کشور اور ممتا کی اکلوتی بیٹی سیما ہے، جو اپنے ماں باپ کی چہیتی ہے ۔عمر اس کی 19سال کی ہے اورماں باپ اس سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ اس کے گھر میں اس کے چا چا چاچی اور ایک چچیری بہن بھی ہے جس کا نام سونا ہے، دونوں ہم عمر ہیں۔ان دونوں کو آپس میں اتنی محبت ہے کہ جیسے سگھی بہنیں ہوں۔
سونا نے سیما سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آج اسکول کا آخری دن ہے، اب تم لوگوں کا کہاں سیر پر جانے کا پروگرام ہے۔
ہم اس بار ایسی جگہ جائینگے جہاں اچھی ٹھنڈ ہو۔ سیما نے جواب دیا۔
اگلے روزسیما اور اس کے ماں باپ پہلگام کیلئے نکلے۔
تم بھی چلو ہمارے ساتھ سونا،سیما نے کہا۔
نہیں نہیں آپ لوگ جائیں، سونا نے جواب دیا۔
کچھ دن بعد سونا اسی سوچ میں تھی کہ کب سیما واپس آئے گی کہ اتنے میں گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔سونا دوڑ کر ٹیلی فون کی طرف گئی کہ شاید سیما کا فون ہے لیکن ٹیلی فون پر کوئی آدمی تھا۔
کیا یہ سیما کے گھر کا نمبر ہے ؟جی جی !سونا نے گھبراتے ہوئے پوچھا کہ خیریت ہی ہے ،سیما ٹھیک ہے نا، چاچا اور چاچی کہاں پر ہیں۔ ابھی یہ کہہ ہی رہی تھی کہ آدمی نے کہا میرے پاس وقت نہیں ہے،تم لوگ جلدی ہسپتال کی طرف آجاؤ ان کی حالت بہت خراب ہے۔اتنے میں اس آدمی نے فون رکھ دیا۔سونا اس سوچ میں پڑی کہ کس طرح جاؤں۔
زندگی بھی کیا عجیب چیز ہے، جو انسان سوچتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے۔میں ممی پاپا کے ساتھ ہسپتال کی طرف بھاگی اور یہ دیکھ کر وہاں حیران رہ گئی کہ سیما اب پہلی جیسی نہیں رہی۔ڈاکڑ نے اس کی ایک ٹانگ کاٹ ڈالی ہے۔سیما کے چاچا چاچی ڈاکٹر سے پوچھتے ہیں کہ اس کے ساتھ اس کے ماں باپ تھے وہ لوگ کہاں ہیں۔ڈاکٹر ان سے کہتا ہے کہ حادثے میں ان کی موت ہوئی ،ہم ان کو بچا نہیں سکے۔اس جانکاہ حادثے کے بعد سیما اپنے چاچاچاچی کے ساتھ رہنے لگی۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد اس کے چاچا چاچی کا رویہ بدل گیا ۔یہ لوگ اس کو بہت ستانے لگے، یہاں تک کہ اس سے گھر کا سارا کام کرواتے لیکن سونا کو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا ۔ایک دن سیما کو رات کا کھانا بھی نہیں دیا گیا اور وہ بغیر کھانا کھائے اپنے کمرے میں گئی اور اپنے ماں باپ کی تصویر کے سامنے رونے لگی۔
ممی پاپا آپ لوگ اتنی دور کیوں چلے گئے،مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر،میں بھی آپ کے ساتھ کیوں نہیں مر گئی۔وہ بہت دیر تک اپنے ماں باپ کی تصویر کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔۔۔
اس کے چاچا چاچی نے ایک ترکیب سوچی کہ کیوں سیما کو زہر دیا جائے اور پھر ساری جائیداد ہماری ہوگی۔یہ جائیداد بھی کیا چیز ہے۔اس کے لالچ میں انسان نہ جانے کیا کیا کر بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی اپنوں کو بھی بھول جاتا ہے۔
اگلی صبح اس کی چاچی نے اس کے کمرے میں کھیر رکھی اور پیار سے اس کو جگایا جو کہ ایک سازش تھی جائیداد ہڑپنے کی۔اٹھو بیٹا دیکھو تو میں تمہارے لیے کیا لائی ہوں،چاچی نے کہا۔
وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ آخر کار چاچی کا رویہ بدل گیا اور کٹوری ہاتھ میں لی اور جوں ہی وہ کھیر کھانے لگی تو سونا کمرے میں آگئی۔ کھیر دیکھ کر اُس نے سیما کے ہاتھ سے کٹوری چھین لی اور کھیر کاایک چمچ کھا لیتی لیا لیکن اس کی ماں نے اس کے ہاتھ سے کٹوری چھین ہی لی تھی کہ اتنے میں سونا زمین پر گر پڑی۔یہ منظر دیکھ کر اس کی ماںبے ہوش ہوگئی ۔جب اسے ہوش آیا تو اپنی بیٹی کو مرا ہوا پایا۔
سونا یہ میرے ہاتھ سے کیا ہوا۔ مرنا کسی اور کو تھا اور مری تم۔۔۔یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
اس کی ماں روتے بلکتے ہوئے واویلا کرتی رہی کہ واقعی کسی دوسرے کے لیے بُرا نہیں سوچنا چاہئے ۔ہمیں جائیداد تو نہ ملی مگر اپنی بیٹی گنواں بیٹھے۔ یہ منظر دیکھ کر آس پاس کے لوگوں کے آنکھوں سے آنسووں کی قطار بہہ گئی۔لالچ کی وجہ سے ماں نے اپنی چہیتی کو کھو دیا۔
محلہ توحید گنج بارہمولہ کشمیر