نام کتاب: جہانِ خیال
مصنف: غلام نبی خیال
ناشر: کشمیر کلچرل کانفرنس ،سرینگر
اُردو کشمیری اور انگریزی زبان کے ایک معروف صحافی اور ادیب غلام نبی خیال کی بتیسویں کتاب’’ جہانِ خیال‘‘ کے نام سے ستمبر ۲۰۱۷ء میں منظر ِ عام پر آگئی ہے ۔۵۴۴ صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں شامل مواد کو تین حصّوں میں ترتیب دیا گیاہے۔ پہلے حصّے میں ’’ مقالات‘‘ کے تحت چھوٹے بڑے تیس مضامین؍ مقالات شامل کئے گئے ہیں، جن میںبیشتر مضامین ؍ مقالات کا تعلق کشمیر ، کشمیریات، ثقافت اور یہاں کی مختلف ادبیات سے ہے،جب کہ’’ دنیا کی دس عظیم کتابیں‘‘ اور ’’یوری پیڈیز ۔۔۔۔۔‘‘ جیسے مضامین کا تعلق عالمی ادبیات سے ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اس کتاب کے چند مضامین کتابی صورت میں چھپنے سے پہلے مختلف مقامی و قومی رسائل و جرائد کے توسط سے قارئین تک پہنچ چکے ہیں۔ اب انہیں کتابی صورت دے کر ایک اہم سرمائے کو محفوظ کیا گیا ہے۔
کشمیر میں ادبیات کے سلسلے میں خیال صاحب نے کشمیری زبان کے نامور قلمکاروں، اس کی مختلف تحریکوں اور رجحانات کے ساتھ ساتھ صوفی شاعری پر بھی ایک پُر مغز مضمون رقم کیاہے۔ ٹھیک اسی طرح کشمیر میں اُردو زبان،ادب اور صحافت کے تئیں بھی انہوں نے اُردو صحافت ، رُباعی اور’’ محکمہ اطلاعات کی اُردو خدمات‘‘ پر ایک سیر حاصل مضمون لکھا۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ فارسی کی طرح ایک زمانے میں کشمیر سنسکرت علم و ادب کا مرکز رہا، یہاں کتھا سرت ساگر( سوم دیو) راج ترنگنی( کلہن) اور نیل مت پرُان جیسی کتابیں لکھی گئیں۔بد قسمتی سے ان تمام چیزوں کو آج کل یہاں کے لوگ بھولتے جارہے ہیں ، لیکن خیال صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ابھینو گپت ، کھیمیندر ، کلہن ، بلہن ، سوم دیو ، آنند وردھن جیسے سنسکرت عالموں اور فاضلوں پر ان کی شخصیت اور ان کے فن کے حوالے سے اُردو میں بات کرکے ہماری ایک عظیم ثقافتی وراثت کی بازیافت کی۔
جب آج جب ہم کشمیری ثقافت کی بات ایک اسکالر کے نقطۂ نظر سے کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے ان انگریزوں کی تصانیف کو دیکھنا پڑتا ہے، جنھوں نے وقتاً فوقتاً کشمیر آکر انگریزی زبان میں بہت ساری معرکتہ آلار کتابیں لکھیں ، تو ان باتوں کے پیش نظر خیال صاحب نے سر والٹر لارنس ، سی ای ٹنڈیل بسکو جیسے لوگوں پر مضامین رقم کئے۔ اسی طرح کچھ مضامین میں کشمیر کی تاریخ کو کھنگالا گیا۔’’ بھگوت گیتا کے اُردو تراجم‘‘ اور ’’کشمیری زبان کی بائبل‘‘ بھی کتاب میں شامل دو قابل مطالعہ مضامین ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کا دوسرا حصّہ’’ تاثرات‘‘ کے عنوان سے ۸ مضامین پر مشتمل ہے۔ یہاں ضمناً میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خیال موصوف پر ابھی تک انکے معاصرین، امین کامل ، پروفیسررحمٰن راہی ، پروفیسر حامدی کاشمیری اور محمد یوسف ٹینگ وغیرہ،کے مقابلے میںبہت کم لکھا گیا۔ صرف ایک Ph.D کیا گیا، جو شائع بھی ہوا۔’’ تاثرات‘‘ میں خیال صاحب کے فکر وفن پر لکھے گئے روبینہ ناز ، رفیق سرہانوی ، ڈاکٹر قدوس جاوید ، ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری ، رفیق احمد بانڈے ، وحشی سعید کے مقالات مضامین شامل ہیں، حالانکہ اس حصّے کا نام ’’ فکر و فن‘‘ کے آس پاس ہی کچھ ہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح کتاب کے آ خری حصّے میں خیال صاحب کی مختلف کتابوں جیسے کارواں خیال( احمد ندیم قاسمی) ،خیال قلم ( ڈاکٹر قدوس جاوید،ڈاکٹر مشتاق حیدر،ڈاکٹر ریاض
تو حیدی ، ڈاکٹر مشتاق احمد وانی۔ سیفی سرونجی ) گاشری منار(ڈاکٹر احسان احمد) پراگاش ،شبنم کا آتش کدہ( فاروق نازکی) غلام بنی خیال ایک مطالعہ ( ڈاکٹر شفق سوپوری) فغان کشمیر( سالک دھامپوری) کشمیر کی وادی( خالد حسن) کے ساتھ ساتھ’’ تصا نیف خیال‘‘ کا ایک اجمالاً خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
’’ جہانِ خیال‘‘ نام کی اس کتاب میںکشمیر کی مجموعی ادبی صورتحال کے ساتھ ساتھ، یہاں کی ثقافت کے مختلف ادوار کو سمجھنے میں بھی بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازین زیر تبصرہ کتاب سے ہم خیال صاحب کا وژن ، انکی فکر اور انکی شخصیت کے مختلف گوشے سمجھ سکتے ہیں۔چونکہ صحافی ہونے کے ناطے ادب کے ساتھ ساتھ، وہ یہاں کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، اس حوالے سے جہاں وہ کشمیر کی تاریخ کے بارے میں لکھتے ہیں ، تو مختلف ادوار کی خونچکان داستانیں ہمیں انکے جذبات کے ساتھ اس کتاب میں ملتی ہیں، لیکن ساتھ ہی جب وہ ’’ کشمیر میں تہذیبی ہم آہنگی کے مظاہر‘‘ جیسے مضامین پر قلم اُٹھاتے ہیں ، تو یہ بات بھی بے ساختہ نکل ہی جاتی ہے:
’’دورِ بڈشاہی میں اس تہذیبی رواداری کی جو بنیادیں اُستوار ہوئی تھیں، آج سر زمین کشمیر میں اُن پر ایک ایسی عمارت تعمیر ہوئی ہے ،جس کے دریچوں سے بیک وقت ناقوس و اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ یہاں کوہِ ماران کے دامن میں جہاں سلطان العارفین حضرت مخدوم صاحبؒ کی زیارت مرجع خاص وعام ہے، وہاں اسی پہاڑی کے شمالی سرے پر شنکر ایشور مندر عقیدت مندوں کو صبح و شام سکونِ قلب اور روحانی طمانیت عطا کرتا ہے۔ حضرت شاہ، ہمدانؒ کی خانقاہ اور مہاکالی کا مندر ایک ہی جگہ پرواقع ہیں۔ جہاں صدیوں سے مسلمان اور ہندو دونوں اس زیارت اور استھاپن پر اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ دیو سر میں ترپر سندری دیوی کے استھاپن پر مسلمان بھی آتے ہیں۔ کھیر بھوانی کی متبرک جگہ پر پوجا کے کیلئے پھول ، دودھ اور میوے فروخت کرنے کا کاروبار مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح شری امرناتھ جی کی مقدس گپھا پر ،جب ساون کی پورن ماشی کو میلہ لگتا ہے، تو نذرانے کا ایک حصہ حال ہی تک بوٹہ کوٹ کے ملک گھرانے کو بھی جاتا تھا۔ ‘‘( ص ۶۷)
الغرض موجودہ ملکی یا ریاستی سیاست ہمارے بارے میں کیا کچھ کہے،انسانیت ، اخوت ، آپسی بھائی چارے کی یہ عظیم روایتیں ہماری نس نس میں موجود ہیں۔ اور ان کو فروغ دینا ہر کسی جنیوین قلم کار کا فرض اولین ہے۔ جس کی اہم مثال ہمارے پاس خیال صاحب اور ان کا فکر و فن ہے۔
سینئر اسسٹنٹ پروفیسر اُردو۔
گورنمنٹ ڈگری کالج ماگام بڈگام ،کشمیر
[email protected],Mobile No. 9697393552