Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

جہان ِعشق کے عشاق صحرا نورد | راہ سلوک کےمسافر حب الٰہی کو ترجیح دیتے ہیں تجلیات ادراک

Towseef
Last updated: December 3, 2024 9:36 pm
Towseef
Share
14 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عریف جامعی

عشق اور محبت تصورات سے زیادہ رویے ہیں، کیونکہ محب اور عاشق ان رویوں کو جیتا ہے اور یہی اس کا سامان زیست ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ’’محبت کے نرم و نازک پودے کو مسلسل آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ صاف ظاہر ہے کہ یہاں ایک مجرد حقیقت کو ٹھوس شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو اس جملے میں اس حقیقت کا واشگاف اظہار ملتا ہے کہ عشق و محبت کی پرکھ جہد مسلسل اور سعئ جانگسل پر ہی منحصر ہے۔ عشق کا دوام خلوص پر مبنی محنت شاقہ کا رہین منت ہوتا ہے۔ دلسوزی اور جنون اس کی بنیادی اقدار ہیں۔ اس شاہرہ کے مسافروں کو اپنی راہیں اپنے دل کے اس چراغ سے روشن کرنا پڑتی ہیں جس کا روغن ان کا خون جگر ہوتا ہے!

وادئ محبت سے بات شروع کریں تو مجنوں اور فرہاد اس کے استعارے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قیس کو راہ عشق کے جنون نے ہی مجنوں بنا ڈالا۔ کوچۂ لیلیٰ کی خاک چھانتے ہوئے مجنوں نے راہ عشق میں اپنے خلوص کا ثبوت فراہم کیا۔ ایسے خاک نشین اس راہ میں عقل و خرد کی رہنمائی قبول نہیں کرتے۔ انہیں فقط معشوق کی نگاہ ناز کی تمنا ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اسی راہ کے مسافر بنے رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ محبوب کے در کے سامنے کاسۂ گدائی لیکر مدتوں کھڑے رہنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ مدتوں بعد جب محبوب ان کے بجائے رقیبوں کی طرف ہی نگاہ التفاف کرتا ہےتو انہیں اس میں کوئی مصلحت ہی دکھتی ہے۔ محبوب ان کا کاسہ توڑ ڈالے جب بھی وہ جھوم اٹھتے ہیں کہ کم سے کم وہ محبوب کا تغافل توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ اس مقام پر انہیں محبوب کا رد و قبول متاثر نہیں کرتا، کیونکہ قبول ہوں تو وہ رزم گاہ عشق کے غازی ٹھہرتے ہیں اور اگر راندۂ درگاہ قرار پائیں جب بھی وہ محبوب کے سنگ در کو اپنے مرقد کا کتبہ بنا لیتے ہیں۔

راہ عشق اگر ایک طرف جنوں کا نام ہے تو دوسری طرف یہ راہ جفاکشی کی داستانوں سے بھی پر ہے۔ اس راہ کا مسافر وہی بن سکتا ہے جسے ایک طرف معشوق سے راز و نیاز کرنے کی تمنا ہو اور دوسری طرف وہ معشوق کے اشارۂ ابرو پر دنیا جہاں سے لڑنے کے لئے تیار ہوجائے۔ اس طرح عاشق اس راہ کا صرف مسافر نہیں ہوتا بلکہ وہ اس راستے کا ایک جانباز سپاہی بھی ہوتا ہے۔ اسے فرہاد کی طرح اس راستے کے سنگ ہائے گراں کو کاٹ کاٹ کر دودھ کی ندی بہانا پڑتی ہے۔ حوصلہ شکن حالات میں بھی امید کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہئے۔ اس کو ’’مقتل سے واپسی‘‘ کا خیال دل سے نکالنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس اسے پوری مدت جستجو رقص بسمل میں گزارنا پڑتی ہے۔ اکثر صورتوں میں اسے وصل سے زیادہ یہی رقص عزیز ہوتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو، یہی رقص تو اس کے عاشق صادق ہونے کی پہچان ہوتی ہے۔ راہ عشق میں اسی شہادت سے یہ فلسفۂ زندگانی کو لوح تاریخ انسانیت پر ثبت کرتا ہے:
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

محبت کی سواری پر سوار راہ وفا کے مسافر کو سلگتے الاؤ میں دل کی رضامندی سے کودنا پڑتا ہے۔ چونکہ اس کے رگ و ریشے میں مالک کائنات کی محبت رچ بس گئی ہوتی ہے، اس لئے اسے اس حالت میں بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ مالک کے حکم پر دنیا کی مخلوق اس آگ کو بجھانے پر جٹ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ آگ بجھ کر گلزار بن جاتی ہے اور محب کے لئے سلامتی بن جاتی ہے۔ تاہم محب کے لئے یہ ایسا مقام ہوتا ہے جہاں ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کا دور گزر چکا ہوتا ہے۔ یعنی وہ ’’علم الیقین‘‘ اور ’’عین الیقین‘‘ سے بہت آگے نکل کر ’’حق الیقین‘‘ کی سطح پر بس ایک اشارے کا مشتاق اور منتظر ہوتا ہے اور موقعہ غنیمت جان کر خود کو عاشق صادق ثابت کرنے کی طاق میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ راہ وفا کے منکروں کی سلگائی ہوئی آگ میں ’’بے خوف و خطر‘‘ کود پڑتا ہے:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ راہ عشق کا مسافر عقل کو بالائے طاق رکھتا ہے۔ دراصل جہاں عقل و خرد کی حدیں ختم ہوتی ہیں وہیں سے محب جذبات اور عقیدت کے آگے سرنگوں ہوجاتا ہے اور میدان عشق کا شہسوار بن کر ’’دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کرتا ہے۔‘‘

راہ محبت میں محبین کو ترک علائق بھی کرنا پڑتا ہے اور انہیں مہاجرت کے مصائب بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ان کی ہجرت دراصل ہر اس عمل سے کنارہ کشی سے شروع ہوتی ہے جو ان کے مالک کو ناپسند ہوتا ہے۔ انہیں ہر اس فکر کو چھوڑنا پڑتا ہے جو ان کے محبوب کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔ وہ ایسا کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالتے جس سے ان کے دعویٰ محبت پر حرف آسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناحق، جھوٹ یا باطل سے یہ کنارہ کشی انہیں اہل باطل کا مغضوب بنادیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کہیں انہیں اس طرح تعذیب کا شکار کیا جاتا ہے کہ گھڑوں میں گاڑ کے ان کے سر تن سے جدا کیے جاتے ہیں۔ کہیں لوہے کی کنگھیوں سے ان کے بدن سے گوشت نوچا جاتا ہے۔ کہیں انہیں آروں سے چیرا جاتا ہے۔ کہیں آگ سے بھرے گھڑوں کی نذر کیا جاتا ہے۔ کہیں انہیں تپتی ریت اور سلگتے انگاروں پر لٹایا جاتا ہے۔ تاہم جھوٹ کی بالادستی سے کنارہ کیے ہوئے یہ ’’مہاجرین‘‘ مالک کی توصیف و تحمید سے تر زبان کو ’’آلودۂ شکوہ‘‘ نہیں کرتے، بلکہ ان کی ’’شہد جیسی میٹھی‘‘ زبان پر بس ’’احد احد‘‘ کے ترانوں سے نغمہ سنج ہوتی ہے۔ بقول مظفر وارثی:

عشق کرتے ہو تو آلودۂ شکوہ کیوں ہو
شہد کے لہجے میں تلخی نہیں آیا کرتی

راہ وفا میں مصائب و آلام کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنے والے یہ ’’مردان تسلیم و رضا‘‘ کبھی کبھی اپنی آباد دنیا سے کچھ اس طرح الگ ہوجاتے ہیں کہ یہ رہتی دنیا کے لئے وفا کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ یہ بات نہایت ہی دلچسپ ہے کہ ان کی مصاحبت اختیار کرنے والے جانور تک انسان کی اجتماعی یاداشت میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ فکری اور عملی پاکیزگی (تزکیہ) اختیار کرنے والے ان لوگوں کو جب اپنی بستی والے برداشت نہیں کرتے تو یہ اپنی پاکیزگی کو بنائے رکھنے کے لئے خوش و خرم غیر آباد غاروں کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں۔ یہ بات کتنی اطمینان بخش ہے کہ جو لوگ اپنی بستی میں پاکیزہ فکر سے روکے گئے تھے، جن لوگوں کو پاکیزہ بول بولنے پر پابندی تھی، جنہیں پاکیزہ عمل کرنے کی آزادی حاصل نہیں تھی، جو پاکیزہ خوردونوش سے محروم تھے اور جنہیں پاکیزہ ماحول دستیاب نہیں تھا جس میں وہ سانس لیتے، انہی صفا اور وفا کے پیکروں کی اپنا مالک صدیوں تک کچھ اس طرح نگہداشت کرتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوجاتے۔ ان کے لئے وقت جیسے رک جاتا ہے اور وہ جست لگاکر کچھ اس طرح مستقبل میں پہنچ جاتے ہیں کہ زمانہ ان کی عقیدت کے نغمے گانے لگتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے گرد عقیدتی ادب کا ایک ایسا قلعہ تعمیر ہوتا ہے جو اس پختہ عمارت سے زیادہ بلند اور پختہ تر ہوتا ہے جو ان کے مرقد کے گرد کھڑا کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیق و جستجو کے ہزارہا صفحات ان کے فکر و عمل کا احاطہ کرنے کے لئے قلمبند کیے جاتے ہیں۔

اہل وفا راہ وفا میں اس وقت بھی وفا کیشی کا ثبوت دیتے ہیں جب انہیں اہل جفا اس وجہ سے دیس نکالنے کے لئے اکٹھا ہوجاتے ہیں کہ یہ حق کی تبلیغ و ترویج سے باز نہیں آتے۔ اپنے کارساز (مالک، محبوب، ولی، دوست) کے ساتھ باندھے ہوئے عہد وفا کو نبھانے کے لئے یہ اپنے آپسی دوستی کے رشتے کو مضبوط تر کرتے ہیں۔ اپنے دیس میں اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے بعد یہ اپنے وطن کو خیر باد کہتے ہیں اور اپنے مالک پر توکل کرتے ہوئے دشت و بیابان کو عبور کرکے غیر آباد غار میں پناہ لیتے ہیں۔ اہل باطل ان کا پیچھا کرتے ہوئے غار کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس دوران ’’دو میں کا دوسرا‘‘ (ثانی الثنین) اپنے ’’صاحب‘‘(ساتھی، جگری دوست) کو اس مالک پر اعتماد کرنے کی تلقین کرتا ہے جو ’’ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ بہرحال مالک ان وفا شعاروں کی کچھ اس طرح حفاظت فرماتا ہے کہ ڈھونڈنے والے نامراد لوٹ جاتے ہیں، جبکہ یہ ’’امین و صدیق‘‘ آگے بڑھتے ہوئے ’’شہر تمدن و تہذیب‘‘ بساکر پاکیزگی کی اس تحریک کو عالمگیریت اور ابدیت کا جڑواں مرکز عطا کرتے ہیں۔

سلوک یا طریقت کی بات کریں تو تصوف کے سلسلہ ہائے ذہب دنیا کی تاریخ زہد میں اس لئے بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں کہ ان کا زور حب الٰہی پر رہتا ہے۔ اگرچہ ان میں کوئی بھی سلسلہ خوف خدا اور تقوٰی کو غیر اہم تصور نہیں کرتا، تاہم تصوف کے اساطین نے ہمیشہ عشق و محبت میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ یہ ایک امر واقع ہے کہ ہر با ایمان خدا کی محبت سے سرشار ہوتا ہے، لیکن عشق ایک صوفی کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر خوف و ڈر سے زیادہ حب الٰہی کو ترجیح دیتا ہے۔ اسے بہار سے زیادہ بہار کے خالق سے دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ پڑوس سے زیادہ ’’پڑوسی‘‘ کو محبوب رکھتا ہے۔ خداکی محبت اس کی عبادت اور خدا کے سامنے راز و نیاز کی محرک ہوتی ہے۔ ظاہر داری میں غلو کرنے والے اس کا ’’انا الحق‘‘ قبول نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مصلوب ہوکر شہید سلوک کا رتبہ پاتا ہے۔ صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے اس پر سنگ باری بھی ہوتی ہے۔ تمام ’’پتھر بازوں‘‘ کی طرف وہ التفاف نہیں کرتا، کیونکہ وہ اس کے نزدیک انجان اور بے بس ہوتے ہیں۔ تاہم اہل دل (جانکار) جب اس پر پھول برساتے ہیں، تو وہ رو پڑتا ہے، کیونکہ وہ عشق کے نصاب سے واقف ہوتے ہیں۔ صلیب سے اتار کر ان کو جلایا جائے تو ان کے جسم کی راکھ بحر عشق کے پر سکون پانیوں میں طغیانی کا سبب بنتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاشق صادق ہمیشہ پھانسی کے پھندوں کو چومتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے گا:

عظیم ہو تم، عظیم ہو تم
صلیب پر مسکرانے والو
اجل کی وادی میں راہیوں کو
بقا کی راہیں دکھانے والو
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔9858471965
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Elvis The new Queen Lifetime Video slot Enjoy Totally free WMS Online slots
Nordicbet Nordens största spelbolag med gambling enterprise och possibility 2024
blog
Elvis the new king Gambling establishment Online game Courses
Find Better On the web Bingo Web sites and you may Exclusive Also provides in the 2025

Related

کالممضامین

’’چاول کی آخری وصیت‘‘ جرسِ ہمالہ

July 14, 2025
کالممضامین

! اسرائیلی مظالم کے خلاف بڑھتا ہوا عالمی دباؤ | غذائی تقسیم کے مراکز پر بھی بھوکے فلسطینیوں کو قتل کیا جارہاہے

July 14, 2025
کالممضامین

چین ،پاکستان سارک کا متبادل پیش کرنے کے خواہاں ندائے حق

July 13, 2025
کالممضامین

معاشرے کی بے حسی اور منشیات کا پھیلاؤ! خودغرضی اور مسلسل خاموشی ہمارے مستقبل کے لئے تباہ کُن

July 13, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?