اس میں کوئی شک نہیں کہ بیٹیاں رحمت ہیں ،بیٹے نعمت ہیں،بہنیں بھائیوں کی طاقت اور خاندان کی آبرو ہیں،بہو سے گھر کی سہانگی وابستہ ہے ۔مگر ان پاکیزہ رشتوں کے حوالہ سے جب کبھی سماجی حیثیت سے غورکیا جاتاہے تو یہ سارے رشتے اپنی معنویت سے محروم نظر آتے ہیں ۔معنویت سے محرومی کی یہ ناروا حالت دراصل کچھ انسان نما وحشی درندوں ،جنسی بھیڑیوں ،بدقماشوں ، لالچیوں اور ناعاقبت اندیشو ں کے اخلاقی ،مذہبی ،دینی اور سماجی جرائم کی اپج اور پیداوار ہے۔آج ہر طرف چھٹی صدی عیسوی کی جاہلیت کا رقص نظر آتا ہے ۔بیٹیوں کی پیدائش کو باعث ذلت اور جہ پریشانی تصور کیا جا رہا ہے ۔ نسل کشی کے واقعات بھی بڑی تیزی سے رونما ہورہے ہیں۔ایک طرف بیٹی بچائو تحریک کی آوازیں صد ا بصحرا ثابت ہورہی ہیں۔تو دوسری طرف جنسی بھیڑیوں کی قیمتیں شادی بیاہ کے باب میں سرچڑھ کر بول رہی ہیں۔غرض یہ کہ موجودہ عہد کا انسان بیٹی کی پیدا ئش سے نہیں بیٹی کی تقدیر سے خائف ہے ۔اس کے سامنے اپنی بیٹی کا مستقبل اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ابتلاء وآزمائش کا مجموعہ نظر آرہا ہے ،دوسروں کی بیٹیوں کا حال انہیں خون کے آنسو رلا رہا ہے ۔جب کہ ماضی کے وحشتناک واقعات کی شدت اور ان کی تلخیوں سے وہ پوری طرح آزاد نہیں ہو پا رہا ہے ۔ان ساری وجوہات کی بنیاد پر انہیں بیٹیوں سے ڈر لگنے لگا ہے ۔ورنہ بیٹیوں کی معصومیت اور اُن کی سادگی کی دل ربا کیفیت سے کوئی بھی غیرت مند شخص آنکھیں نہیں چرا سکتا ۔نہ کوئی بھی صاحب عقل و خرد فرد اس حقیقت کا انکارکرسکتا کہ انسان میں صنف عورت ہی وہ خلق خدا ہے جس سے انسانی سماج کابھرم ، اس کا وقار ، اس کی آبادکاری ،گھرانہ کی رونق باقی ہے ۔بقول شاعر
دیکھٔے قدرت کی یہ بھی اک عجب سوغات ہے
بییٹیوں سے دو گھروں میں نور کی برسات ہے
افسوس کہ اس حقیقت کی معنویت کا اقرار کرتے ہوئے بھی اکیسویں صدی کی اس دوسری صدی میں چاہے جس وجہ سے بھی اس کی عظمت کو پائوں تلے دانستہ اور غیر دانستہ بہر دو طور روندا جارہا ہے ۔شوہر اسے باندی ،باپ اسے باعث ذلت ،شیطانی درنے ہوس رانی کا ذریعہ تصور کر رہے ہیں ۔ابھی چندروز قبل کی بات ہے کہ بنگلور جسے دار السرور کہا جا تا ہے کی سرزمین پر ایک باپ نے اپنی بیٹی کو نذرآتش کردیا۔ اخبار میں خبریں آتی ہیں کہ فلاں دلہن کو موت کے گھا ٹ اُتار دیا گیا۔بیٹیوں کی عظمت میںموجودہ گراوٹ کا ذمہ دار انسانی سماج کا وہ شرپسند اور شیطان دوست گروہ ہے جس کا مقصد صرف صرف اور خدا کی قدرت اور اس کے نظام سے بغاوت کرنا، معصوم بچوں کی خوشیوں کو چھیننا ، کلی کو پھول بننے دینے سے پہلے مسل دیناہے ۔انسانی سماج کا یہ گروہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ۔کبھی آزادی نسواں کا پرفریب نعرہ بلندکرتاہے تو کبھی جہیزکی ناجائز رسم کو مختلف شکلوں میں رواج دیتا ہے ۔چنانچہ اس وقت انسانی معاشرہ کی بد ترین اور قابل نفریں جان لیوا ا ور راحت سوز رسومات میں سر فہرست رسم’’ جہیز،، ہے ۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رسم انسانی سماج میں بلا امتیاز مذہب و ملت نسل در نسل چلی آتی رہی ہے ۔صرف لینے اور دینے والے بدلے جاتے رہے ہیں ۔یعنی ایک دور تھا جب یہ رسم جہیز سماج میں اس طرح رائج تھی کہ لڑکا یا لڑکے یا لڑکے سرپرست لڑکی یا لڑکی کے سرپرست کو منھ مانگی رقم بطور جہیز دی جاتی تھی ۔یا اس شرط پر لڑکی والے راضی ہو تے تھے کہ میں اپنی لڑکی سے شاد ی کروں گا مگر اس کے عوض اتنے روپے دینے ہوں گے ۔مرور زمانہ کے پیش نظر یہ روایت صدیوں پہلے بدل گئی ۔اب یہ رقم لڑکی والے کو لڑکے سے شادی کے عوض دینے پڑتے ہیں ۔علاوہ ازیں ایک لڑکی کو زندگی گزارنے کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں وہ سب کی سب لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کو بطور جہیز دیتے ہیں ۔ اس روایت نہ صرف ایک گھرانہ کو پریشان کیا ہے بلکہ پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہونچا دیا ہے ۔لالچ کو فروغ ،سستی اور کاہلی کو شہ دینے والی جہیز کی اس روایت کو اس کے منفی نتائج کے باعث اس بے رحم عفریت سے تشبیہ دیا جا سکتا ہے جو متعدد گھرانوں کی ہنسیاں چند لمحوں میں لو ٹ لیتا ہے اور آن کی آن میں بے شمار خانوادوں کو،روتا ،بسورتا، بلکتا چھوڑدیتاہے ۔ مطلقہ عورتوں کی بڑھتی تعداد اسی رسم کی دین اورنوجوان لڑکیوں کی خود کشی کی نت نئی وارداتیں اس کا نتیجہ ہیں۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ جہیز سے صرف ایک فرد یعنی لڑکی ہی زندگی متاثر نہیں ہوتی بلکہ اس کا اثر لڑکے کی ازدواجی زندگی پر بھی پڑتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مطالبہ کی بنیاد پر ملنے والا جہیز ہو یا بغیر مطالبہ کے اسے لڑکی والے نے پیش کیا ہو بہر صورت مرد کی سرداری اور قیادت اندرون خانہ یقینا متاثر ہوتی ہے ۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسی جہیز نے مردوں کو بھڑوا اوربعض عورتوں کو مردوں پرقوام بنادیا ہے ۔شادی میں لئے جانیوالے روایتی پیسوںکے عوض خریدے جانیوالے دولہے ہی اکثرو بیشتر بیویوں کے غلام اور اہل سسرال کے خو شامد گزار ہوتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ رسم جہیز اگر ایک طرف غریب لڑکیوں کی دوشیزگی پر تیشہ چلاتی ہے تو دوسری طرف مردوں کی زندگی بھی دوبھرکر دیتی ہے ۔مردوں کی زندگی کے دوبھر ہونے کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ بیوی مرد کو غلام بنانے کے لیے مختلف کوشش خواہ جیسی بھی ہو بہر حال کرتی ہے ۔چنانچہ کبھی اپنی بڑی بہنوں اور بڑے بہنوئیوں کے مابین پائی جانے والی محبتوں کی مثالیں بڑی شد ومد کے ساتھ پیش کرتی ہے تو کبھی کوڑھی صفت مولوی نما جنسی درندوں اور حرام خور(جو جائز اور جائز دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتے) جھاڑ پھونک کرنے والے لٹیروں سے دماغی توازن بگاڑنے والی تعویذیں حاصل کرکے اُسے غلام بنانے کی ناپاک سازشی کوشش اس لیے کرتی ہے کہ اس کے والدین نے شادی سے پہلے خواہ جتنی مقدار میں ہوسلامی دی ہے۔ یہ بھی جہیز کی رسم کا ایک تاریک اور منحوس پہلو ہے ۔میں سمجھتا ہوںکہ جہاں سلامی نہ لی گئی ہووہاں بھی یہی واردات پیش آتی ہیں ۔متھ مارنے کا سلسلہ یہاں بھی دراز ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔بلکہ اس کی نحوست سے جھاڑ پھونک کرنے والے بھی ہمہ وقت ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں ۔کبھی موکلہ کے ساتھ ہی اپنا منہ کالا کربیٹھتے ہیں تو کبھی اپنی آخرت ناجائز متھ مارکر ماں اور بیٹے کے مابین تفریق ڈال کر برباد کرلیتے ہیں۔
یہ حقیقت کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ اس وقت سماج میں پنپ رہی غلط رسومات کو ہوادینے میں امراء کی امارت ،اثریاء کی ثروت ،قائدین کی قیادت ،پیشوائوں کی پیشوائیت اورحکمرانوں کی حکمرانی نے ماضی کی طرح اہم کردار ادادکیا ہے ۔جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ غریب و امیر اور رئیس و فقیر دونوں کی ناجائز کو ششوں سے ہی یہ رسم جہیز اب تک معاشرہ اسلامی میں بھی بقید حیات ہے ۔ آج سماج کا ہرفرد بلا تفریق مسلک و ملت اوربلا امتیاز دین ومذہب ’’جہیز و سلامی ،،کو نکاح و شادی کا ایک اہم حصہ تصور کرچکا ہے ۔ مالدار اپنی دولت سے پانی میں آگ لگانے کی کوششیں کرتاہے تو فقیربھی تکبر وغرور کا ناپاک مظاہرہ کرتے ہوئے ا ور’’اسکی دیوارسے اونچی مری دیواررہے،، کا مصداق بنتے ہوئے آسمان پرتھوکنے کی ناکام سعی کرتاہے ۔ بھکا ریوں کا لبادہ اوڑھکر اورضمیر و ظرف کو بیچ کر چندہ وصولی کرکے اپنی بیٹی کی شادی میں طوفان بد تمیزی مچاتے ہیں ۔ہندوانہ رسم کی ایجاد اور کافرانہ عمل کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ظاہر ہے ایسی صورتحال میں رسم جہیز کا قلع قمع کیونکرممکن ہے ۔ جب کہ خدا کی اسی دھرتی پر کچھ غیرت مند غریب خانے ایسے بھی موجود ہیں جہاں پری صورت دوشیزائیں ،تعلیم یافتہ مستقبل کی نیک مائیں اور پیکر نازک کلیاں و بھولی بھالی نوجوان لڑکیاں صرف اسلئے کنواری بیٹھی ہیں کہ ان کے والدین میں بھرپور جہیز دینے کی صلاحیت نہیں اوران کے سرپرستوں میں نکاح کی تقریب میں طوفان بد تمیزی مچانے کی طاقت و قوت موجود نہیں ۔ اس سلسلہ میں یہ امر بھی ناقابل فراموش ہے کہ سماجی سطح پر غور کرنے کے بعد لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی وجوہات میں سے ایک اہم اور قابل توجہ وجہ یہ بھی سامنے آتی رہی ہے کہ لڑکا بھی مناسب ہے جہیز کے مسائل بھی نہیں ہیں اور نہ ہی سلامی کے مطالبات یہاں پائے جارہے ہیں مگر جو چیز والدین کے دل میں کھٹکتی ہے اور اُنہیں شادی کرانے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکے کی اخلاقی کیفیت کیا ہے ؟ اس میں مردانہ ہمت اور جاہ جلال کتنا ہے ؟اس میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا شعور اور اس کے لیے اس میں کوشش و محنت کا مادہ کتنا ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ شادی کے بعد وہ اپنی تنگی کا علاج لڑکی کے والدین سے کرانے پر تل جائے گا اور جہیز کی بدترین لعنت کی نوعیت تبدیل کرکے ساس اور سسر اور سالوں کی محدود یا غیر محدو کمائی سے بے جا فائدہ اُٹھا نا شروع کردے گا ۔میں نے سماج میں ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جہاں لڑکیوں کی شادیاں سمے پر ہوگئیں مگر والدین کی بد نصیبی اور بھائیوں کی تاریک مستقبل کے باعث سسرال میں جگہ کی تنگی،ماحول کا مناسب نہ ہونا اور ان کے شوہر کا بھائیوں کے ساتھ اچھی طرح نہ بننا وغیرہ جیسے معمولی وجوہات کے سبب نہ صرف یہ کہ بیٹیاں میکہ میں بیٹھی ہیں بلکہ ساتھ میں داماد بھی بیٹا بن کر بیٹھا ہوا ہے ،جس کی وجہ سے گھر میں فطری طور پر افراتفری مچ جاتی ہے ۔ راز راز نہیں رہ پاتا ۔ گھریلو زندگی بہت بری طرح متاثر ہوتی ۔میں سمجھتا ہوں ایسی صورت میں جس نے اپنی بہن کو اس طرح دیکھا ہو وہ کیا بیٹی کی پیدا ئش سے خائف نہیں ہوگا؟یقینا ہوگا ۔اسی طرح کیا دوسرے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے حوالہ سے مذکور والدین سے بڑھ کر غور وفکر نہیں کریں گے؟ مجھے بتائیے کیا ایسی صورت میں لڑکوں والے کے دام اور ان کے بھائو میں اضافہ نہیں ہوگا ؟یہ تو پیش پا افتادہ حقائق ہیں جن سے کوئی اپنی نظریں چرا نہیں سکتا ۔
روایت جہیز کا تاریخی مطالعہ جیسا کہ پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے ،ہمیں اس حقیقت سے آگاہی فراہم کرتاہے کہ عہد گذشتہ میں لڑکیوں کے اولیاء مردوں سے نکا حوں کے عوض کچھ روپیوں یا کچھ سازو سامان کا مطالبہ کرتے تھے ، جسے رشوت قراردیاگیا اور اس سلسلہ میں حرام کا فتویٰ صادر کیا گیا اور علمائے کرام بڑی قربانیوں کے بعد اس مرض پر قا بوپا نے میں کا میاب ہوئے ۔ بہرکیف اس وقت وہی روایت الٹ کر لڑکی والوں کے سر پر پڑ چکی ہے ۔ غورطلب بات یہ ہے کہ جب خاطب سے مخطوب کا ایک پیسے کا مطالبہ بھی جائزنہیں تو مخطو ب سے خاطب کا ایک پائی کا مطالبہ بھی نا جائز اور ایک سنگین معاشرتی جرم ہوگا ۔ گو یا جس طرح ماضـی میں یہ رسم جہیز شرعی حکم کے مطابق حرام تھی، اسی طرح آج بھی رسم جہیزبلا قیل وقال کے حرام ہے ۔ اور حضورپاکؑ کا ارشاد ہے حرام پیسوں سے جسم پر چڑھا ہواگوشت جہنم کے لئے زیادہ موزوں و مناسب ہے ۔ نیز آپ ؐ کا ارشاد مبارک ہے دس میں نواں حصہ حلال اورایک حصہ بھی حرام کا ہوتو اس سے حاصل شدہ کپڑوں میں نہ نماز اورنہ روزہ درست اورنہ ہی ان پیسوں سے لی ہوئی غذا کے شکم میں رہتے ہوئے دعاء اور دیگرعبادت قابل قبول ہیں ۔ غور کیجئے کروڑوں روپے بیٹی والوں سے اینٹھ کر بیٹے والے تجارت کرتے ہیں اورپوری عمر ان ہی پونجیوں سے ذریعہ معاش کا انتظام کرتے ہیں ۔ کئی کئی جوڑے لئے جا تے ہیں جن میںنہ جا نے کتنی نمازیں پڑھی اور نہ معلوم کتنی دعائیں مانگی اور کتنی نیکیاں انجام دی جا تی ہیں مگر سب کے سب اس حدیث پا ک کی رو سے بے کا ر و بے سو دہیں ۔ غو رکیجئے فریزر میں ٹھنڈاکیا ہواپانی ،جہیز میں زبردستی لی گئی عمارت وغیرہ وغیرہ کے مہلک اثرات کہاں تک پہنچتے ہیں ۔ غرض مفاسد جہیز کا دائرہ دنیا و آخرت دونوں کو محیط ہے یعنی حریصان جہیز کی اس فانی ز ندگی میں بھی خیر نہیں کہ علماء کرام وعیدیں سنا سنا کر ناک میں دم کردیتے ہیں اور آخرت میں ان معنوں میں خیر نہیں کہ خداکے حکم کی جان بوجھ کر نافرمانی کی ہے اور دانستہ طور پر حرام کا ارتکاب کیا ہے۔
میں نے جیسا کہ مفاسد جہیز کا پچھلی سطروں میں جائز ہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ جہیز کے نقصانات کے دوپہلو ہیں ۔ لڑکی والے بھی اس کے شکار ہیں اور لڑکے والے بھی کہیں نہ کہیں اس کے شکار ہوتے ہیں۔یہاں اس کی ایک اور قسم پیش کرنا مقصود ہے ۔چنانچہ بعض لڑکیاں دولت مند والدین سے بنا کسی مطالبہ کے بطور جہیز اتنی کثیر مقدار میں نقدیات و زیورات حاصل کر کے لے رہی ہیں کہ چند دنوں کے بعد ہی شوہروں کی قائدانہ گرفت سے باہر نکل جارہی ہیں ۔ حالانکہ کہ یہ جر م لڑکے اور لڑکے کے والدین نے نہیں کیا ہے بلکہ لڑکی کے مجرم والدین نے رسم جہیز کو فروغ دینے اور اپنی دولت کی غلط تشہیر اور رسواکن شہرت کی کی خاطر یہ فخریہ اور جائز کام صرف غلط نوعیت کے ساتھ کیا ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں خود کو بیوی بن کر نہیں شوہر بن کر سسرالی زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔اس ضمن میں میرے ایک خیر خواہ اور مربی جناب حضرت مولانا محمد ظفرالحق قاسمی ؔمہتمم ناظم ’’جامعہ اشرف البنات سیتامڑھی ‘‘نے بڑے متاسفانہ لہجہ میں عرو س ا لبلادشہر ممبی میں اتری ہند سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی ازدواجی زندگی کا آنکھوںدیکھا حا ل بیان کیا کہ سسر کی جا نب سے بغیر کسی مطالبہ کے انہیں تحفۃً ایک عمارت رہائش کے لئے دی گئی ہے جس پر ابھی تک صرف دو تین سال کی مختصر ترین مدت گزری ہے مگر اس کے شوہر کا بیان ہے کہ رہائش گاہ کے ملنے کے صرف چند ہی دنوں بعد بیوی صاحبہ نے بارہا انہیں باتوں باتوں میں بغیر کسی بڑی وجہ کہک گر ج کر یوں بولنا شروع کردیا کہ میاں! اپنی شوہریت جیب میں رکھو۔ میں اپنے باپ کے دئے ہوئے گھرمیں رہتی ہوں، تمہاری مردانگی کے مظاہرے اورشوہریت کے جلوئوںمیں نہیں ۔ کتنی شرمندگی کا موجب ہے یہ جملہ ؟۔کیسی گزرتی ہوگی اس کم نصیب شوہر پرجب گوش گزارکرتاہوگا یہ طعن آمیزکلمہ ؟۔ نہ جانے ایسے کتنے ماں کے جگر پا رے ہیں جن کی زندگیا ں جہیز کے باعث اجیرن بن چکی ہیں ۔قارئین !تحفہ میں ملی اس عمارت پر متوسط طبقہ سے آئی معمولی حسن و خوبصورتی کی مالکن لڑکی جب اتنا فخریہ انداز اختیارکرسکتی ہے اور جس شو ہر کے طفیل وہ سہاگن کہلاتی پھرتی اور زیب و زینت کا جواز رکھتی ہے ،اسی پر اتنا گہرا طنز کرسکتی ہے تو ہوشیار اور واقعی خو بصورت عورت جہیز کے مطالبے پر مرد کی کیا درگت بنا تی ہوگی ؟تصور سے باہر ہے خدا اس بلا سے ہمیں دور رکھے اورایسی حسینائوں سے بہر حا ل محفوظ رکھے !۔
رابطہ :صدر سفینہ ایجوکیشنل اینڈ چاریٹیبل ٹرسٹ
(بقیہ اگلے گوشہ خواتین میں ملاحطہ فرمائیں)