موجودہ دور میں اکثر اہل اسلام رشتہ تلاش کرتے وقت یہ کوشش کرتے ہیں کہ اُنہیں اُس گھر سے رشتہ ملے جس گھر والے زیادہ سے زیادہ جہیز دے سکیں۔ بے محنت حاصل ہونے والی دولت کے یہ متلاشی عورتوں کی دینداری‘ حسن و جمال اور نسبی شرافت اور قرابت کو کچھ بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اس لئے ایسے رشتے میں خیروبرکت کا فقدان ہوتا ہے کیونکہ میاں بیوی کو ساری زندگی ایک رشتہ میں منسلک رکھنے والے اوصاف دونوں میں موجود ہوں گے تو وہ خوشگوار زندگی بسر کرسکیںگے ورنہ ان کی زندگی وبال جان بن کر رہ جائے گی‘ خواہ کتنا زیادہ جہیز ملا ہو۔
زیادہ برکت والا نکاح :جس نکاح میں اخراجات کی کمی ہوگی‘ وہ زیادہ برکت والا ہوگا۔ لڑکی والوں کو جہیز تیار کرنے کی مصیبت جھیلنی نہیں پڑے گی۔ لڑکے والوں کو زیادہ زیورات اور مہر کی رقوم مہیا کرنے کی زحمت اٹھانی نہیں پڑے گی اور زوجین کے بے جا شادی کے اخراجات کی وجہ سے قرضوں کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہیں گے۔ میکے سے جہیز نہ لانے والی عورت یہ سمجھے گی کہ مجھے جو کچھ ملا ہے خاوند کی طرف سے ملا ہے‘ اس لئے مجھے خاوند کی خدمت گار بن کر رہنا چاہئے۔ لڑکا سمجھے گا میرے گھر میں جو کچھ ہے میری اپنی کمائی کا ہے‘ اس لئے وہ احساس کم تری میں مبتلا ہونے سے بچا رہے گا۔ انہی وجوہات کی بناء پر نبی امیﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ سب سے بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں اخراجات میں سب سے زیادہ کمی پائی جاتی ہے۔
شیخ محقق دہلوی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں
’’سب سے بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جس کا سامان تیار کرنے میں سب سے زیادہ آسان بوجھ اور مشقت اٹھائی جاتی ہے (اشعۃ اللمعات )کاش !مسلمان اس حدیث نبوی ؐکو پڑھیں اور اس پر عمل کریں تو کتنے پھندوں سے نجات مل سکتی ہے ۔
جہیز کی خاطر رشتہ کرنا شرعا مذموم ہے:بھاری جہیز غریب لوگوں کی بچیوں کی شادی میں سخت رُکاٹ بن جاتا ہے۔ سالہا سال وہ اپنے میکے میں جوانی کا عرصہ گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس لئے شرع شریف نے جہیز کی خاطر رشتہ کرنے کو مذموم قرار دیا ہے۔ رسولﷺ ارشاد فرماتے ہیں: عورت سے (چار وجوہ سے) نکاح کیا جاتا ہے۔ اس کی مالداری کے سبب سے اور اس کی خاندانی شرافت کے سبب سے اور اس کے حسن و جمال کے سبب سے اور اس کی دین داری کے سبب سے۔ سو تُو دین والی عورت پر کامیابی حاصل کر۔( مشکوٰۃ )
امام غزالی لکھتے ہیں:حدیث شریف میں مروی ہے کہ جو شخص عورت کے مال و جمال کے سبب سے اس سے شادی کرے، وہ اس کے مال و جمال سے محروم رہتا ہے اور جو شخص عورت کی دین داری کے سبب سے اس سے شادی کرے‘ اﷲ اسے اس عورت کا مال و جمال عطا کردیتا ہے (نزہۃ الناظرین ) بعض بزرگ فرماتے ہیں:جو شخص غنی عورت سے شادی کرے وہ اس کی طرف سے پانچ آفتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مہر کی زیادتی‘ رخصتی میں دیری‘ خدمت سے محرومی‘ اخراجات کی زیادتی اور جب وہ اس کو طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اس کا جہیز چلے جانے کے ڈر سے قدرت نہیں رکھتا اور غریب عورت سے شادی کرنے میں ان پانچ آفتوں سے حفاظت رہتی ہے (نزہۃ الناظرین ) بزرگان دین کے ان ارشادات عالیہ پر غور فرمائیں اور یقین جانیں کہ اس دور میں ازدواجی زندگی کا بگاڑ زیادہ تر اسی وجہ سے پایا جاتا ہے کہ جہیز حاصل کرنے کی غرض سے امیروں کی لڑکیاں بیاہی جاتی ہیں اور غریبوں کی بچیوں سے روگردانی کی جاتی ہے۔ اگر مسلمان آج بھی سنبھل جائیں اور ما ل داری کی بجائے دین داری کو بنیاد بنالیں تو اور کسی قسم کی ناچاقی کے واقع ہونے کا خدشہ نہیں ہوگا۔
نیک بیوی سعادت مندی کی علامت ہے،نیک بیوی نیک بختی کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:’’دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے‘‘ اور فرمایا ’’تقویٰ کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ اگر وہ اسے حکم کرے تو وہ اس کی اطاعت کرتی ہے اور اگر اسے دیکھتے تو اسے خوش کرتی ہے اور اگر وہ اس پر قسم کھا بیٹھے تو وہ اس کی قسم کو سچا کردیتی ہے۔ اور اگر وہ کہیں چلا جائے تو وہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں خیر خواہی کرتی ہے۔ (مشکوٰۃ ) اور فرمایا:’’جس شخص کو چار چیزیں ملیں‘ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل جاتی ہے۔ شکر گزار دل‘ یاد الٰہی کرنے والی زبان بلاء پر صبر کرنے والا بدن اور ایسی بیوی جو اپنے نفس اور شوہر کے مالک میں گناہ کی متلاشی نہ ہو (مشکوٰۃ )نیز فرمایا: ’’تین چیزیں آدمی کی نیک بختی سے ہیں اور تین چیزیں بدبختی سے‘‘ نیک بختی کی چیزوں میں سے نیک عورت اور اچھا مکان اور اچھی سواری ہے اور بدبختی کی چیزوں میںسے بری عورت اور برا مکان اور بری سواری ہے۔فرمایا ’’جسے اﷲ نے نیک بیوی نصیب کی اس کے نصف دین پر اعانت فرمائی تو باقی نصف میں اسے ڈرنا چاہئے‘‘ اور فرمایا ’’جس شخص کو پانچ چیزیں دی گئیں۔ اُسے آخرت کے عمل کے ترک پر معذور قرار نہیں دیا جائے گا۔ نیک بیوی‘ نیک اولاد‘ لوگوں سے اچھا میل جول‘ اپنے شہر میں روزگار اور آل محمدﷺ کی محبت (جامع صغیر) فرمایا ’’کیا میں تجھے خبر نہ دوں اس بہترین چیز کے بارے میں جو مرد جمع کرتا ہے‘ وہ نیک عورت ہے کہ جب وہ اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کرے اور جب اسے حکم کرے تو وہ اطاعت کرے اور جب وہ موجود نہ ہوتو حفاظت کرے (جامع صغیر)
جہیز شرعا واجب نہیں ہے:چونکہ بچی کے والدین اس کی پیدائش سے لے کر جوان ہونے تک اس کی تربیت و تعلیم پر مسلسل مال خرچ کرتے رہتے ہیں‘ اس لئے شرع شریف نے شادی کے موقع پر بچی کو جہیز دینا ان پر واجب نہیں کیا ہے اور نہ اس حق پرورش کے بدلہ میں کچھ لڑکے والوں کی طرف سے لینا جائز قرار دیا ہے۔ فی الواقع اگر شادی کے موقع پر شرع شریف لڑکی کے والدین پر جہیز دینا واجب کرتی تو لڑکی ان کے لئے وُبال جان بن جاتی اور وہ اسے زندہ درگور کردینے کے درپے ہوجاتے۔اگر شرع شریف نے لڑکی والوں پر جہیز دینا واجب نہیں کیا لیکن اگروہ اپنی حیثیت کے مطابق اوراپنی آزادانہ مرضی سے دلہن کوکچھ تحفہ تحائف دیں تو اس سے انہیں شر ع شریف منع بھی نہیں کرتاہے۔ حضورﷺ نے بھی اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو شادی بیاہ کے موقع پر چند چیزیں دے کر رخصت فرمایا تھا لیکن یاد رکھئے انہیں حضرت علی کرام اللہ تعالیٰ وجہہ نے از خود خریداتھا ۔ ایسے سامان کا سسرال جاتے ہوئے دینا ماں باپ کی شفقت و محبت کی نشانی ہوتی ہے‘ ہاں لڑکی والوں کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر یہ چیزیں کبھی نہیں دینی چاہئے۔
خاتون جنت ؓ کا سامانِ رخصتی :
نبی اکرمﷺ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے نکاح کے وقت جو چیزیں دی تھیں‘ انہیں حضرت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اس نظم میں بیان کیا ہے ؎
فاطمہ زہرا ؓ کا جس دن عقد تھا
سن لو اُن کے ساتھ کیا کیا نقد تھا
ایک چادر سترہ پیوند کی
مصطفیﷺ نے اپنے دختر کو دی
ایک توشکل جس کا چمڑے کا غلاف
ایک تکیہ ایک ایسا ہی لحاف
جس کے اندر اون نہ ریشم روئی
بلکہ اس میں چھال خرمے کی بھری
ایک چکی پیسنے کے واسطے
ایک مشکیزہ تھا پانی کے لئے
ایک لکڑی کا پیالہ
ساتھ میں نقری کنگن کی جوڑی ہاتھ میں
اور گلے میں ہار ہاتھی دانت کا
ایک جوڑا بھی کھڑائوں کا دیا
شاہزادی سید الکونین ؐکے
بے سواری ہی علیؓ کے گھر گئی
واسطے جن کے بنے دونوں جہاں
ان کی تھیں سیدھی سادی شادیاں
اس جہیز پاک پہ لاکھوں سلام
صاحبِ لولاک پہ لاکھوں سلام
جہیز کی رقم دولہا سے لینا جائز نہیں:بعض لوگ جہیز کی رقم لڑکے والوں سے لیتے ہیں بلکہ بارات کا کل خرچ بھی ان سے مانگتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں شرعا جائز نہیں۔بعض لوگ جہیز کی رسم پوری کرنے کے لئے بے جا قرضہ اٹھاتے ہیں‘ یہ بھی شرعا مذموم ہے کہ جس کام کو شرع نے لازم قرار نہیں کیا۔ اس کے لئے قرضہ میں زیر بار ہونا دانش مندی نہیں۔بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ میاں بیوی کی ناچاقی کی صورت پیدا ہوتی ہے اور ان میں طلاق واقع ہوجاتی ہے تو خاوند مہر میں دیا ہوا زیور بھی لے لیتا ہے اور عورت کا جہیز بھی ہڑپ کرلیتا ہے۔ یہ شرعاً سخت حرام اور ظلم عظیم ہے۔ جہیز کی بدعت مسلمانوں میں کہاں سے رائج ہوئی،اس بارے میں ایک محقق کا کہنا ہے کہ’’ہندو دھرم (مذہب) میں دختر کے لئے وراثت میں حصہ نہیں ،اس لئے وہ اس کی تلافی یوں کرلیتے ہیں کہ جب بیٹی کی شادی کرتے ہیں تو جتنا کچھ اسے دے سکتے ہیں‘ جہیز کے نام سے دے دیتے ہیں۔ مسلمان بھی یہی کچھ اُن کی دیکھا دیکھی کرنے لگے ہیں۔ بہت سے خاندانوں میں بیٹی کو ترکہ نہیں ملتا لیکن دوسرے حصہ میں تقریباً سب عمل کرتے ہیں یعنی بیاہتے ہوئے اسے جہیز دینا اتنا ضروری سمجھتے ہیں کہ گویا اس کے بغیر شادی ہی مکمل نہیں ہوتی۔اس پر غضب کہ یہ اپنے مروجہ جہیز کو سنت رسولﷺ قرار دے رہے ہیں۔ استغفراللہ! پھر سب سے زیادہ ظلم یہ کہ مروجہ جہیز کے سنت ہونے پر کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے سیدہ فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو جہیز دیا تھا۔ حالانکہ یہ چیزیں حضرت علیؓ نے اپنی زرہ گروی رکھ کر کچھ رقم جٹائی، جس سے یہ روزانہ ضرورت کی چیزیں ازادوجی زندگی یا گھر گرہستی چلانے کے لئے خرید یں گئی تھیں اور بارات وغیرہ کے اہتمام کا تصور بھی نہ تھا ۔ یہ حقیر گزارشات غور سے سن لیجئے۔ آپ کے سامنے خدا کی کتاب کھلی ہے۔ احادیث کے دفتر موجود ہیں۔ ہر مشرب کی کتبِ فقہ رکھی ہوئی ہیں۔ آپ کو ہر جگہ زرِ مہر کی تصریح ملے گی۔ قرآن نے اسے فریضہ‘ صدقات اور اجر کہا ہے۔ احادیث میں اسے صداق اور مہر بھی کہا گیا ہے۔ کتب ِفقہ میں اس کے مستقل ابواب ہیں اور ہر جگہ اسے دولہے یعنی شوہرایک واجب الادا فرض بتایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ مسند احمد کی روایت ہے کہ جوشخص ایک عورت سے کسی مہر پر نکاہ کرے اور نیت یہ ہو کہ وہ اسے ادا نہیں کرے گا تو اس کا شمار زانیوں میں ہے۔ قرآن پاک میں اس کی بار بار تاکید آئی ہے کہ عورتوں کا ان کا مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو۔ غرض مہر کے سارے احکام قرآن میں ‘ احادیث میں اور فقہ میں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں لیکن جو چیز آپ کو کہیں نہ ملے گی وہ ہے جہیز کا ذکر ہے جس سےقرآن قطعاً خالی ہیں، احادیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ فقہ میں کہیں کوئی باب الجہیز موجود نہیں۔ اب خود ہی سوچئے کہ یہ جہیز نعوذباللہ سنت کیسے بن گیا؟
پھر اس پر غور فرمایئے کہ حضورﷺ کی اور بھی تین صاحبزادیاں تھیں۔ زینب‘ رقیہ‘ ام کلثوم رضی اﷲ عنہن۔ کیا آپؐ نے کبھی یہ بھی سنا کہ حضورﷺ نے زینب‘ رقیہ و ام کلثو رضوان اللہ تعالیٰ علیہن اجمعین کو جہیز دیا، جس میں فلاں فلاں چیزیں تھیں؟ حضورﷺ کے شرف زوجیت میں کتنی امہات المومنین آئیں لیکن آپ نے کبھی یہ بھی پڑھا ہے کہ ماںحضرت عائشہؓ کے جہیز میں یہ چیزیں تھیں ؟ ماں حضرت حفصہؓ یا حضرت سودہؓ یا دوسری ازواج النبیﷺ فلاں فلاں چیز جہیز میں لائی تھیں؟ بے شمار صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی شادیاں فرمائیں لیکن کتنوں کے متعلق آپ نے کبھی یہ ذکر پڑھا ہے کہ ان کی ازواج سنت رسولﷺ کی طرح جہیز لائی تھی؟ پھر ذرا عقل پر زور دے کر سوچئے کہ آخر یہ سنت رسولؐ کی کون سی قسم ہے جو موجودہ زمانے کے سوا اور کہیں بھی نظر نہیں آتی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حقیقت کچھ اور ہے اور ہم نے از راہ ِ لالچ کچھ اور فرض کرلیا ؟ ہاں یقینا یہی بات ہے۔ حضورﷺ و و ہ چیزیں جناب فاطمہ زہراؓکو دیں‘ لیکن وہ چیز یں نہ تھیں جنہیں ہم عرف عام میں جہیز کہتے ہیں۔ یقینا ًانہیں مروجہ جہیز کی اصطلاح سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ذرا توجہ سے حقیقت حال پر غور فرمایئے۔حضورﷺ نے جناب فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دونوں کے کفیل اور سرپرست تھے۔ اس لئے دونوں کے ازدواج کا اہتمام بھی حضورﷺ ہی کو کرنا تھا۔ جناب علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی گھر بسانا تھا‘ اس لئے اسی کا انتظام بھی حضورﷺ ہی فرما رہے تھے۔ خانہ داری کے انتظام کے لئے جو کچھ مختصر انتظام حضورﷺ نے حضرت علیؓکے اپنے قرضہ کی رقم سے مناسب سمجھا، فرمادیا۔ رہا چاندی کا ہار تو وہ یوں بھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہی کا تھا جو آپؓ کو اپنی والدہ ماجد اُم المومنین سیدہ خدیجہ کے ترکے میں ملا تھا۔ یہ سارا انتظام حضورﷺ کو اس لئے کرنا پڑا کہ آپﷺ کو ایک الگ گھر بسانا تھا۔ اگر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پہلے ہی سے کوئی الگ گھر ہوتا تو حضورﷺ شاید ہی اتنا کچھ اہتمام فرماتے۔ حضرت ابو العاص کا گھر پہلے سے موجود تھا۔ اس لئے سیدہ زینب ؓ کو بیاہنے کے لئے حضورﷺ نے ایسا کوئی انتظام نہ کیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا الگ گھر بھی پہلے موجود تھا۔ اس لئے سیدہ رقیہ اور اُم کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو بیاہنے میں حضورﷺ کو ایسے کسی انتظام کی ضرورت نہ پڑی۔ اسی طرح حضورﷺ کی زوجیت میں جو امہات المومنینؓ آئیں ،ان کے والدین کو بھی ایسے کسی انتظام کی حاجت نہ تھی لیکن سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حیثیت ان سے مختلف تھی ۔ اب تک وہ حضورﷺ کے ساتھ ہی رہتے تھے اور جب نکاح فاطمہ الزہراؓ ہوا تو سارا اہتمام ازسر نو کرنا پڑا۔ سیدنا علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس کوئی الگ گھر نہ تھا۔ ایک انصاری حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا ایک گھر حضورﷺ کی خدمت میں اسی خدمت کے لئے بخوشی پیش کردیا جس میں یہ پاکیزہ نیا جوڑا منتقل ہوگیااور خانہ داری کے مختصر اسباب وہاں بھیج دئے گئے۔ یہ کوئی جہیز نہ تھا بلکہ صرف ایک انتظام ِخانہ داری تھا۔ اس کے جہیز نہ ہونے کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے متروکات سے سوا دوسری چیزیں حضورﷺ نے کہاں سے مہیا فرمائی تھیں؟ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل چیز ہے۔ حضورﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے حق مہر پہلے ہی لے لیا تھا، ایک زرہ تھی جو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سوا سو روپے کی رقم (تقریبا پانچ سو درہم) میں فروخت کی تھی۔ یہی رقم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور اسی رقم سے حضورﷺ نے خانہ داری کا سب سامان اور کچھ خوشبو وغیرہ منگوائی تھی۔ ذرا سوچئے! کیا جہیز کی یہی صورت ہوتی ہے۔ اگر لوگ فی الواقع جہیز کو سنت سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اسے زر مہری سے مہیا بھی کریں۔الغرض ضروری ہے کہ غیر ضروری اور تباہ کن رسم جہیز کو کسی نہ کسی طرح بے جان بنا دیا جائے اور مروجہ جہیز کی تباہ کاری اور اپنے فرائض کا احساس کرتے ہوئے علمائے کرام کو فوری طور پر جہیز کے خاتمے کے خلاف عوام کی صحیح معلومات فراہم کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو نا اور عوام الناس سے دعائیں لینی چاہیے۔