شہر سرینگر میں ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ٹریفک میں اضافہ ہوتا جارہاہے اگر اس کے بین بین نئی سڑکیں تعمیر نہ ہوں تو وہ دن دور نہیں ہوگا، جب اس شہر میں بود باش کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ چونکہ دنیا بھر میں اس وقت گاڑیوں کی تیاری سے منسلک کارپوریٹ سیکٹر نت نئی اقسام کی گاڑیاں سڑکوں پر لانے کیلئے ایک زبردست مہم میں مصروف ہے، لہٰذا اس کے باوجود کہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تباہی موجودہ دنیا کے لئے ایک خطرناک الارم سے کم نہیں، معیشت کا یہ شعبہ آگے ہی آگے بڑھتا جائے گا۔ ریاست کے گرمائی دارلحکومت سرینگر میں بڑھتے ٹریفک کے دبائو کو کم کرنے کیلئے فلائی اووروں کی تعمیر کے کئی پروجیکٹ ہاتھ میں لئے گئے، لیکن برسہا برس گزرنے کے باوجود ان پر کام چونٹی کی رفتار کے ساتھ چل رہا ہے اور کئی مرتبہ اہداف مقرر کرنے کے باوجود انکی تکمیل نہیںہو پارہی ہے۔ شہر میں جہانگیر چوک رام باغ فلائی اوور کی تعمیر کا اعلان سال 2009میں کیا گیا اور اسکی تکمیل تین برس کے اندر 2012میں ہونی تھی، لیکن انتظامی کارروائیوں اور اس کے لئے فنڈ کی فراہمی میں اس قدر تاخیر ہوئی کہ مقررہ ہدف سے بھی ایک سال بعد 2013میں اس پر کام شروع کیا گیا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ شہر کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل اس پروجیکٹ پر جستہ جستہ کام ہوتا رہا ہے اور اس کی تعمیر میں جس قدر افرادی قوت کی ضرورت ہوسکتی ہے، وہ کہیں دیکھنے کو نہیںمل رہی ہے۔ چونکہ جب اس مسلسل تاخیر پر حکام کو تمام سیاسی، سماجی اور اقتصادی حلقوں کی جانب سے لعنت ملامت کا سامنا کرنا پڑا تو اس پروجیکٹ کو مختلف حصوں میں بانٹ کر اس کی تکمیل کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود ابھی تک امرسنگھ کالج سے برزلہ تک کے مرحلے کو بھی صرف یکطرفہ ٹریفک کیلئے کھول دیاگیا ہے۔ جسکے توسط سے حکام نے شور مچانے والے حلقوں کو وقتی طور پر خاموش کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن اس سے جہانگیر چوک رام باغ کے درمیان ٹریفک کی گذر میں برائے نام فرق پڑ گیاہے۔ 350کروڑ روپے مالیت کا حامل ایشین ڈیولپمنٹ بنک سے حاصل شدہ فرضہ پر مشتمل یہ پروجیکٹ اس سڑک پر ٹریفک کے حجم کو کم کرنے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیاجارہاہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظرانداز کیا جارہا ہے کہ اسکے زیر تعمیر وقت کے دوران شہر کے اندر ٹریفک کے حجم میں کس قدر اضافہ ہوا ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے کیا پروجیکٹ کی اہمیت برقرار ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2014میں سیلاب کے ایام اور 2016میںایجی ٹیشن کے تقریباً چھ ماہ کے دوران پروجیکٹ پر کام بند رہا، جس کے نتیجے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ضائع شدہ وقت میں رکے پڑے کام کی تکمیل کے لئے تعمیر کے کام میں لگائی گئی نفری اور مشینری میں اضافہ کیا جاتا، مگر اس کا کہیں دور دور تک نشان نظر نہیں آتا۔ سال 2016میں تکمیل کی ڈیڈ لائن کو بھی اب مزید دو برس گزر گئے ہیں ۔ ابھی حکومت کی جانب اور کتنی ڈیڈ لائنیں مقرر کی جائینگی، اُس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ حالانکہ سرینگر اور جموں شہروں کے لئے رام باغ فلائی اوور اوربکرم چوک فلائی اوور کی تعمیر کا اعلان ایک ہی وقت سال 2009میں کیا گیا تھا لیکن جموں کا فلائی اوور اپنے مقرر شدہ ہدف کے مطابق 2013میں تکمیل پذیر ہوا اور گزشتہ پانچ برسوں سے اس پر ٹریفک رواں دواں ہے، جسکی وجہ سے جموں شہر میں ٹریفک کی گنجانیت میں کافی سدھار آگیا ہے، مگر یہاں کا بابا آدم ہی نرالا ہے اور ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے پروجیکٹ کی حتمی ڈیڈ لائن پر بات کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔