بلال فرقانی
سرینگر// شہر سرینگر میں جھیل ڈل، نگین اور دریائے جہلم کے پانیوں پر کھڑے ہاوس بوٹوںکیلئے نئی لائسنس کی اجرائی پر45سال قبل پابندی لگا گئی اور اب14برس بعد انکی تزئین و آرائش پر لگی پابندی میں نرمی کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔طویل عرصے سے پابندی کے اطلاق ی وجہ سے ہاوس بوٹ خستہ ہوتے گئے، سوراخ پیدا ہوئے، خوبصورتی ماند پڑ گئی، کچھ خاکستر ہوئے، کچھ ڈوب گئے اور کچھ رہنے کے قابل نہ رہے۔پچھلے 25برسوں میں 1500ہاوس بوٹ تینوں آبی پناہ گاہوں کے پانیوں کی سطح سے غائب ہوئے۔ جموں کشمیر ہائی کورٹ کی جانب سے دائر کی گئی عرضیوں پر14سال کے طویل عرصے کے بعد 29مئی کواہم فیصلہ میں پہلے مرحلے میں کچھ شرائط کیساتھ 19ہاوس بوٹوں کی ازسر نو تعمیر یا تزئین و آرائش کی اجازت دی گئی ہے۔
پابندی کیسے لگی؟
1982میں پہلی بار ڈل جھیل کو جاذب نظر بنانے اور اسکے حدود کو محفوظ کرنے کے علاوہ غیر قانونی طور پر پانیوں پر قبضہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔اُس وقت کی حکومت نے ہاوس بوٹوں کو لائسنس اجرا کرنے پر پابندی لگا دی اور جھیل ڈل و نگین کیلئے قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔لیکن حکومت نے جھیل ڈل و نگین ے علاوہ دریائے جہلم میں موجود ہاوس بوٹوں کی تزئین و آرائش پر کوئی ممانعت نہیں کی۔اس کے بعد1988 میں، فاروق عبداللہ کی قیادت والی انتظامیہ نے آلودگی کے خدشات کے پیش نظر میں نئے ہائوس بوٹ بنانے اور موجودہ ہاوس بوٹوں کی مرمت اور تزئین و آرائش پر پابندی لگا دی۔در اصل حکومت ڈل جھیل، نگین جھیل اور دریائے جہلم میں ہاوس بوٹوں کی تعداد کم کرنا چاہتی تھی۔ چنار باغ کے ساتھ یہ تینوں مقامات ہزاروں کی تعداد میں ہاوس بوٹوں کے گھر ہیں۔1990میںملی ٹینسی شروع ہونے کیساتھ ہی سیاحتی سیزن ٹھپ ہوا اور حکومتی پالیسی بھی نہیں رہی۔تاہم سرینگر کے ایک سماجی کارکن کی جانب سے جموں کشمیر ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی کہ حکومتی احکامات پر عملدر آمد نہیں کیا جارہا ہے اور جھیل ڈل کیساتھ پورے گرین بیلٹ میں ناجائز تجاوزات کی بھر مار ہورہی ہے اور ہائی کورٹ نے2009 میں، یہ پابندی دوبارہ لگائی۔عدالت عالیہ نے سخت احکامات دیئے کہ ڈل جھیل، و نگین کے علاوہ گرین بیلٹ قرار دیئے گئے علاقے میں کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوگی۔اُ س وقت ایک کمیٹی کی تشکیل ہوئی جس نے ڈل بچانے کیلئے ہائی کورٹ کو بتایا کہ ہائوس بوٹس سری نگر کے آبی آلودگی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔
عدالتی احکامات
یکم اکتوبر 2018کوچیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر نے ڈل جھیل کی صورتحال اور مقامی عہدیداروں کے رویے کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ سال 2002 سے عدالت کی طرف سے متعدد ہدایات جاری کرنے کے باوجود کچھ زیادہ نہیں بدلا ہے۔یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ایک ویجیلنس کمیٹی اور ایک مانیٹرنگ کمیٹی پہلے سے موجود ہے، بنچ نے حکم دیا کہ ان کمیٹیوں کی کوششوں کے نتائج سے ظاہر ہونے والی حدود کو دیکھتے ہوئے، بیرونی امور کی ایک کمیٹی کا ہونا ضروری ہے ۔اس کے بعد اس نے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی جس میں ای سریدھرن، ڈاکٹر نویدیتا پی ہرن، آئی اے ایس(ریٹائرڈ) سابق ایڈیشنل چیف سکریٹری، محکمہ داخلہ کیرالا اور معروف ماہر ماحولیات ایم سی مہتا شامل رہے۔ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد29نومبر 2019 میںجموں و کشمیر ہائی کورٹ نے ڈل جھیل میں ہائوس بوٹس، شکارا اور موٹر بوٹس کی رجسٹریشن کے حوالے سے حکومت سے مخصوص رہنما اصول طلب کیے ہیں۔20 نومبر کی اپنی رپورٹ میں ماہرین کی کمیٹی (CoE) کی طرف سے دی گئی تجاویز کا حوالہ دیتے ہوئے، چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس سنجیو کمار کی ایک ڈویژن بنچ نے وائس چیئرمین، LAWDA اور کمشنر سیکرٹری سیاحت کو ہدایت کی کہ وہ اپنی رپورٹ میں کمیٹی کی طرف سے دی گئی تجاویز پر غور کریں۔اس نے سیکرٹری سیاحت اور وائس چیئرمین LAWDA کو پینل کی طرف سے دی گئی تمام سفارشات پر غور و خوض کرنے کی ہدایت کی۔ اور باقاعدہ دستاویز تیار کر کے 24 دسمبر 2019 تک عدالت کے سامنے پیش کی جائے۔
حکومتی پالیسی
9اپریل 2020 میںلیفٹیننٹ گورنر جی سی مرمو کی صدارت میں منعقدہ انتظامی کونسل نے ڈل اور نگین جھیلوں میں ہائوس بوٹس کے رجسٹریشن/ تجدید/ آپریشن کے لیے پالیسی رہنما خطوط کو منظوری دی ۔انتظامی کونسل نے فیصلہ کیا کہ گائیڈ لائنز کو جھیلوں اور واٹر وائز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے بنائے گئے ڈل کے تحفظ کے مجموعی فریم ورک کے مطابق ہونا چاہیے، اس کے علاوہ پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے ایک مناسب قانونی فریم ورک بھی تشکیل دیا جائے گا۔ہائی کورٹ کی ہدایات اور ڈل/نگین جھیل پر ماہرین کی کمیٹی کی طرف سے دی گئی تجاویز کی تعمیل کرتے ہوئے حکومت نے یہ قدم دونوں جھیلوں کے تحفظ کے لیے اٹھایا ۔ رہنما خطوط میں سیاحوں کی آمد کو بڑھانے کے لیے ہائوس بوٹس کے استعمال کو محفوظ بنانے اور ہائوس بوٹس کے کام کے مجموعی ریگولیشن اور رجسٹریشن / تجدید کے عمل کی دیکھ بھال کے لیے ڈائریکٹر ٹورازم، کشمیر کی سربراہی میں مشاورتی کمیٹی کی تشکیل بھی کی گئی ۔پالیسی کے رہنما خطوط کے مطابق، ڈل/نگین جھیل میں کوئی نئی ہاس بوٹ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ گائیڈ لائنز میں سہولیات کی بنیاد پر ہائوس بوٹس کی درجہ بندی کا بھی بندوبست کیا گیا ۔
مرمت کی اجازت
22 مئی 2021 کو، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جموں اور کشمیر میں ہائوس بوٹس کو تزئین و آرائش سے گزرنے کی اجازت دینے کے لیے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔نئی پالیسی کے اطلاق اور ڈل کیلئے بنائی گئی اعلیٰ ماہرین کی کمیٹی کی سفارشات اور اسکے بعد جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے گائیڈ لائنز وضع کرنے بعدعدالت عالیہ نے نئے احکامات دیئے ہیں۔عدالت عالیہ کے سامنے 22ہائوس بوٹ مالکان کے کیس تھے، جنہیں یکجا کر کے کیس سنا گیا۔ہائی کورٹ نے پہلے مرحلے میں19 ہاوس بوٹوں کی نزئین و آرائش کی اجازت دی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی کی منظوری کے بعد ہاوس بوٹ مالکان ضروری مرمت کرسکتے ہیں۔ لیکن اسکے لئے تین شرائط پر عمل کرنے کا پابند بنایا۔عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ ماہرین کی کمیٹی کی روشنی میں جموں کشمیر انتظامیہ کمیٹی کی 2021سفارشات پر 3شرائط کیساتھ عملدر آمد کیا جائے۔گائیڈ لائنز کے مطابق ہائوس بوٹوں کی اونچائی، چوڑائی اور طول و عرض میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے۔ہائوس بوٹ کے آپریشنل ہونے سے پہلے بائیو ڈائجسٹر یا قانون کے ذریعہ منظور شدہ دیگر طریقہ کار کو نصب کیا جائے گا۔ہائوس بوٹس اپنی جگہوں کو تبدیل نہیں کریں گے۔
ہائوس بوٹ مالکان
عدالتی احکامات کے بعد ہاوس بوٹ مالکان نے راحت کی سانس لی ہے کیونکہ طویل عرصہ کے بعد جھیل ڈل میں 19 ہاوس بوٹوں کی مرمت ہوگی۔ہاوس بوٹ اونرس ایسو سی ایشن کے ترجمان محمد یعقوب دون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پانچ سال پہلے چار بڑے آبی ذخائر بشمول ڈل جھیل، نگین جھیل، چنار باغ اور دریائے جہلم میں 1500 ہاس بوٹس موجود تھیں، لیکن اس وقت صرف 930 موجود ہیں۔ کا کہنا ہے کہ سال در سال ہاوس بوٹوں کے نچلے حصوں کو مرمت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر برس سیاحتی سیزن شروع ہونے سے قبل ہاوس بوٹوں کے نچلے حصوں کی مرمت کی جاتی ہے تاکہ وہاں سے پانی داخل نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ چندبرسوں کے دوران10 ہاوس بوٹ غرقاب ہوئے اور15آگ کی نذر ہوگئے،کیونکہ انکے نچلے حصے کی مرمت سیمنٹ سے کی گئی تھی،اورنہ کہ مخصوص لکڑی سے،اور اسکا خمیازہ بھی مالکان کو بھگتنا پڑا۔انہوں نے کہاکہ 2010 سے اب تک 650 ہاس بوٹ بوسیدہ ہو چکے ہیں۔محمد یعقوب نے مزید کہا کہ ایسوسی ایشن کیساتھ فی الوقت 930 ہائوس بوٹ رجسٹر ہیں۔انکا کہنا ہے کہ1982، جب ہائوس بوٹ لائسنس پر پابندی عائد کی گئی، ہائوس بوٹوں کی کل تعداد3500تھی۔انجمن مے جنرل سیکریٹری عبدالرشید کولو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ طویل قانونی لڑائی کا ایک زینہ انہوں نے جیتا ہے کیونکہ یہ انسانی ہمدردی اور روزگار کا معاملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اگلے مرحلے میں وہ سبھی ہاوس بوٹوں کی مرمت کرانے کی اجازت حاصل کرسکتے ہیں جس کے لئے دروازہ کھل گیا ہے۔انکا مزید کہنا تھا کہ انہیں یہ بات کی بھی امید ہے کہ وہ لائسنس کی تجدید کی اجازت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے، ایسی توقع کررہے ہیں۔