بلاشبہ خوش قسمت ہیں وہ انسان جنہیں نفسِ مطمئنہ نصیب ہو جائے، جو ہر حال میں شاکر و صابر رہتے ہوئے اپنے آپ کو ہر طرح کے گناہوں اور دنیا پرستی کی کثافتوں اور غلاظتوں سے بچے ہوں۔ نفسِ لوامہ کی بدولت انسان اپنی غلطی اور گناہوں کا ادراک ہو جانے پر اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے شرمندگی سے دوچار پاتا ہے اور پھر خوش قسمت ہے وہ انسان جو اپنے کئے پر نادم وشرمسار ہو کر اپنے رب سے معافی کا طلب گار بن جائے۔بر خلاف اس کے نفسِ امارہ کا شکار اچھا خاصا انسان اپنی ’’انا‘‘ کی بٹھی میں جل کر نہ صرف دوسروں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی جھلسا تا رہتا ہے کیونکہ نفسِ امارہ کا مارا ہر انسان سرکش مزاج اور بدخو ومتکبر واقع ہوتا ہے ۔اس وجہ سے اس کا ضمیر بھی دھیرے دھیرے مردہ و بے حس ہو جاتاہے ۔’’پدرم سُلطان بود‘‘ کا محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا ،اس پر صدقِ دل سے عمل کرتے ہوئے لوگوں کو ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے منہ میاں مٹھوبن کر یا تو اپنی بڑائی جتانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اپنے احساس کمتری کو دور کرنے کی سعیٔ لا حاصل ان باتوں کا تعلق کہیں نہ کہیں انسانی انا پرستی سے جڑا ہوتا ہے اور انسان جب نفس پرستی پر آتا ہے تو معاشرے میں اپنے مقام کو بلند وبالا ثابت کرنے اور اپنے آپ کو ’’ ہم بھی کچھ ہیں‘‘ ثابت کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتا۔ نفس امارہ انسان کوہردم اپنے آپ کو منوانے کیلئے اُکسا تا رہتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ ایک طرح کی نفسیاتی بیماری ہے جو انسان کو عجیب و غریب حرکتیں کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم حقیقت پسندی اور انصاف سے کام لیں تو ہمارے ۹۰؍ فیصد سے زیادہ مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے بلکہ پیدا ہی نہ ہوں۔ برادری یا خاندانی، سماجی یا معاشرتی، سیاسی یا تجارتی ،غرض آپس کے ہر طرح کے جھگڑوں اور اُلجھنوںکی جڑ ’’ ہم بھی کچھ ہیں‘‘ یا پھر ہم کسی سے کم نہیں یا پھر ہم سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی ،والی بات ہی ہوتی ہے جو بعد میں خود غرضی کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ اپنی انا پرستی کی تسکین کی خاطر انسان ہر طرح کی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتا ہے اور طرح طرح سے مکرو فریب، جھوٹ و بہتان سے کام لیتے ہوئے دوسروں کی عزت نفس سے بھی کھیلنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اگر غور کیا جائے تو یہ کتنی عجیب بات لگتی ہے کہ انسان اپنی ساٹھ ستر سالہ زندگی میں ہر دن لوگوں کو مرتے اور اس دار فانی سے خالی ہاتھ کوچ کرتے اور مٹی کے نیچے دفن ہوتے یا پھر آگ کی لپیٹوں کی نذر ہوکر فنا ہوتے دیکھتا ہے۔
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جہاں ایک انسان کی پیدائش کا وقت یا اس کی پیدائش یقینی نہیں ہوتی ،و ہیں پیدا ہونے کے بعد موت ہر حال میں یقینی ہے جو ایک کڑوی حقیقت ہے پھر بھی اس کا انکار کرتا ہے۔
ایک نادان انسان اپنی پیدائش کی تاریخ پر Birth Day مناکر خوش ہوتا ہے مگر ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ وہ اپنی عمر عزیز کے ایک سال کم ہونے پر رنجیدہ خاطر ہو کر یہ سوچ کر اپنا محاسبہ کرے کہ اپنی زندگی کا ایک قیمتی سال گنوایا ہے۔ اس میں اُس نے آخر کیا کچھ حاصل کیا یا پھر صرف دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتے ہوئے نام و نمود کی دنیا کمائی وہ یہ بھی بھول جا تا ہے کہ اس کے آباء واجداد کی طرح جو لوگ اس کی نظروں کے سامنے کچھ تھے ،وہ آج کچھ بھی نہیں ہیں اور آنے والا کل اُنہیں بالکل ہی بھلادے گا ع ’’ زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے ‘‘ اس چند روزہ زندگی میں اکثر لوگ تجارت و کاروبار کے نام پر، سیاست و طاقت اور جاہ و حشمت کے نام پر، خاندانی دبد بے کے نام پر دوسروں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کرتے ہیں اور کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپنی انا پرستی کی سر زمین پر کیسے کیسے بلندو بالا دولت و شہرت کے ایوان تعمیر کرتے ہیں۔ اپنے خاندان و اولاد کے نام پر طرح طرح کے شیطانی کھیل کھیلتے اور اپنی انا کو تسکین پہنچانے کا سامنا کرتے ہوئے ایک دن حال سے ماضی میں جا کر ابدی نیند سوجاتے ہیں۔ یہ کا رخانہ ٔ قدرت کی عجیب و غریب کاری گری ہے کہ ہمارے معبود ِ حقیقی نے انسانوں کی رہنمائی کیلئے نہ صرف پیغمبروںؑ، آسمانی کتابوں اورصحیفوں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ قدم قدم پر دیدہ ور اورداناؤں کی رہنمائی کے سینکڑوں سامان ہمیںمہیا کئے ہیں مگر ہم ہیں کہ اپنے آپ میں سمٹ کر ’’ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہی سچ وہی کھرا‘‘ کی گردان شب وروز الاپتے رہتے ہیں۔
انا پرستی انسان کو غرور و تکبر کی اُن بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ اپنے آپ کو ہی گویا خدا سمجھنے لگتا ہے۔ یہ انا پرستی کی بھول بھلیاں بھی بڑی عجیب ہیں ،کسی کو اپنی چھوٹی موٹی مارکیٹ ،کمیٹی یا گائوں کی مسجد کمیٹی یا کسی اور سوسائٹی کی صدارت پر ناز ہے تو کسی کو اپنے MLA, MP یا منسٹر ہونے پر اور سیاسی بازیگری پر گھمنڈ ہے ، کوئی اپنے خاندانی پیشہ پر نازاں، تو کسی کو اپنے آل و اولاد کا نشہ ہے ، کوئی بندئہ خدا اپنی دادا گری پر چھاتی پھیلائے ہر طرف پھرتا ہے تو کوئی ہم ہستی جتانے کے لئے انسانیت کی مٹی پلید کرتاہے۔ بہر حال ہر کوئی نفس پرست انسان اپنے آپ میں مست اور ہر کسی کو خدا بتائے اپنی عزتِ نفس وقار کا پیمانہ بنار کھا ہے، جہاں کہیں بھی اُسے اپنے مزاج کے خلاف بات ہوئی بھلے ہی وہ کتنی سچی اور حقیقت پر مبنی ہو، جناب کا پارہ آسمان پر چڑھ جائے گا اور اُن کی انا کو ٹھیس پہنچ جائے گی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سماج میں ایسے ایسے Reaction یا ردِ عمل دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانیت اندھیری راتوں میں بھی اپنا مُنہ چھپاتے شرما جائے۔انا پرستی انسان کو اکثر بد گمان و مشکوک ذہن بنا دیتی ہے۔ خواہشات نفس، مشرکانہ سوچ ا ور طاغوت کی پیروی کرنے والوں کے مزاج میں ابوجہل کی طرح انا پرستی رچ بس جاتی ہے اور وہ معمولی معمولی باتوں کو اپنی انا کا مسلٔہ بنا لیتے ہیں، مثلاََآپ کسی سے فون پر بات کررہے ہوں اور دورانِ گفتگو لائن کٹ جائے یا آپ کے موبائیل کی بیٹری ڈائون ہو جائے تو دوسری جانب کا شکی مزاج والا انا پرست انسان یہ سمجھ کر ناراض ہو سکتا ہے کہ آپ نے جان بوجھ کر بات کرتے ہوئے جوفون کاٹ کر اس کی بے عزتی کردی۔
اِس انا پرستی کی بیماری کا علاج جتناآسان ہے اتنا مشکل ترین بھی ہے۔ اس بیماری سے چھٹکارا پانے کیلئے انسان کو صرف اپنے انسان ہونے اور خُدا ئے لاشریک کے سامنے جوابدہ ہونے کا راسخ عقیدہ ذہن نشین کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے حالیؔ نے کیا خوب فرماگئے ؎
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
ذات پات یا ’’میں اور تو‘‘ کی تفریق نے انسانوں کے درمیان اجنبیت اورمخالفت ، شکوک اورشبہات کی دیواریں کھڑی کرکے زندگی کے حسین نقشے کو بگاڑدیا ہے۔ انسان کو اصل میں ایک بہتر اور مفید تر انسانی سماج کی تلاش میں دلچسپی ہونی چاہیے۔ سعدی شیرازی صاحبؒ نے یہی فرمایا ہے۔
من آن مُورم کہ درپائیم بمالند
نہ زنبورم کہ از نیشم بنالند
چونٹی کو اپنی مظلومیت پر ناز ہے اور کہتی ہے کہ شکر اللہ کا کہ لوگ مجھے پائوں تلے روندتے ہیں اور میں بے بس ہوکر یہ ظلم سہتی ہوں اور وہی گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور میں اُس مچھر یا بچھو سے بہت بہتر ہوں جو کسی کو ڈستے ہیں اور تڑ پا تڑ پا کر خون چوستے ہیں۔
بہرصورت ہمیں اپنے اعمال کا روزانہ محاسبہ اسی طرح کرتے رہنا چاہیے جس طرح ہم عارضہ قلب یا ذیبطس کی بیماری کا ڈاکٹری علاج کرواتے ہوئے باقاعدگی کے ساتھ دوائیاں لیتے اور پر ہیزی غذا کی پابندی کرتے ہیں۔۔۔ مگر ہمارے یہاں مشکل مسئلہ یہی ہے کہ ہم اپنی نفسیاتی یا روحانی بیماری اور آلائش سے غافل رہتے ہیں ۔ اگر ہمیں دونوں جہانوں کی کامیابی چاہیے تو لازم ہے کہ یقین کامل کا یہ سرمایہ اپنے اندر جذب کریں کہ دُنیا دارلامتحان ہے ، یہاںکی زندگی عارضی ہے اورہم سارے انسان دارالعمل میں رہ کر اگر راستی اورسچائی کی پہچان کر کے حق کی راہ پکڑ یں ، نیک عملی کا زادِ راہ خرچ کر کے سفر حیات پر نکل پڑیں اورحقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی فکر میں منہمک رہیںتو پھر دارالجزاء میں کھڑا ہونے سے قبل ہی ہمیں طمانیت قلب ، روحانی سکون اور نفسیاتی ہمواری کے انعامات حاصل ہو سکتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر جو انسان اللہ پر یقین و توکل کے علاوہ اسی کی پکڑ سے ڈرے ، اس کی رضا میں لذت محسوس کر ے اور رسول اکرم صلعم کے اسوہ ٔ حسنہ کی بے حساب تقلید کر ے وہ نہ صرف ہر روز حیاتِ نو کی خوش خبری پائے گا بلکہ اسے نفس ِامارہ اور نفس ِلوامہ کی بندشوں سے آزادی ملے گی اور نفس مطمٔنہ سے سر فراز کیا جائے گا ۔ مکہ معظمہ کی تیرہ سالہ اور مدینہ منورہ کی دس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں اسی یقین کامل اور نفس مطمنٔہ کے انعامات کا تصور انسانوں کے دلِ و د ماغ میں بٹھا نے پر آپ ؐ نے ا نتھک محنت کی اور اس کے نتیجے میں جن نیک نفس اور فرشتہ صفت بندوں نے اس راز کو پایا کہ نفس امارہ سے آزادی پاکر ہی وہ سرخ رُو ہوں گے انہوں نے ساری دنیا میں نیک عملی کا ڈنکا بجاکر حیات ابدی پالی۔ یہ سیدھا سادھا پیغام ہمیں بتاتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بننے کی بجائے ایک دوسرے کے دُکھ درد کا ساتھی بنیں، انسانیت کے سنہری ا صول بر تنا سکھیں اور صلح کل کی جانب گامزن رہیں تاکہ عالمی سطح پر انسانی سماج اور بشری تہذیب میں تعصب، تنگ نظری ، نسلی حسد اور لسانی بغض وعناد کی آندھیاں تھم جائیں اور چہار سُو انسانیت کی بہار چھاجائے۔