کی دائمی اہمیت کے پیش نظر ترتیب نوِ کے ساتھ اسے تلخیصاً ہد یۂ قارئین کیا جاتا ہے ۔ ادارہ
میرواعظ مولانا محمد فاروق میرواعظانِ کشمیر کے ممتاز گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ۔ 7 دسمبر 1968 ء کو آپ میر واعظ کے منصب جلیلہ پر متمکن ہوئے ۔ اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی اور وہ ایف اے میں زیرتعلیم تھے ۔27 دسمبر 1963 ء کو جب درگاہ حضرت بل سری نگر سے موئے مقدس ؐکی چوری ہوگئی تو مولوی فاروق نے اس نازک وقت میں کشمیر ی عوام کی رہنمائی کی اور ایک سیاسی شخصیت بن گئے۔ اسی وقت جموں اور کشمیر کی تمام مذہبی اور سیاسی تنظیموں نے ایک مشترکہ محاذ قائم کیا جس کو عوامی ایکشن کمیٹی(مجلس عمل ) کا نام دیا گیا۔ مولوی فاروق اس تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب کو 1965 کی ہند پاک جنگ کے دوران گرفتار کرلیا گیا اور دو سال دس مہینے دس دن تک بغیر مقدمہ چلائے قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اپنی جیل رو داد ایک تفصیلی ملاقات میں دہراتے ہوئے انہوں کہا مجھ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے ، مسلسل بہت راتوں تک سونے نہیں دیا گیا ، برف کی سیلوں پر بٹھایا گیا ، بجلی کے پانچ پانچ سو واٹ بلبوں کی تیز روشنی آنکھوں پر ڈالی گئی ،جان سے مارڈالنے کی بھی دھمکی دی گئی، مسلسل ظلم کے بعد جب میری حالت قابل رحم ہوگئی تو نیم مرد ہ حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ آخر 20دسمبر 1967 ء کو مجھے رہا کیا گیا ، اور جیل سے باہر آتے ہی میں نے حق خودارادیت کا اعلان ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ کیا۔ 10 اکتوبر 1965 کی رات تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ میں سرینگر شہر میں رات کا کرفیو نافذ کیاگیا تھاجو جنگ بندی کے بعد بھی بدستور جاری رہا۔ کرفیو کی بھیانک خاموشی اور اندھیرے میں مسلح پولیس نے میر واعظ منزل کو گھیر لیا اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو گرفتار کرکے صبح ہونے سے قبل کشمیر سے نکال کر بانہال کے اس پار پہنچادیا ۔ میری گرفتاری کے بعد سرینگر کے عوام پر بھی حکومت کا غیض و غضب ٹوٹا۔ شہر میں تین دن اور تین رات کا ایسا مسلسل کرفیو لگادیا گیاجس کی مثال (اس وقت تک )کشمیر کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ 72 گھنٹے کے اس ہولناک کرفیو کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جامع مسجد اور خانقاہِ معلی اور شہر کی دیگر مساجد میں اس عرصہ میں کوئی شخص اذان دینے کے لئے بھی نہیں جاسکا۔ عبادت گاہیںاللہ اکبر کی صداؤںسے محروم رہیں، کرفیو کے دوران مسلح پولیس نے جگہ جگہ اندھا دھند گولیاں چلا کر طلباء اور معصوم بچے تک جان بحق کر ڈالے گئے۔ عوامی مجلس عمل کے سینکڑوں عہدیدار اور کارکن گرفتار کرکے جیلوں میں بھر دئے گئے اور کشمیر میں تشدد اور پکڑدھکڑ کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ مجلس عمل مسئلہ الحاق کشمیر کو اس ریاست کے عوام کی تمنائوں اور رضامندی اور ان کی آزادانہ رائے شماری کے مطابق حل کرانے اور اصول حق خودارادیت کا علم بلند رکھنے کا موقف اپنا چکی ہے، اور آج تک اس سے سرموبھی نہیں ہٹی ۔ میر واعظ فاروق صاحب نے دس اکتوبر 1965 کو اپنی گرفتاری کی سرگزشت یادکرتے ہوئے کہاکہ پولیس سرینگر سے کرفیو کے اندھیرے میں مجھے راتوںرات وادی سے باہر بانہال لے گئی اور وہاں سے جموں جیل نومبر میں مجھے جموں چھاؤنی کے ایک پوشیدہ زیر زمین تہہ خانے میںرکھا گیا، جہاں دن کی روشنی میں بھی اندھیرے کا راج تھا، جہاں سورج کی کرنوں کو بھی قیدیوں سے ملنے کی اجازت نہیں تھی ۔ جموں جیل سے چلتے وقت مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ لوگ مجھے ا سپیشل جیل میں لے جارہے ہیں جو اس جیل سے بہت بہتر قسم کا جیل ہے ۔روانگی سے قبل میری ماں کے نام چھٹی لکھوائی گئی کہ میں بالکل خیریت سے ہوں ، دوستوں کو خیریت کے تاردلوائے مگر اس کے بعد میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ، جیپ میں بٹھا کر وہ مجھے جموں شہر سے باہر لے آئے، یہاں پولیس کی بجائے چند فوجی اس جیپ میں سوار ہو گئے۔ ان فوجیوں نے آتے ہی میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔ میں حیران رہ گیا کہ مجھے ا سپیشل جیل میں لے جانے کا وعدہ کرکے دھوکہ دیا گیا ہے۔میں اس غیر متوقع بات سے اتنا پریشان تھا کہ یہ احساس بھی نہیں رہا کہ جس جیپ میں بیٹھا ہوں ،وہ چل رہی ہے یا کھڑی ہے۔ اندھیرے تہ خانہ میں آنے کے بعد میری آنکھوں سے پٹی اُتاردی گئی ۔ چاروں طرف اندھیرے کے سوا کچھ نہ تھا ، دس منٹ بعد ایک فوجی نے کہا آپ گھبرائیں نہیں‘ آپ کو یہاں تفتیش کے لئے لائے ہیں۔ جو کچھ پوچھا جائے اس کا جواب دیں ۔ میںرات بھر سو نہیں سکا،رات چکر لگائے گزرگئی ،کمرے کے باہر مسلح سپاہی کی جگہ دوسرا سپاہی آیا تب احساس ہوا کہ صبح ہوگئی ہے کیوں کہ اس اسپیشل جیل میں پہنچنے پر میری گھڑی او رکپرے سب لے لئے گئے تھے ۔ کچھ دیر بعد مجھے ایک الگ کمرہ میں لے جایا گیا ، بیٹھنے کے لئے سٹول دیا گیا۔ اس کے چاروں طرف چار کرسیاں رکھی تھیں جن پر چار آدمی آکر بیٹھ گئے۔ انہوںنے میرا نام میرے باپ کا نام ، بھائیوں کی تعداد ، ان کے نام ، میری تعلیم کے بارے میں سولات کئے ۔ یہ سارے سوالات بالکل نجی تھے ۔ سیاسی سوال کوئی بھی نہیں کیا گیا۔ بہت دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا ، وہ چلے گئے تو ان کی جگہ جو چار نئے افراد آئے تھے، انہوں نے بھی وہی سوالات دہرائے ان کے چلے جانے کے بعد چار اور نئے افراد آئے اس نئی ٹولی نے بھی وہی سوالات کئے جو مجھ سے برابر پوچھے جارہے تھے۔ وہ لوگ جب تھک جاتے تھے تو نئی اور تازہ دم ٹولی آجاتی تھی ۔ یہ سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا۔ ان 7 دنوں میں مجھے ایک دن ، ایک گھنٹہ کیا ایک لمحہ کے لئے سونے نہیں دیا گیا، میری آنکھیں نیند سے بند ہوجاتیں تووہ ٹھنڈے پانی کی بالٹیاں میرے اُوپر اُلٹ دیاکرتے تھے ۔ نومبر کا مہینہ اور برف کا پانی، یہ تھاا سپیشل جیل ۔ آخر جب نیند کے غلبہ سے چور ہو کر مجھے اپنی سدُھ بُدھ نہیں رہی تو انہوں نے سیاسی سوالات داغے مجھ سے پوچھا گیا ’’ پاکستان سے جو مجاہد آئے تھے انہیں کہا رکھا تھا ؟ پاکستان سے کیا ساز باز کی ہے ؟ میں نے نیم بے ہوشی میں جواب دیا کہ وہ چڑیاں تو نہیں تھیں کہ آسمان سے آگئیں ،جب آپ کو پتہ نہیں تو مجھے کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ پاکستان کے مجاہد کہاں چھپے رہے؟ ان کے بے ہودہ اور غلط قسم کے الزامات کی تردید کرتے کرتے گرپڑتا تھا تو وہ پانچ پانچ سو واٹ کے بلب میری طرف کرتے تھے ،مجھے برف کی سلوں پر لٹاتے تھے۔ یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا ، ظلم بڑھتا رہا کھانے کے لئے خوراک بھی بہت ناقص دی جاتی تھی ویسے چند روز بعد خوراک کی ضرورت کسے پڑتی تھی ، احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ کھایا بھی ہے یا نہیں۔
چند روز بعد میں نے آنکھ کھولی تو خود کو ہسپتال میں پایا ، کچھ پتہ نہیں تھا کہ اتنے روز میرے ساتھ کیاسلوک ہوا۔ ا س دوران میرے بھائی اور چچانے مرکزی حکومت کو تاردئے ، کشمیر گورنمنٹ کو تار دئے ، احتجاج کیا تویہ جواب آیا کہ مولوی فاروق کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے مگر ہسپتال سے یہ خبر کسی طرح باہر کی دنیا میں پہنچ گئی کہ مجھے اس قدر اذیتیں پہنچائی گئی ہیں کہ میں نیم مردہ ہوگیا ہوں۔ لوگ ہسپتال کی طرف دوڑے مگر کسی کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ میرے کسی رشتہ دار کو کسی ہمددرکو ملنے نہیں دیا گیا۔ وہ اس لئے کہ جموں جیل کے رجسٹر میں ابھی تک مجھے وہاں ہی مقید دکھایا جارہا تھا۔ وہ یہ بتانا نہیں چاہتے تھے کہ میری حالت اتنی ناگفتہ بہ کردی گئی ہے کہ مجھے ہسپتال میں لے جایا گیاہے۔ آخردو ماہ بعد میرے بھائی کو اجازت ملی کہ وہ بس دور سے ہی مجھ سے ملیں ۔ اس وقت دو بندوقچی میرے دائیں بائیں اور ایک افسر قریب بیٹھا تھا ۔ اس نے مجھے تنبیہ کی کہ اگر میںنے زبان پر ایک بھی حرف شکایت لایا تو مجھے سخت اذیتیں دی جائیں گی ۔مجھے ان اذیتوں کی پرواہ نہیں تھی مگر دوماہ کے علاج کے باوجود میرے ہوش وحواس گم تھے۔ میری زبان سے بار بار یہی نکلتا تھا کہ میر ا نام محمد فاروق ہے، میرے والد کا نام مولوی محمد امین ہے ۔ میرے بھائی کو جو پہلے سے دل کے مریض تھے ،اس بات سے اس قدر صدمہ پہنچا کہ کچھ دن بعد ان کا ہارٹ فیل ہوگیا۔
ہسپتال سے مجھے پھر ایک الگ کمرہ میں قید تنہائی ملی، آخر ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘کے مسٹر بھاٹیہ مرکزی حکومت سے اجازت لے کر مجھ سے ملنے آئے ،مجھے افسروں نے ہدایت کی کہ میں نے ظلم و زیادتی کے بارے میں کوئی بات کی تو اس کا انجام بہت برُا ہوگا۔ مسٹر بھاٹیہ مجھ سے ہندوستان ، پاکستان اور کشمیر کے بارے میںسوالات کئے ۔ وہ اگر زیادتیوں کے بارے میں پوچھتے تو میں سب کچھ بتادیتا۔ البتہ خود مسٹر بھاٹیہ کو میرے اوپر ظلم و زیادتی کی اطلاعات مل چکی تھیں ۔ انہوں نے اپنے اخبار میں ان کا ہلکا سا تذکرہ کیا۔ اس کمرہ سے مجھے سنڑل جیل جموں میں لے جایا گیا اور پھر وہاں سے کدکی سب جیل مین رکھا گیا۔ یہاں ایک سال مجھے رکھا گیا۔ اس دوران میں حکومت کی طرف سے وقتاًفوقتاً میری خوراک اور علاج معالجہ کے بارے میں لمبے چوڑے اعلانات ہوتے رہے جو سب لغو اور بکواس تھے ۔ اب بھی میری صحت اسی وجہ سے خراب ہے۔
اپنے خاندان کے سلسلہ میں میرواعظ نے کہا کہ ہمارا خاندان ہمدان سے آیا تھا ۔حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ نے اسلام کا جھنڈا کشمیر میں گاڑا۔ان کے صاحب زادے حضرت میر محمد ہمدانیؒ نے کشمیر میں اسلام کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ہمارا تعلق انہی مبلغین سے ہے جو اُن کے ہمراہ ہمدان سے آئے تھے۔ مجھے 7 دسمبر 1968 ء کو کشمیر کا میرواعظ بنایا گیا اور جامع مسجد میں ایک عظیم الشان اجتماع میں میری دستار بندی کی گئی ۔جموں و کشمیر عوامی مجلس عمل 1964 ء میں وجود میں آئی ۔ یہ ایک ہمہ گیر جماعت ہے جو مذہب و سیاست میں تفریق نہیں کرتی ۔اس جماعت کا اولین مقصد کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق دلوانا ہے ۔ کشمیر کا الحاق ابھی تک تصفیہ طلب مسئلہ ہے، اس مسئلہ کو حل ہونا چاہئے ۔ کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ عوامی مجلس عمل حق خود ارادیت اور کشمیریوں کی استصواب رائے پر زور دیتی ہے ۔ دُنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتی ۔ ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تین پارٹیوں کے درمیان ہے : پاکستان ہندوستان اور کشمیری عوام ۔ یہ تینوں مل کر ہی اس مسئلہ کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔دراصل ریاست جموں و کشمیر کی ہزاروں سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو آپ پر یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ کھبی بھی یہ جنت نظیر خطہ آزاد مملکت رہا ہے لیکن آنجہانی مہاراجہ ہری سنگھ جو کشمیر میں جاگیر شاہی دور کے آخری اختیار حکمران تھے، ریاستی عوام کی تمنائوں آرزوں اور خواہشات کو جانے بغیر رائے عامہ کے بالکل بر خلاف نیشنل کانفرنس کی تائید کا سہارا لے کر ہندوستان کے ساتھ 47 ء میںالحاق کا اعلان کر بیٹھے ۔ حالانکہ اس سے پہلے پاکستان کے ساتھ مہاراجہ نے سٹینڈ سٹل(STANDSTILL) ایگریمنٹ بھی کیا تھا اور ریاست کے ڈاک خانوں پر پاکستانی آفیسرز کو مامور کیا اور انہیں پاکستانی پرچم لہرانے کی اجازت بھی دی تھی لیکن اپنے طور چونکہ وہ مستقل آزاد اسٹیٹ کا بادشاہ بن جانے کے خواب دیکھ رہے تھے ،اس لئے الحاق کے مسئلہ تادیرکو ٹالتے رہے اور جب دیکھا کہ ان کا خواب پورا ہونے کی کوئی صورت نہیں تو رائے عامہ کو پامال کرکے پوری ریاست کو مصیبت میں گرفتار کرگئے ۔ تب سے آج تک کشمیر کے قضیے پر جنگیں لڑی گئیں ۔ پنڈت نہرو نے پارلیمنٹ میں وعدہ کیا تھا کہ جو نہی کشمیر میںحالات ٹھیک ہوں گے کشمیریوں کو آزادانہ رائے کا موقع دیا جائے گا۔ ہندوستان ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا۔ اس نے عالمی ادارے میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور اسی وقت ہندوستان نے پاکستان کو ایک فریق کی حیثیت سے تسلیم کیا۔سلامتی کونسل کی قرار داد پر پاکستان اور ہندوستان کے دستخط ثبت ہیں۔ اس قرار داد میں کشمیر یوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ کشمیریوںکا فیصلہ آخری اور حتمی ہے جو ہندوستان اور پاکستان دونوںکو ماننا ہوگا۔ بدقسمتی سے اس حق کو آج تک استعمال کرنے کا موقع نہیںدیا گیا ۔ اسی حق کو تسلیم کرانے کے لئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں ۔ اس بارے میںہندوستان بے وزن دلیلیں پیش کررہاہے ۔میری مخلصانہ خواہش ہے کہ برصغیر میں پائیدار امن قائم ہو ۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوں مگر اس وقت تک ایسا ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل حل نہ ہوں ۔میری یہ تجویز ہے کہ گول میز کانفرنس بلائی جائے جس میں پاکستان و ہندوستان کے رہنمائوں کے علاوہ کشمیر کے عوامی رہنما بھی شامل ہوں اور یہ مسئلہ اس طرح حل کیا جائے پاکستان ہندوستان میں سے کسی کو بھی اپنی شکست کا احساس نہ ہ ہو اور جو بھی فیصلہ ہووہ کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کا آئینہ دار ہو ا ور منصفانہ اورحتمی ہو۔
مر سلہ……… عوامی مجلس عمل جموں وکشمیر