صبح کے پُرکیف منظر اور سورج کی ترچھی شعاعوں کے جُھرمٹ میںجھیل کے نیلے پانی کی سطح پر سجا سجا یا شکارا ایک ستارے کی مانند چمکتا رہا۔رمضان لاوے کے جوان اور مضبوط ہاتھوں میں چپو ایک تنکے کی طرح لہرایا اور شکارا برق رفتاری کے ساتھ پانی کا سینہ چیرتے ہوئے فراٹے بھرنے لگا۔ شکارے میں برطانیہ کی مکین جواں سال خوبصورت ماریا اور رمضان لاوے کی دو بہنیں نُورا اور راحت قہقہے بکھیر رہی تھیں۔ماریا اُن کے ہاں ہی ٹھہری ہوئی تھی۔ اُس کے والدین ہر سال کشمیر کی سیر وسیاحت کے کئے آیا کرتے تھے اور رمضان لاوے کے والدسبحان لاوے کے ہاں ٹھہرے تھے۔ ماریا اکیلی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اُن کے ساتھ رہتی۔ آخری بار جب وہ یہاں آئے اس وقت ماریاکی عمر سات سال کی تھی۔ پھر کھبی یہاں آنے کا موقع نہیں ملا۔ کیونکہ واپسی پر اُس کے والدین ایک حادثے میں مارے گئے۔ وہ اپنے اعزاء و اقارب کے ہا ں پرورش پا گئی اور تعلیم کے منازل طے کرتی گئی۔ اپنے والدین کی طرح وہ بھی قدرتی نظاروں، خاص کر آبگاہوں اورآبشاروں، کی عاشق تھی۔ اس لئے اُس نے علم ماحولیات میں اعلی ڈگریاں حاصل کیں اور بیس سال بعد اپنے والدین کے نقش قدم پر سیر وسیاحت کے لیے وارد کشمیر ہوئی۔ ۔۔۔ والدین کی ڈائری میں درج پتے پر وہ سبحان لاوے گھر پہنچ گئی اور انکے فرزند رمضان لاوے کے ہاں ٹھہر گئی۔جھیل کی سیر کرنا اس کا مومول بن گیا۔ اس جھیل کے ساتھ اُس کے والدین کو بہت اُنس تھا۔ وہ یہاں مہینوں گذارتے تھے۔ ماریا کو اس جھیل میں اُن کی پرچھایاں نظر آرہی تھیں۔ اس لئے اس کو اس جھیل سے انتہائی لگاو ہوگیا۔ لیکن ایک بات اس کے ذہن میںکھٹکتی تھی اور وہ سوچا کرتی کیا یہ وہی جھیل ہے جو میں نے بیس سال پہلے دیکھی تھی۔ وہ اپنی یاداشت پر زور دیتی رہی اور جوُں جُوں وہ بیس سال پہلے کی کتاب کی ورق گردانی کرتی گئی، وہ مایوس ہوتی گئی۔ پھر بھی وہ نورا اور راحت کو ساتھ لیکرروزانہ جھیل کی سیر کو جاتی۔ وہ اُن سے گھل مِل گئی۔ لیکن رمضان لاوے کے ساتھ گھل مِل جانے کا بہت کم موقع ملتا تھا۔ وہ اُس کی دوری محسوس کرتی تھی۔ ویسے بھی رمضان لاوے کو گھر میں ٹھہرنے کا کم وقت ملتا تھا۔ نصف شب سے مچھلیوں کا شکار کرنا، سنگھاڑے، ندرو جمع کرکے انہیں بازار لے جانا اور پھر گھر کے دوسرے کاموں میں مشغولیت اس میں مانع تھے۔ اس لئے وہ دونوں ایک دوسرے سے اجنبیت سی محسوس کر رہے تھے۔ تاہم وقت گذرنے کے ساتھ یہ اجنبیت ختم ہوگئی۔
ایک سہانی شام کو وہ رمضان کے ساتھ جھیل کی سیر کو نکل پڑی ۔ شام کا سُرمئی اندھیرا چھا رہا تھا، جو جلدی مشرق سے اُبھرتےچودھویں کے چاندکی چاندنی سے مدہم پڑ گیا۔ اس پُر کیف منظر میں سطح آب پر دھیمی لہروں سے اُٹھتے چاندی کے ورق اٹکھلیاںکر رہے تھے۔ شب باش مرغابیوں اور دوسرے آبی پرندوں کی چہچہاہٹ کی میٹھی اور مدھر دھنیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ نیلوفر کے جھنڈ پانی کو چھوو رہے تھے اور پانی اُن کی تصویریں کھینچنے میں فخر محسوس کر رہاتھا۔ عبادت گاہوں اور درگاہوں پر نور کی برسات ہو رہی تھی اور یاد حق کی صدائیں فضا کو پُر سوز بنا رہی تھیں۔ چاندنی میں ڈوبے سر سبز و شاداب جنگلات سے بھرے کوہساروں کی برفیلی چوٹیاں جھک جھک کر اس دلفریب منظر کا لطف لے رہی تھی۔رمضان چپو چلانے میں مشغول تھا ۔ ہوا کے جھونکوں سے اس کے نرم و ملائیم بال ماتھے پر رقص کر رہے تھے۔ گلے میں لٹکا تعویز چوڑے چکلے سینے پر قلا بازیاں کھا رہا تھا ۔ وہ اپنی دھن میں مست چپو کے ساز پر رسول میر کی کوئی رومانوی غزل گا رہا تھا۔ جس سے ماریا محظوظ ہوری تھی اور لاشعوری طور رمضان کی اور کھینچی جارہی تھی۔ وہ رمضان کی حسن وجوانی کو بڑے انہماک سے دیکھ رہی تھی۔ بیس سال پُرانی یادوں کے دریچوں پر دستک ہوئی "کہاں چھ سات سال کا دُبلا پتلا لڑکا جس کو میرے ڈیڈی زور زبردستی کرکے صابن سے نہلا یا کرتے اور صاف کپڑے پہنایا کرتے تھے اور کہاں آج کا یہ صاف و شفاف لباس میں ملبوس خوبرو تنومند اور گبروجوان "وہ بچپن کی یادوں میں کھوئے جارہی تھی "رمضان کے ساتھ بیدزاروں اور چناروں میں چھپا چھُپی کھیلنا ۔ ایک دوسرے کو کہانیاں سُنانا ۔ جھیل کے کناروں پر خودرو پھولوں میں تتلیوں کو پکڑنا، والدین کی نظر بچا کر جھیل میں دُور تک جانا اور نیلوفر توڑ کے لانا۔ "ایک ایک بات اس کی یادوں کے دریچوں سے پھلانگیں مار رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد اپنے آپ کو مجتمع کر کے رمضان سے پوچھا۔ "رمجانا بچپن کا کوئی باٹ یاڈ ہے کہ ناہی"رمضان نے بھی ماریا کو بھر پُور نظروں سے دیکھا اور حُسن و جوانی کے مجسمہ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ذرا تامُل کے بعد کہا۔"ہاں میڈیم بچپن کی ایک ایک بات یاد ہے۔ یادوں پر زنگ نہیں لگا ہے۔"تمہیں یاڈ ہے کہ کھیلتے کھیلتے بیڈ زاروں اور چناروں سے ہوٹے ہوئے ہم کھیل کے ایک بڑے میدان میں پہنچ جاٹے تھے۔ میدان کے کنارے نبہ چاچا نامی ایک شخص نے چنار کا ایک چھوٹا پیڑ بویا تھا۔ کیا وہ پیڑ موجود ہے۔ اور کیسا ہے۔ کیا ٹُم وہاں گئے ہو ؟‘‘ اُس نے رمضان سے ایک کے بعد ایک سوال پوچھے۔ ـ" ہاں میڈم میں وہاں فرصت کے لمحات گذارتا ہوں ۔ چنار کا درخت ہماری طرح جواں ہوا ہے۔ اسکا سڈول تنا، خوبصورت ٹہنیاں اور سر سبز شاداب پتے غرض اس کا سراپا آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے اور اس میدان کی زینت بڑھا رہا ہے۔"ماریا اپنے سراپا کا جائزہ لینے لگی۔ اور اپنے اچھلتے دل کو قابو کرتے ہوئے سنبھل کر رمضان سے پوچھا "رمجانا اتنا عمر ڈھل جانے کے باوجود تم نے آج تک شادی کیوں نہیں کیا؟"میڈیم بات دراصل "ماریا نے رمضان کی بات کاٹ کر کہا "میرا نام میڈیم نہیں۔ مجھے اپنے نام سے پکارو"۔رمضان کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے ایک دلفریب ادا سے بالوں کی لٹ کو ماتھے سے ہٹاتے ہوئے کہا "ماریا صاحبہ میں آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اُس وقت میری دو بہنیں نورا اور راحت پیداہوچکی تھیں۔ مجھے تعلیم کو خیر باد کہہ کر کشتی اور چپو کو سنبھالنا پڑا۔ تب سے آج تک روزی روٹی کی جدوجہد جاری ہے۔ سوچتا ہوں کہ پہلے بہنوں کے ہاتھ پیلے کر دوں پھر اپنے بارے میں خیال کر وں۔‘‘ ماریا مغموم ہوگئی لیکن اس کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ رمضان کے ارادوں میں برابر کی شریک رہنا چاہے گی۔
گھرآکر ماریا خوش و خرم تھی جھیل کی لہروں کی طرح اس کے وجود میں بھی لہریں اُٹھ رہی تھیں، جن سے اس کے دل میں گد گدی ہورہی تھی اور وہ انجانی خوشی سے سر شار ہو رہی تھی۔ ماں بیٹیوں نے اس کی خوشی کو تاڑ لیا۔ وہ دل ہی دل میں سپنوں کے محل تعمیر کرنے لگیں اور ماریا کو زیادہ سے زیادہ اپنانے لگیں۔ ماریا اب ان کے نا چاہتے ہوئے بھی چھوٹے چھوٹے گھریلو کاموں میں اُنکا ہاتھ بٹانے لگی اور اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگی۔
وقت کا پنچھی اُڑتا رہا۔ اب اُس نے رمضان سے وہ بات بھی پوچھی جو مدت سے اس کے دل کو کرید رہی تھی کہ یہ جھیل سینکڑوں کلو میٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ اب یہ سُکڑتے سمٹتے ایک بڑے سے تالاب کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ صاف شفاف اور نیلے پانی کا یہ خزانہ مشہور و معروف اور قابل دید تھا۔ سنگھاڑوں ، ندرو اور مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ مقامی اور مہاجر پرندوں کے غول ہر طرف نظر آتے تھے۔
لیکن اب یہ سب مفقود ہورہے ہیں۔ لوگوں کے روزگار میں بھی کمی آرہی ہے۔یہ سب کیا ہوگیا ہے۔ رمضان لاوے سے اس سوال کا کوئی جواب بن نہ پڑا۔ لیکن ماریا نے اپنا تجسس ترک نہیں کیا۔ ماحولیات کے ضمن میں وہ بہت حساس تھی۔ وہ اکثر رمضان لاوے اور کھبی اس کی بہنوں کو ساتھ لے کر جھیل کے قرب و جوار کا ایک محقق کی طرح معائینہ کرتی رہی۔ وہ جھیل کے کناروں پر بسے ہوئے لوگوں سے ملی۔ ان کے رہن سہن کا خاص جائیزہ لیا۔ اور اس جھیل کے سکڑنے کی تمام وجوہات معلوم کیں۔اور جوں جوں حقائق اس کے سامنے آتے گئے اس کا دل ٹوٹتا گیا۔ وہ بددل ہوتی گئی اور گم سُم رہنے لگی۔ اس کے بول چال اور حرکات و سکنات پر جیسے پہرے لگ گئے۔ رمضان لاوے اور ماں بیٹیاں اس کے غیر متوقع بدلاو اور رویہ پر حیران اور پریشان ہوگئے۔ ماریا نے اب جھیل کی سیر کو جانا بھی ترک کر دیا۔ اور زیادہ تر اپنے کمرے کی چار دیواری میں مقید رہنے لگی۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ ایک۔۔۔۔ صبح ۔۔۔ ایک صبح وہ کمرے سے غائب پائی گئی۔ ۔۔۔ رمضان لاوے اپنی بہنوں اور والدہ کے ساتھ اس کو ڈھونڈتا رہا۔۔۔۔۔ وہ بیدزاروں ، چناروں اور جھیل کے کناروں پر دیوانہ وار پھرتا رہا لیکن ماریا کا کہیں کوئی سُراغ نہیں ملا۔آخر ان کو ماریا کے بستر کے نیچے نوٹوں کا ایک بنڈل ملا۔ جس میں ایک رقعہ بھی تھا۔لکھا تھا۔
ـ"رمضانا تمہارا ، تمہاری والدہ اور بہنوں کا بے لوث پیار میرے سینے میں محفوظ رہے گا۔۔۔۔۔۔ مہمان نوازی کا شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جو لوگ قدرت کی نعمتوںکی قدر اور حفاظت نہیں کرسکتے وہ بھلا ہماری کیا قدر اور حفاظت کریں گے۔جو اپنے نہیں بن سکتے وہ دوسروں کے کیا بن سکتے ہیں۔ جھیل کی لہریںدم توڑ رہی ہیں ۔ اس لئے میں اپنے وطن واپس جارہی ہوں۔ فقط ماریا
موبائل نمبر9796953161