2014ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد حکومت جموں و کشمیر نے دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے بڑے ندی نالوں کی کھدائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ ا س کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 2015ء میں مرکز نے فنڈس واگذار کئے اورکافی زور وشور کے ساتھ کام بھی شروع کیا گیا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ تین سال گذرنے کے بعد بھی یہ کام نا مکمل ہے ۔ان تین برسوں میںاگرچہ چند جگہوں پرکھدائی کا کام پورا کرلیا گیا ہے تاہم بدقسمتی سے بیشتر جگہیں ایسی ہیں جو اس حوالے سے مکمل طور پر عدم دلچسپی کی شکار ہیں،جہاں پر ابھی تک متعلقہ حکام نے ہاتھ تک نہیں لگایا گیا ہے ۔اس سے یہ شبہ تقویت پکڑ رہا ہے کہ کھدائی کا کام کھٹائی میں ڈال دیا گیا ہے ،خاص طور سنگھم پُل سے بجبہاڑہ تک دریائے جہلم کاسارا مشرقی کنارہ مکمل طور پس پشت ڈالا گیا ہے ۔حالانکہ اس کنارے پر بیشتر آبادی رہائش پذیر ہے جو پچھلے تین برسوں سے جہلم اور اس سے منسلک چھوٹی بڑی ندی نالوں کے کھدائی کی منتظر ہے۔ متعلقہ محکمہ کی اس غفلت شعاری کے کارن اب دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ کئی جگہوں پر بعض خود غرض عناصر نے بلڈوزر لگاکر مٹی نکالنے اوراسے فروخت کرنے کا دھندا شروع کردیا ہے ۔اس سے دریائے جہلم کے بنڈ کو کافی حد تک خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔دوسری بد قسمتی یہ ہے کہ دریا کے کنارے مختلف جگہوں پر خود رو بھنگ اس قدر اُگ آئی ہے جس نے ایک جنگل کی شکل اختیار کرلی ہے ۔اگرچہ حکومت لاکھوں ایکڑ زمین پر خود کاشت بھنگ تباہ کرنے کا دعویٰ کرتی رہتی ہے مگردریائے جہلم کے اس مشرقی کنارے پر اُگ آئی اس خود رو بھنگ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔منشیات کا کاروبار کرنے والے لوگ نہ صرف رات کی تاریکی میںبلکہ بعض اوقات دن کے اُجالے میں بھی اس بھنگ کو کاٹ کر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور اس سے چرس حاصل کرکے فروخت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مقامی بستیوں کی نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے ۔لہٰذا اگر اس جگہ کی کھدائی عمل میں لائی جاتی ہے تو جہاں سیلاب کا روک تھام ہوگاوہیںیہ خودرو بھنگ بھی تباہ ہوگی ،اور دونوںصورتوں میں عوام کی بھلائی کا کام ہوگا ۔