ماںموجودہ زمانہ کے سماج میں جہاں اور بے شمار خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں، وہاں دولت اورجائیداد کی حد سے زیادہ حرص و لالچ اور پیسے کی پرستش جیسی مہلک بیماری سر فہرست ہے ۔ آنحضورانے فرمایاہے :دنیا ( کے مال ومنال ) کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔
حد اعتدال سے ماوراء یہ محبت ہر بدنما غلطی کی جڑ ہے ۔ جہیز کی بے پناہ پنپنے والی بدعت یعنی پیسے کے بل بوتے پرداماد کوخریدنے اور اپنی بیٹی کے ساتھ سسرال والوں کو مال وجائیداد کی رشوت دے کر انہیں بہو پر مہربان ہونے کی اُمید ایک نفسیاتی بیماری ہے اور یہ لعنت پیسہ پرستی سے ہی پیدا ہوتی ہے ۔آج ہم جس انسانی سماج میں زندگی بسر کررہے ہیں ،وہ نفسانی ہوا وہوس اور پیسہ پرستی کے نتیجہ میں جنگل کے خونخوار درندوں کی عادات وخصائل اختیار کرکے ایک بے عقل اور نہایت بے رحم نسل بنتا جا رہا ہے ، انصاف اور شرافت انسانی کا جنازہ گھرگھر سے نکلتا جا رہا ہے۔
ہر درد مند دل کو رونا میرا رُلادے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید اُنہیں جگادے
اس وقت پورا اورسماج جہیزی عذاب سے دوچار ہے۔جہیزی لین دین کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ ان پر لکھنے کیلئے دفتروں کے دفتر بھی نا کافی ہیں ۔اب تو حالات ایسے خوف ناک رُخ اختیار کرتے جارہے ہیں کہ جہیز کے مطالبوں سے تنگ آکر غریب ماں باپ کی قابل بیٹیاں اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر زہر کھا کر خود کشی کرنے یا اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر مر جانے یا اپنے آپ کو آگ میں جلا ڈالنے پر بحالت مجبوری آمادہ ہور ہی ہیں ۔ آج کل جب تک جہیز کے نام سے ایک لڑکی اپنے ساتھ دولت کا انبار لے کر سسرال نہ آئے کوئی بھی اس کا کوئی طلب گار نہیں بنتا۔ اس لئے نوجوان لڑکیوں کی زند گیاں خطرے میں ہیں اور ان کے والدین اپنی زندگی کا سب کچھ داؤ پر لگا نے اور سسرالیوں کی ساری الٹی سیدھی مانگیں پوری کرنے کے باوجود ان کی زندگیاں عذاب میں گزر رہی ہیں۔ مروجہ جہیز کی لعنت معاشرے کاوہ جرثومہ ہے جو آہستہ آہستہ پورے سماج کی جڑوں کو متاثر کرتا چلا جارہا ہے۔بد قسمتی سے مسلم معاشرہ میں بھی پیسہ پرستی کے ساتھ فتنوں اور بدعات کا ایک طوفان اُمڈ تا چلا آرہا ہے اور ان بدعات میں سے جہیز کی بدعت بھی شامل ہے جو لگ بھگ تمام لوگوں کے دل میں گھر کر گئی ہے۔نتیجہ ظاہرہے کہ جو لوگ غریب ہیں ان کیلئے اپنی جواں بیٹیاں ،چاہے وہ تعلیم اورہنر کے بہترین زیور سے آراستہ بھی ہوں، ماں باپ کے لئے وُبال جان بن کررہ گئی ہیںاور جن کے پاس کچھ دولت بھی ہے،ان کے لئے بھی یہی بیٹیاں دین وایمان کے زوال اور بالآخر تباہی وبربادی کی عبرتناک مثال بنتی جارہی ہیں۔
غورسے دیکھیں تو جہیز کی وجہ سے آج دین اسلام کے اس دنیا میں ظہور سے پہلے اور حضرت محمداکے مبعوث ہو نے سے قبل اس زمانہ جا ہلیت کی یاد تازہ ہور ہی ہے ، جب ذلت اور رسوائی سے بچنے کے نام پر معصوم بچیوں کو ماں باپ کے ہاتھوں زندہ در گور کیا جا تا تھا۔بقول مولانا حالی مرحوم ؎
وہ کرتی تھی گوداپنی نفرت سے خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
یہ واقع ہے کہ آج کسی بچی کو پیدا ہو تے ہی قتل تو نہیں کرتے بلکہ اکثر ماں باپ بڑے شوق سے اپنی لخت جگر کو خون جگر پلا کر پا لتے ہیں اور عام طور پر اسے زیورِ تعلیم سے بھی آراستہ کرتے ہیں اور اگر نادار بھی ہوں تو بھی کم از کم اپنی بیٹی کو کوئی نہ کوئی ہنر ہی سکھا دیتے ہیں لیکن جب وہ شادی کے لائق ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جہیز کے نام سے وہ سلوک ہوتا ہے جو قتل سے بد تر ہے۔محض پیسہ پرستی اور دولت کی پوجا کی خاطر پیسے ٹکے کے لالچی دولہا اوردنیا پرست سسرال کو سونپ کر اس بیچاری کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے اور اب سسرال میں وہ اس لئے خود کشی کرنے پر مجبور کردی جاتی یا بعض اوقات قتل کردی جاتی ہے کہ اس نے جہیز میں ماں باپ کے گھر سے فلاں فلاں چیز کیوں نہیں لائی اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی ہے کہ اس والد ین نے اس کی تعلیم وتربیت پر کتنی کثیر رقم خرچ کی ہے۔آئے دن اخبارات میںیہ خبریں چھپتی رہتی ہیںکہ ساس، سسر،نند اور خاوند سب نے مل کر منہ مانگا جہیز اور تحفے تحائف نہ لانے پر بیچاری نئی نویلی دلہن کو نذر آتش کردیا۔
شادی کی نسبت کے وقت لڑکے والوں کی طرف سے ہونے و الا مطالبہ یا لڑکی والوں کی طرف سے پیش کش اور وعدہ اور مروجہ جہیز کا لین دین یہ اس سماجی برائی اور معاشرہ کی خرابی ہے کہ اس پر پابندی عائد کرنے کیلئے ہندوستان کی مختلف ریاستوںبہار،اڑیسہ،مغربی بنگال، ہریانہ ،پنجاب،ہماچل پردیش وغیرہ میں قانون سازیاں ہوئیں ، مرکزی حکومت نے بھی ایک مضبوط اور جامع جہیز مخالف قانون بنا نے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے باوجود یہ سماجی برائی کم نہیں ہورہی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر میں غالباً ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی بدترین برائیاں محض قانون بنالینے سے ختم نہیں ہو سکتیں جب تک کہ سماج کا مزاج نہ بدل جائے ، جہیز مخالف قانون پر عمل کرنے میں سختی سے کام نہ لیا جائے اور قانون پر عمل درآمد کرانے والے دیا نتدار اور مخلص نہ ہوں۔
ہمارے نزدیک مسلمانوں سے جہیزکی لین دین کی لعنت ہو یا اس کے علاوہ اور کوئی دوسری غیر رسم اس کو دور کرنے اور اٹھا نے کیلئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ علماء،اورمذہبی قیادت اپنے وعظ وتقاریر اورخطبات جمعہ وعیدیں میں اس بری رسم کی مخالفت کے ساتھ ساتھ خود اپنے گھروں اور خاندانوں سے جہیزی تجارت ختم کر نے میں پہل کریں اور ساتھ ہی ہر برادری کے سربرآوردہ اور بااثر لوگ اپنے گھروں میںسے ان رسموں کو ختم کرنے کی ہمت کریں، ان کی دیکھا دیکھی میںانشاء اﷲ عوام بھی ایسا ہی کریں گے، اس لئے کہ چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کے تابع ہوتے ہیں اور عوام فضول رسموں کو ترک کرنے میں ان کی اتباع کریںتو پھر علماء اورخاص کر شادی بیاہ کی ایسی تقاریب میں جہاں غیر شرعی رسمیں اداکی جائیں، قطعی شریک نہ ہوں۔ ان رسموں کے انسداد کا ایک اور ممکن طریقہ یہ بھی ہے کہ علماء ومصلحین کچھ اصلاح پسند نوجوانوں کی ذہنی تربیت کریں اور ان کو ساتھ لے کر عوام پر ہر ممکن فہمائش کر کے پیدایش سے لے کر شادی تک کی تقاریب میں مروج غلط رسموں کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں اور ان رسموںکی کھیتہی لہلانے کے لئے ہر کوئی چوردروازہ ن بند کریں۔
شیطانی وسوسے:۔
مسلم سماج میں شیطان نے بدعات داعیوں کے کان میں یہیں منتر پھونکاہے کہ وہ لوگوں میں بہت سی برائیاں مذہب کی آڑلے کر پھیلا ئیں۔چنانچہ بہت سے گمراہ لوگ جہیز کو بھی کو ئی اسلامی چیز بادر کرواکے اس بدعت کو فروغ دیتے ہیں۔حالانکہ کتب احادیث اور کتب فقہ میں ابواب نکاح میں مہروکفاف (نفتہ) وغیرہ حقوق کی تفصیلات تو ہیں مگر آپ کو’’باب الجہیز‘‘کے نام سے کوئی باب نہیں ملے گااور ملے بھی کیسے جب کہ جہیز نہ مہر اور نان نفقہ کی طرح فرض ہے اور نہ دیگر امور مثلا ًولیمہ وغیرہ کی طرح یہ سنت ہے ۔ اسلام میں نکاح کے انعقاد کی شرط مہر ہے نہ کہ جہیز ۔اس سے ظاہر ہے کہ جہیز کا دین کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں ہے،خاص کر جہیز کی موجودہ شکل وصورت جو اپنی تفصیلات اور نتائج کے لحاظ سے ریاکاری اور دیگر کفر یہ امور کا مجموعہ ہے۔ خدا رابتا ئیے! کہ ان چیزوں کا دین انسانیت اسلام کے سا تھ کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
مردطالب عورت مطلوب:۔
یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نظام فطرت کے مطابق مرد طالب اور عورت مطلوب ہوتی ہے۔ لہٰذاعورت کے حصول کے لئے مرد ہی کو مال جدو جہد اور قربانی دینی پڑے گی ،عورت سے کسی بھی قسم کا مطالبہ نظام فطرت کے خلاف ہے اور یہ الٹی گنگا بہا نے کے مترادف ہے۔ اس قسم کے مطالبات شرعانا جائز ہیں۔قرآن مجید میں جہاں پر ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھانے کا بیان آیا ہے۔اس میں یہ شق بھی شامل ہوسکتی ہے۔
ترجمہ:۔اے ایمان والو !آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق مت کھاؤ ۔(نسا ء ۲۹)
عورت خلاق علم کا حسین ترین تخلیقی شاہکار اور انسان کیلئے خدائے رحمٰن کا سب سے بڑا قیمتی تحفہ ہے جو انس و محبت کے لئے پیدا کی گئی ہے نہ کہ نفرت وحقارت کے لئے ۔اس لحاظ سے لڑکیاں اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت وفلاقیت کی نشانی ہیں ۔ لہٰذا انہیں کسی بھی اعتبار سے منحوس یا قابل نفرت سمجھنا یا ان کی طرف حقارت کی نظر سے دیکھنا خدائے رحمٰن کی ربو بیت وخلاقیت کی توہین ہے اور ایسے لوگ بہت جلدی یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ خودان کاا پنا وجود بھی ایک مردایک عورت کا مرہون منت رہاہے۔دنیا کے اس مظلوم ترین طبقے یعنی خواتین کے ساتھ جوبے انصافیاں ہوتی ہیں ان کے ازالے کیلئے پیغمبر اسلام ا نے لڑکیوں کی تعلیم وتر بیت اور ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے پر بہت زیادہ زوردیا ہے اور ایسے شخص کو جنت کی بشارت دی ہے جو اپنی لڑکیوں کی اچھی تربیت کرکے ان کیلئے اچھا رشتہ تلاش کرتا ہو۔اس اعتبار سے لڑکیاں خدا کی ایک مقدس امانت ہیں۔لہٰذا ان کی قدر کرتے ہوئے انہیں ان کا صحیح مقام دینا چاہیے۔
احادیث:۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ا کی زبان مبارک سے یہ ارشاد اپنے کانوں سے سنا کہ جو شخص تم میں سے کوئی برائی خلاف شروع امردیکھے ،وہ اس کو اپنے ہاتھ کی مدد سے بدل دے اور ٹھیک کرے اگر حالات نا موافق ہوں اور ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہ ہوتو اپنی زبان سے کام لے اور منع کرلے پھر اگر زبان سے منع کرنے کی بھی گنجائش نہ پائے تو دل میں اس کام سے نفرت کرے اور اس کو برا جانے لیکن حق گوئی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے راستے میں اس درجہ تک پہنچ جانا ایمان کا کمتروترین درجہ ہے ۔ (مشکوٰۃ، مسلم)
روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اے لو گوتم یہ آیت پڑھتے ہو کہ اے ایمان والو!تم اپنے نفس کی نگرانی رکھو جب تک تم ہدایت پر رہو گے تو گمراہی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔(مائدہ ۱۰۵)
حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ حالانکہ رسول اﷲ اسے میں نے سنا کہ آپ ا فرماتے تھے کہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا ہوا پائیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑ یں اور اس کو ظلم کرنے سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ عذاب خداوندی ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے یعنی عذاب الہٰی ظالم کو اور اس کے ظلم کا تماشادکھنے والے ورمداہنت کرنے والوں سب لوگوں کو گھیرے گا۔
جہیز وجۂ مذلت ہے طوق لعنت ہے:۔
آنحضرت اکی حدیث :وہ نکاح زیادہ بابرکت ہے جس میں اخراجات کم ہوں۔
9469679449
جہیز ہم نے نہیں تجھ کو کچھ دیا ہیں
نہیںہے عار،یہ تیرے لئے نہ کچھ ہیں
جہیزفرق نہ واجب نہ کوئی سنت ہے
جہیزنام پر سنت کے رسم بدعت ہے
کہیں جہیزکا ہے تذ کرہ بتائیں تو
نقاب چہرہ تاریخ سے اٹھا ئیں تو
جہیزکیا دیا ورقعہؓ نے بی بی خدیجہؓ کو؟
جہیزکیا دیا ابو بکرؓ نے حمیرا ؓکو؟
عمرؓ نے کیا دیا سامان بی بی حفعہؓ کو؟
جہیزکیاملا میمونہؓ کو صفیہؓ کو؟
نکاح بنت حجش کا تو آسمان پہ ہوا
جناب حق نے بھلاکیا انہیں جہیز دیا؟
جہیز حضرت زینب ؓنے کتنا پیایاتھا؟
کس حدیث سے کوئی تو کچھ پتہ دینا
جہیز بی بی رقعہ ؓ کا کوئی بلائے ؟
جہیز مادر کلثومؓ کیا تھا؟ فرمائے؟
جہیز فاطمہؓلوگوں نے کردیا مشہور
بنات چار تھیں سے تین کا کہاں مذکور؟
جہیز جب نہیں ثابت کتاب وسنت سے
تو کام کیا ہے ہمیںآخرایسا بدعت سے؟
جہیزایک مصیبت ہے بلکہ آفت ہی
جہیزوجہ مذلت ہے طوق لعنت ہے؟
جہیز بند کریں آسان کہ ہے یہ قول رسول ا
امیر لوگ غریبوں کے ساتھ تو ہو لیں
نکاح کو کریں آسان کہ ہے یہ قول رسول ا
نکاح وہ ہے مبارک ہو سہل جس کا حصول
خدا کے واسطے ملت کے درد منداٹھیں
خلاف رسم جہیز آج کچھ جہاد کریں
جہیزبار گراں بن گیا ہے ملت پر
پری ہیں بیٹیاں پاؤں کی بریاں ہنکر