بسما یوسف، عاقب الاحد وانی
بلا شبہ اب ہمارا مسلم موجودہ معاشرہ مادیت پرستی کے زیر اثر آچکا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک تباہ کن تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ہمارے طرزِ فکر نے جہیز نامی عفریت کو جنم دیا ہے جس نے مقدس نکاح اور شادی بیاہ کے تمام پاکیزہ معاملات کو ہر طرف سے گھیرلیا ہے۔سالانہ لاتعداد خواتین خودکشی کے اقدام کے تحت مر جاتی ہیں یا اپنے شوہروں اور سسرال والوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں۔ گویا جہیز ایک ایسی لاعلاج بیماری بن چکی ہے ،جس نے ناسور کی صورت اختیار کرلی ہیاورجو سماج میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ اس ناسور نے لاکھوں بہن و بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا۔اْن کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے حسین اور رنگین خواب چھین لئے ہیں، اْن کی تمنائوں اورآرزوئوں کا گلا گھونٹ دیا ہے اورانہیں نااْمیدی و مایوسی کے اْن اندھیریوں میں دھکیل دیا ہے، جہاں اْجالے کی کرنیں دْور دْور تک نظر نہیں آتی ہیںاور زندگی کاسفرانتہائی کٹھن بن چکاہے۔
کچھ رپورٹس کے مطابق ہندوستان میں روزانہ بیس شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں یا سسرال والوں کی طرف سے مناسب جہیز نہ لانے کی وجہ سے ہراساں کئے جانے کے نتیجے میں مر جاتی ہیں۔ اوریہ سلسلہ صرف دیہی برادریوں تک محدود نہیںرہا ہے۔
بھارت کی راجدھانی نئی دہلی اور بنگلور جیسے بڑے شہروں میں بھی متوسط و اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی ایسے خوفناک واقعات رونما ہورہے ہیں۔ کریلامیں بھی گھریلو تشدد اور جہیز کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں شرح خواندگی بھی زیادہ ہے۔ ہندوستان میں جہیز کی بدعت سے نہ صرف اَن پڑھ خواتین متاثرہورہی ہیںبلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ دلہنیں بھی جہیز کا مطالبہ پورا نہ کرنے پر خودکشی کے لئے مجبور ہو جاتی ہیں۔ عورت کی تعلیمی ڈگریاں یا نیک سیرتی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی جبکہ اْن کے سسرالیوں میں جہیز کے طور پر لائے جانے والے سونا، نقدی، گاڑی اور دیگر آلات کی ہی قدروقیمت ہوتی ہے۔
دہلی کی ایک 27 سالہ پی ایچ ڈی کی طالبہ کواس لئے خودکشی کرنا پڑی کیونکہ اس کے سسرال والوں کو اس کی تعلیم حاصل کرنے پر اعتراض تھا۔ انیسا بترا، دہلی کی ایک فلائٹ اٹینڈنٹ کے والدین کے مطابق جہیز کے لیے ذہنی اذیت کے بعد اْس نے چھت سے چھلانگ لگا دی تھی۔ شوہروں اور اس کے خاندان والوں کی طرف سے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کے باعث خواتین خودکشی کر لیتی ہیں۔پچھلے سال کیرالہ میں، ایک نوجوان خاتون کو سسرال والوں نے دو لاکھ کے جہیز کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر بھوکا مار دیا تھا۔
وادی کشمیر جو کبھی خواتین کے خلاف تشدد سے صاف و پاک سمجھی جاتی تھی، کی صورت ِ حال بالکل بدل گئی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر اور لداخ میں 2020 میں تعزیرات ہند (IPC) یا خصوصی اور مقامی قوانین (SLL) کے تحت 29,314 (بشمول لداخ میں 403 واقعات) فوجداری مقدمات درج ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں جہیز کی وجہ سے نو اموات ہوئیں، خواتین کے ساتھ ان کے شوہروں یا رشتہ داروں کی جانب سے ظلم کے 349 واقعات، خواتین پر تشدد کے 1,639 واقعات، اور خواتین پر ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی نیت سے حملوں کے 1,744 واقعات رونما ہوئے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق، 2020 میں قتل کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا، 2019 میں 119 کے مقابلے میں 149 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2020 میں قتل کی کوشش کے 487 واقعات، خودکشی کے لیے اْکسانے کے 59 واقعات ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں خودکشی کی 472 کوششیں بھی ہوئیں۔ پچھلے تین سالوں کے دوران، یونین ٹیریٹری میں اغوا اور اغوا کے واقعات کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ آج کل شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جس میں جہیز کی وجہ سے موت کی خبر بریکنگ نیوز میں شائع نہ ہو۔ سسرالیوں کیضرورت سے زیادہ توقعات بھی خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کا باعث بن رہی ہیں۔گویا کشمیر جہیز سے منسلک موت سے معاملات سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جموں و کشمیر میں شرح خواندگی میں حالیہ برسوں میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، جہیز کی وجہ سے ہونے والی اموات وادی کشمیر کو شرمندہ کر رہی ہیں۔
ہندوستان میں “جہیز کے لئے قتل” پر پابندی اور اس میں ملوث لوگوں کوسزا دینے کے لئے متعدد قوانین موجود ہیں لیکن مبہم قانون سازی ، ناقص نفاذ، ثقافتی رویوں اور خواتین کے خلاف معاشی امتیاز کی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کافی کوششوں کے باوجود بھی، ہندوستان میں قانونی ضابطے جہیز سے متعلق ہونے والی اموات کو کم کرنے میں غیر موثر ثابت ہو رہے ہیں۔
وادی کشمیر کے ایک دور دراز گائوں ، جو وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع میں واقع ہے، میں جہیز کے نظام کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔جو ہمیں ایک بہتر سبق فراہم کر سکتا ہے کہ اس جہیز کے مسئلے کو کیسے ختم کیا جائے۔بابا وائل گاندربل ایک مثالی گائوں بن گیا ہے جہاں لوگوں نے جہیز اور مہنگی شادیوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیاہے۔
سب سے بڑی تبدیلی بعض اوقات سب سے چھوٹی جگہوں میں واقع ہو سکتی ہے۔ خواتین کی حفاظت کے لئے وسطی کشمیر کے گاندربل علاقے میں ایک چھوٹی سی کمیونٹی نے جہیز اور مہنگی شادیوں پر پابندی لگادی ہے۔یہاں کے عوام نے چار دہائیاں قبل یہ فیصلہ کیا تھا اور آج تک اس پر عمل پیرا ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ گائوں کے رہنمائوں نے 2004 میں جہیز نہ لینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، تقریباً 100 خاندانوں نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ 2018 میں اسی معاہدے میں ترمیم کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ دولہا کے خاندان کو دلہن کے خاندان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بابا وائل میں تمام دیہاتیوں کے اسٹامپ پیپر پر دستخط کرنے کے بعد جہیز کا نظام باقاعدہ طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ بابا وائل کے رہائشیوں کے دستخط کردہ اعلامیہ کے مطابق، کسی کو بھی دلہن کے خاندان سے ٹیلی ویژن، زیورات، فریج، کپڑے یا دیگر اشیاء مانگنے کا حق نہیں ہے۔ دولہا یا دلہن کو اسراف تحائف پیش کرنے کا کوئی رواج نہیں ، چاہے خاندان کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو۔ ہر ایک امیر ہو یا غریب، ایک ہی معیار پر قائم رہتے ہیں۔ جو کوئی پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، اْسے گائوں کی مسجد میں اجتماعی نماز میں شرکت سے منع کیا جاتا ہے اور اسے اجتماعی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جہیز میں ملوث ہونے والوں کے خلاف مکمل سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔گویا مقامی لوگ اسے ایک گھناونا جرم سمجھتے ہیں۔ گائوں والوں کے دستخط شدہ معاہدے کے مطابق، دولہا کے خاندان کو دلہن کے خاندان کو 50,000 روپے فراہم کرنے ہوں گے، جس میں 20,000 مہر، 20,000 شادی کے لباس کے لئے اور 10,000 اضافی اخراجات شامل ہیں۔ جہیز کے معاملات میں اضافے اور اس کے نتیجے میں آنے والی مشکلات کو دیکھنے کے بعد، بابا وائل نے اپنی بیٹیوں کے تحفظ کے لئے اس اجتماعی فیصلے کا نفاذ کیا ہے۔ کمیونٹی نے ایک مثال قائم کی ہے جس کی پیروی دوسروں کو کرنی چاہیے تاکہ اس معاشرتی برائی کو ختم کیا جا سکے جو سماجی تانے بانے کو تباہ کر رہی ہے اور دیگر برائیوں کی جنم دے رہی ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ جب سے جہیز مخالف ضابطہ نافذ ہوا ہے، گائوں میں گھریلو تشدد، خودکشی، یا سسرال میں جھگڑے کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا ہے۔
جہیز کی شکایات کو پْر کرنے کا طریقہ کار
یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ آزادی کے 70 سال گزر جانے کے بعد بھی ہندوستان کے کئی خطوں میں جہیز کے نام پر قتل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ وادی کشمیر میںجو پیر واری (صوفی سنتوں کی سرزمین) کے نام سے مشہور تھی، میں بھی ایسے گھناونے واقعات ہورہے ہیں۔ وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے،جس میں خواتین کو عزت اور تحفظ فراہم نہ ہو۔ آج بھی ہمارے ملک میں بہت سی خواتین اس بات سے لاعلم ہیں کہ 1961 کے جہیز پر پابندی کے قانون کے تحت جہیز غیر قانونی ہے۔ 1961 کا جہیز ممانعت ایکٹ کسی کے لئے بھی جہیز قبول کرنا غیر قانونی بناتا ہے۔خواتین کے تھانے بھی خواتین کے لیے شکایات کے لئے کھل گئے ہیں۔1992 میں، تمل ناڈو حکومت نے پہلا خواتین پولیس اسٹیشن قائم کیا تھا۔ تھانوں میں خواتین کا ایک مخصوص سیل ہوتا ہے جہاں خواتین اپنی شکایات پہنچا سکتی ہیں۔
(مصنفین سنٹرل یونیورسٹی آف پنجاب میں ریسرچ سکالر ہیںاورقانون کی پیروی کر رہے ہیں)
[email protected]
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)