جھیل ڈل جسے کشمیر کےشہرہ آفاق مقامات میں ایک امتیاز حاصل رہا ہے، تیزی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔ اس آبگاہ کو جہاں ایک جانب سے قرب وجوار میں پیدا ہونے والی آلودگی کا سامنا ہے وہیں دوسری طرف ناجائز تجاوزات کا سلسلہ اسکی وسعتوں کو تبدریج سمیٹ رہا ہے۔ ہر حکومت نے اپنے دور میں قدرت کے اس تحفے کو انسانی دست برد سے بچانے کی قسمیں اُٹھائے رکھیں اور اسکی ہیت میں بہتری لانے کے لئے کثیر رقوم صرف کیں لیکن معاملہ وہیں کا وہین اٹکا رہا ۔ اب حکومت اسکے ماحولیاتی منظر نامے کو بہتر بنانے کےلئے دوبارہ متحرک ہوگئی ہے اور آبگاہوں کی دیکھ ریکھ کےلئے ذمہ دار ادارہ لاوڑا اور شیر کشمیر ایگریکلچر یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق ہوا ہے، جو جھیل سے نکالی جانے والی گھاس پھوس کے سائنسی استعمال کا امکانا ت کا جائزہ لے کر حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کریگی۔ جھیل ڈل میں پید اہونے والی سبزیاں، پھل اور گھاس پھوس ، جیسے کشمیری عرف عام میں ’’ نر‘‘ کے نام سے جانا جاتا رہا ہے، کسی زمانے میں کشمیر کی مقامی معیشت کا ایک قابل لحاظ حصہ رہا ہے لیکن بدقسمتی سے مختلف اوقات پر ہمارے حکمرانوں کی جانب سے ایسی معیشی پالیسیاں اختیار کرنے کا عمل سرزد ہوتا رہا ہے، جومقامی امتیازات سے نہ صرف باہرتھیں بلکہ متصادم بھی۔ اب اس نر گھاس کے بہتر استعمال پر تحقیقات ہوگی، جو ایک خوش آئندہ اقدام ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے اس بات کو خیال میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ گھاس کسی زمانے میں شہر سرینگر اور مضافات میں دودھارو مویشوں کے لئے بنیادی غذا کے طور پر استعمال ہوتی تھی اور ایک بہت بڑا طبقہ اسے گلی گلی کوچے کوچے اور مضافات میں جاکر فروخت کرکے اپنا روزگار کماتا تھا، لیکن نئی تہذیب اور تعمیر و ترقی کے طوفان میں یہ خصوصیت نہ صرف شہر میں ختم ہوگئی بلکہ مضافات میں بھی غائب ہوگئی ہے اور اب رفتہ رفتہ گائوں و دیہات میں بھی دودھ کی پیدوار کا عمل عوامی توجہ سے محروم ہو رہا ہے، جبکہ لفافہ بند اورڈبہ بند دودھ، جس کے بارے میں کئی بار عدلیہ نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے، سکۂ رائج الوقت بن گیا ہے۔ جھیل ڈل کی اس پیدوار، جو دودھ دینے والے میویشوں کو بنیادی غذا فراہم کیا کرتی تھی ، کو باہرسے منگوائے جانے والے اس کٹیل فیڈ سے متبادل کرکے نہ صرف مقامی معیشت کو کمزور کر دیا گیا ہے بلکہ بیرون ریاست کے تاجروں کی تجوریاں بھرنے کا سامان کیا گیا ۔ اس کےلئے کوئی ایک حکومت ذمہ دار نہیں ہے بلکہ کم و بیش سبھی حکومتوں نے معیشی سطح پر انہی خطوط پر کام کیا ہے، جو بالآخر من حیثیت القوم کشمیریوں کےلئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ اب جبکہ حکومت میں اس حوالے سے بیداری کی ایک رمق پیدا ہوئی ہے تو اس سارے عمل کے دوران اس بات کو ملحوظ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ محض ایک ایسا نیا پروجیکٹ نہ ہو جو صرف سرمائے کے صرفے کا سبب ثابت ہو بلکہ اسے مقامی معیشت کے ساتھ جوڑنے کو ترجیح دی جائے۔ جس کے لئے زراعت ، باغبانی اور مویشی پالن کے شعبوں کو نہ صرف خصوصیت کے ساتھ نظروں میں رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے نتائج کو ان شعبوں کے ساتھ مربوط کرکے بہترمعیشی مقاصد حاصل کرنے کی راہ متعین کرنی چاہئے۔