بلال فرقانی
سرینگر // دریائے جہلم کے کناروں تعمیر ہونے والا ریورفرنٹ پروجیکٹ دو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا ہے، حالانکہ حکومت نے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے ابتدائی ڈیڈ لائن اگست 2023 مقرر کی تھی۔ تاہم اب محکمہ آبپاشی و فلڈ کنٹرول کی تازہ رپورٹ میں اس کی نئی تکمیل کی تاریخ جولائی 2025 بتائی گئی ہے، یعنی یہ پروجیکٹ کم از کم دو سال تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ بار بار ڈیڈ لائن تبدیل ہونے اور زمینی سطح پر سست رفتار کام نے نہ صرف عوامی ناراضگی کو جنم دیا ہے بلکہ ’اسمارٹ سٹی‘ کے وعدوں پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے 2022 میں اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جہلم ریورفرنٹ سرینگر کو ایک نئی شہری شناخت دے گا اور سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دے گا، مگر دو سال بعد بھی یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ واقع اس پروجیکٹ میں تاخیر نے منصوبہ بندی، شفافیت اور عملدرآمد کے سرکاری دعوؤں پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر زیرو برج سے چھتہ بل ویر تک پھیلے اس ریورفرنٹ پروجیکٹ کو دو مراحل میں مکمل کیا جانا تھا۔ اس کا مقصد نہ صرف دریا کے اطراف کی تزئین و آرائش تھا بلکہ پیدل چلنے والوں کیلئے راستے، سائیکل ٹریک، سبز مقامات، بیٹھنے کی سہولیات، بہتر روشنی، شجرکاری اور جدید عوامی سہولیات فراہم کر کے شہر کو سیاحتی نقشے پر نئی شناخت دینا تھا۔ لیکن زمین پر جو منظرنامہ نظر آ رہا ہے، وہ ان وعدوں سے کہیں مختلف ہے۔محکمہ آبپاشی و فلڈ کنٹرول کے مطابق شہر سرینگر میں دریائے جہلم کے کناروں کی تجدید کا کام سرینگر سمارٹ سٹی نے اپنے ہاتھوں میں لیا ہے،جس کے تحت پہلے مرحلے میں زیرو برج سے امیراکدل تک کے حصے میں 5 کاموں میں سے 4 مکمل ہوئے ہیں جبکہ ایک کام 90 فیصد مکمل ہے۔ اس مرحلے پر کل 48.25 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی تھی اور 39.51 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں امیراکدل سے چھتہ بل تک کے حصے میں دو کام لیے گئے جن میں سے ایک مکمل اور دوسرا 95 فیصد مکمل بتایا گیا ہے۔ اس پر 21.02 کروڑ روپے کی لاگت منظور کی گئی تھی۔تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کئی مقامات پر راستے تاحال بند ہیں، ملبہ سڑکوں پر بکھرا ہوا ہے، روشنی کا نظام ناکارہ ہے اور وعدے کے مطابق سہولیات دستیاب نہیں۔ متاثرہ علاقوں میں دکاندار اور راہگیر مسلسل پریشان ہیں اور ترقیاتی کاموں کی سست روی پر شدید ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔شہری حلقوں کا الزام ہے کہ یہ منصوبہ بھی دیگر اسمارٹ سٹی پروجیکٹوں کی طرح ناقص منصوبہ بندی، تاخیر، ناقابلِ اعتماد ڈیڈ لائنز اور غیر شفافیت کا شکار ہے۔ کئی مقامات پر دریا کے کنارے بند ہیں، راستے ٹوٹے پھوٹے ہیں اور سیاحوں کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس منصوبے کوکروڑوں روپے خرچ کر کے بھی زمینی سطح پر مکمل نہ کرنا حکومتی دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے منصوبے کے آغاز پر کہا تھا کہ ’’جہلم ریورفرنٹ پروجیکٹ سیاحت کے شعبے میں نئے امکانات کھولے گا اور سرینگر شہر کو زیادہ متحرک اور دلکش بنائے گا۔‘‘ تاہم آج، دو سال بعد، یہ خواب ادھورا اور وعدہ تشنہ تعبیر دکھائی دیتا ہے۔کشمیر اکنامک الائنس کا کہنا ہے۔ شہری حلقے اب ایک غیر جانبدار عوامی آڈٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ تاخیر کی اصل وجوہات کیا ہیں اور کروڑوں روپے کہاں خرچ ہوئے۔کاروباری اتحاد کشمیر اکنامک الائنس نے کہا کہ جہاں ایک طرف سرکاری دستاویزات میں کام کو 90 سے 95 فیصد مکمل بتایا جا رہا ہے، وہیں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔کشمیر اکنامک الائنس کے شریک چیئرمین، فاروق احمد ڈار نے کہا’’ ریورفرنٹ پروجیکٹ کی دو سالہ تاخیر نہ صرف ایک ترقیاتی ناکامی ہے بلکہ سرینگر کے مرکزی کاروباری حلقوں کیلئے مسلسل اقتصادی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ ‘‘ انہوں نے مید کہا’’ ہم نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ ایسے پروجیکٹوں میں زمینی کاروباری اثرات کو مدنظر رکھا جائے، مگر بدقسمتی سے اسمارٹ سٹی کے منصوبے کاغذی ترقی سے آگے نہیں بڑھ پائے۔‘‘ ڈار نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پروجیکٹ کی تاخیر پر عوامی سطح کا آڈٹ کرائے تاکہ ذمہ داری طے ہو اور تاجر برادری کا اعتماد بحال ہو۔‘‘ انہوں نے کہا’’ اگر بروقت اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ منصوبہ بھی اْن ادھورے خوابوں میں شامل ہو جائے گا جنہیں ’’ترقی‘‘ کے نام پر بیچا گیا مگر عوام کو کچھ نہیں ملا۔‘‘