رانی اپنے کمرے کی کھڑکی کھولے بارش کا نظارہ کر رہی تھی۔وہ انیس سال کی ایک ذہین لڑکی ہے۔ اس کی مثال گاؤںکی ہر عورت اپنی بیٹی کودیتی ہے۔ کسے پتا تھا کہ بظاہر خوش آنے والی یہ لڑکی اندر سے بکھرے اور مرجھائے ہوئے پھول کی طرح ہے۔کھڑکی کے پاس اس کی نظر ایک چھو ٹی سی لڑکی پر پڑی ہے، جو اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے ہوئے بارش کا مزہ لے رہی تھی۔یہ سب دیکھ کر رانی ماضی کی دریچوں میں کہیں کھو سی گئی۔
بابا مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے۔ نعیمہ یہ نہیںبولتے۔۔۔ہم تمہیں جو دے نہیں پائے وہ سب تمہیں اُسی گھر میں ملے گا اور وہ بہت امیر بھی ہیں ۔تم وہاں خوش رہو گی بیٹااور ایک نہ ایک دن شادی تو ہونی ہی ہوتی ہے ۔
گھر والوں کی خوشی کے لیے میں نے ہاں کر دی اورفیض سے میری شادی سولہ سال کی عمر میں ہوئی ۔وہ مجھ سے آٹھ برس بڑے تھے۔وہ پہلے پہل بہت اچھے تھے اور میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے تھے لیکن ان کی ماں کا برتاؤ میرے ساتھ پہلے دن سے ہی ٹھیک نہیں رہا کیوں کہ میں جہیز نہیں لائی تھیں، جس کی وجہ سے مجھے ہمیشہ طعنے سننے پڑتے تھے۔اب تو مجھے اسکی عادت سی ہوگئی تھی ۔اور میں شکایت بھی کرتی بھی تو کس سے؟
اپنے غریب ماں بابا کو تو بھول بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ تو میرے اس رویئے سے مر ہی جاتے۔لیکن انتہا تب ہوئی جب میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ساسو ماں کے ساتھ ساتھ اب مجھے فیض بھی ستانے لگے۔میری غلطی یہ تھی کہ اک تو میں جہیز نہیں لائی تھی اور دوسرا میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا ،شاید غریب ہونا بھی بہت بڑا گناہ ہے ۔بہت بار چاہا کہ خود کشی کر لوں لیکن تمہارا ننھا ساچہرہ سامنے آجاتا تھا۔
آج تو میں مر ہی گئی جب فیض نے کہا کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔میں نے اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے میری اک نہ سنی اور صرف یہ کہتے رہے کہ وہ بہت سارا جہیز لائے گی۔ اب تم یہاں سے چلی جاؤ۔
میں جاتی بھی تو کہاں ؟اپنے ماں بابا کے پاس تو جا نہیں سکتی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اس عمر میں ان کو اپنے اس فیصلے پر شرمندہ ہونا پڑے، جو انہوں نے صرف اور صرف میری بھلائی کے لئے کیاتھا۔
خودکشی کے علاوہ میرے پاس اب کوئی چارا نہیں رہا۔ روز روز کے طعنے سن کرمیں اب تھک چکی ہوں۔ یہ امیر لوگ غریب لڑکیوں کو کبھی اپنی بیٹی نہیں سمجھتے بلکہ ایک نوکرانی کی طرح رکھتے ہیں۔مجھے معاف کر دینا بیٹا اور یہ ڈائیری ((Diary ہمیشہ اپنے پاس سنبھال کر رکھنا تمہاری ماں نعیمہ۔۔۔
ماضی کے دریچوں میں گُم جب رانی کو کسی نے آواز دی تو اس کی یادوں کا تسلسل ٹوٹا اور وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آگئی۔نانی کی دی ہوئی ڈائیری ((Diaryآج بھی وہ پڑھتی ہے ۔جس میں اس کی ماں آج بھی زندہ ہے۔
وہ ابھی بھی کھڑکی سے باہر کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔اس نے اپنی ماں کو دیکھا نہیں تھا لیکن اس کی ماں ڈائیری (Diary)میں ایسے قلمبند تھی کہ رانی کو ایسا لگتا ہے کہ اس کی ماں ہمیشہ اس کے ساتھ ہے۔وہ ہمیشہ اس ڈائیری(Diary) کو اپنے سرہانے رکھ کر سوتی ۔اس نے جلدی جلدی اپنے آنسو پونچھتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آواز دینے والی کوئی اور نہیں اس کی اپنی سوتیلی بہن تھی جو اُسے کھانے کے لیے بلانے آئی تھی۔اسے رانی کی یہ حالت دیکھ کر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ ایسا وہ اکژ دیکھتی تھی۔اس کو اپنی ماں کی یاد اب بھی اکثررلادیتی ہے اور وہ بیٹھے بیٹھے آنسوں بہانے لگتی ہے۔ایسے میں اس کا سہارا وہ ڈائیری (Diary)ہی ہے جس میں اس کی ماں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے۔
وہ اندر ہی اندر بہت زیادہ دکھی ہے ۔وہ اللہ سے دعا کرتی ہے کہ اے اللہ غریب ہونا کوئی گناہ تو نہیں لیکن جو لوگ آج بھی ایسی سوچ رکھتے ہیں ان کی ہدایت کر،دنیا میں جو نئے رسم ورواج لوگوں نے بنائے اُن کی وجہ سے بہت ساری غریب لڑکیاں بے نکاح پڑی ہوئی ہیں۔ان لوگوں پر اپنا قہر برسااور میری ماں کو جنت الفردوس عطا کر۔
���
محلہ توحید گنج بارہمولہ کشمیر