ہرمکھ جیسے مشہور و معروف دیو قامت پہاڑ کے دامن میں صاف و شفاف پانی کا جھیل شیراسر اپنے گمنام حسن وجمال سے مزین سیر گاہ ہے جو صدیوں سے مناظر قدرت کا ایک بے مثال شاہکار ،دلفریب رعنائیوں کی ایک خوش کن آماہ ج گاہ، گونا گوں حسین پہنائیوں کا حامل تحفہ ٔ الٰہیہ ہے ۔تحصیل بانڈی پورہ کے علاقہ ارن سملر کے آخری حدوں پردلکش پہاڑ یوں کی آغوش میں پلنے والا یہ جھیل انسانی تغافل شعاری اور عدم توجہی کے سبب ماند پڑا ہوا ہے ۔اس کی اوٹ سے علاقہ کنگن شروع ہوتا ہے ۔اس جھیل کی لمبائی دو کلومیٹر سے کچھ زیادہ اور چوڑائی ایک کلومیٹر کے لگ بھگ ہے ۔جھیل کا نصف حصہ ہر مکھ پہاڑ سے ڈھکا ہوا ہے اور نصف حصے کا کنارہ ہموار سر سبزو شاداب عریض میدان گویا جھیل کو حسن کی خاموش مورت بناکر دل وجگر میں اپنی جگہ بناتا ہے اور فطرت کے پرستاروں کو کے مشاہدۂ حُسن کی دعوت ِشوق دیتے ہوئے گنگناتا ہے ؎
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
جھیل شیر اسر کا پانی نہ صرف صاف و شفاف ہے بلکہ بے حد یخ بستہ اور سرد ترین ہے کہ شاید ہی کسی آدم ذات کو اپنے ساتھ چھونے دیتا ہے کیونکہ سخت یخ ہونے کی سبب ہاتھ ایک دم ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔سرد و شفاف پانی کے اس جھیل ہی نالہ ارن کا منبع بنا ہوا ہے جو اپنی خستہ حالی کی ایک دل شکن داستان سناتا ہے ۔اس نالہ کی جانب 1947ء کے بعد سے کسی بھی حکومت نے ذرہ برابر توجہ نہیں دی، جب کہ بہتا ہوا نالہ ارن کبھی کبھار تیز گام طغیانیوں کے سبب سینکڑوں ایکڑ زرخیز اراضی کو دیو قامت چٹانوںاور پہاڑی ریت سے بھر کر ریگستان میں بدل دیتا رہا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ صورت حال علاقہ کے لئے قابل کاشت زرعی زمینوںکی کمی کا باعث بنتی رہی ہے ۔اگر اس نالہ کی واجب دیکھ ریکھ ہوئی ہوتی،اس سے جڑے مسائل پر متعلقہ محکمہ نے توجہ مرکوز کی ہوتی تو اسے ایک نہر کی شکل دے کر نہ صرف زرعی زمین کو اس کی لائی ہوئی تباہیوں سے بچایا جاسکتا تھابلکہ جھیل شیراسرکی سیاحتی اہمیت کو اور بھی دوبالا کیا جاسکتا تھا۔ اس حوالے سے نالہ ارن بھی خصوصی توجہ کا محتاج ہے مگر کوئی سنے تب !
جھیل شیراسر متنوع جڑی بوٹیوں سے لبریز ہیں جو مختلف ادویات میں استعمال ہوتی ہیں۔ان کی بدولت یہاں کی آب و ہوا متعدل اور صحت افزا ء ہے ۔یہاں کے گردو نواح میں رنگا رنگ پھولوں سے ایک خوش گوار فضا آنکھوں کے سامنے رقصاں ہوتی ہے۔ ان جڑی بوٹیوں اور گلپوش وادی کی معطر فضائوں کا کرشماتی جمال دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔اس جھیل کے پاس ہی اوپر کو دو اور چھوٹے چھوٹے جھیل واقع ہیں ،ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے بلکہ سچ میں بالکل سوکھ جانے سے ان کا شادابی ورعنائی بہت متاثر ہوئی ہے ۔جھیل کے ساتھ وسیع و عریض میدان اپنے سبزہ نسرین اورمخملی چادر فطرت شناسوں کی راہ تک رہی ہے ۔ اس کی جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ، خاص کر اس میدان کو چھوٹے باغیچوں اور پارکوں کی شکل دے کر نئے حسن کے ساتھ ایک نیا شباب دیا جاسکتا ہے ۔جھیل شیر اسر کی ایک دیکھنے والی چیز پتھر کی سیل ہے جو جھیل کے اندر دامن ہر مکھ کی جانب موجود ہے ۔جھیل شیر اسر ،مرغان ِسحر خیزکا مرغزار بھی ہے جہاں متنوع چرندو پرند اپنی طرح طرح کی خوش لحن بولیاں گوش سماعت میں ایک دل گداز سوز و ساز سے بھر دیتی ہیں ۔اول سحر کی کوئل کی کو کو بندۂ مومن کو شوقِ تہجد کا پیغام دیتی ہے اور طلوع صبح کے ساتھ ہی مختلف النوع مرغان ِ خوش الحان کی بولیاں گویا اپنے پالنہار کی حمد وثناء کرتے کرتے غافل انسانوں کو اپنے معبود برحق کا مطیع ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔جھیل شیر اسر بانڈی پورہ قصبے سے تقریباً بارہ کلومیٹر تک سڑک پختہ بنی ہوئی ہے ،سملر سے آگے پی ایم جی ایس وائی کے ذریعے میکڈم بچھی سڑک ہے ،سملر تک پختہ سڑک ہے، صرف پانچ چھ کلومیٹر لمبی سڑک آگے سے تعمیر کرنی مطلوب ہے ،اس سے یہ سڑک نالہ ارن کے کنارے کنارے برابر جھیل شیر اسر تک پہنچ سکتی ہے ۔بانڈی پورہ سے آگے ماڈر،کونن،ارن،سملر ، چونتی مولا ،زبن ،کوڑارہ پائین اور کوڑارہ بالا آتا ہے ۔ا س سے آگے بآسانی پیدل راستہ جاتا ہے ۔اکثر لوگوں کا مشورہ ہے کہ اس سڑک کو اگر آگے جھیل تک لے لیا جاتا تو یہاں سیاحوں کی آمدورفت کافی بڑھ جاتی ۔کشمیر کے لوگ اکثر گرمیوں میں گھوڑوں پر سوار دیگر ضروریات ِزندگی سمیت اس طرف رخ کرتے ہیں اور بڑا لطف اُٹھاکر واپس جاتے ہیں ۔کوڑارہ بالا میں ایک مشہور زیارت گاہ ہے جہاں تک پختہ سڑک بنی ہوئی ہے ،وہاں سے آگے سڑک کی اشد ضرورت ہے ۔جھیل شیر اسر کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً گیارہ ہزار فٹ ہے۔ یہ جگہ Skyingکے لئے بھی بڑی مفید ہے۔
اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آتا ہے ۔ یہ 1952ء کی بات ہے کہ راقم بانڈی پورہ ہائی سکول میں نویں جماعت میں پرھتا تھا ،ہمارے چند اساتذہ صاحبان جن میں مرحوم عبدالقدیر فاضلی گامرو ،مرحوم حبیب اللہ وانی نادی ہل ،مرحوم پنڈت کینتھ کول ڈھیمبی سرینگر جوکہ اس وقت سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔انہوں نے چند لڑکوں کے ساتھ چل کر جھیل شیر اسر دیکھنے کا من بنایا ۔سات آٹھ لڑکے جو سملر اور کوڑارہ سے تھے اور کشمیری لڑکوں میں راقم بھی شامل تھا۔کچھ ابتدائی تیاری کرکے دوسرے تیسرے دن یہ قافلہ نکل پڑا ۔ کھانے پینے کا ضروری سامان لڑکوں ن کندھے پراٹھایا اور خوشی خوشی چل دئے ، پہلی رات ہم موضع کوڑارہ میں نمبردار کے گھر میں ٹھہرے کیونکہ سفر پیدل تھا ۔ دوسرے روز علی الصبح سفر شروع کیا اور بارہ بجے دوپہر منہ مرگی پہنچے جو کہ ایک بہت بڑی چراگاہ ہے ۔یہاں ڈیرہ جما کر کھانے پینے کا بندوبست کیا گیا او ر تقریباً تین بجے شیر اسر کی طرف چل پڑے ۔بیچ میں ہیڈماسٹر صاحب نے مختلف جڑی بوٹیوں کی پہچان کروائی ۔اس وقت پھول پودے پورے جوبن پر تھے۔ قافلہ وسیع عریض چراگاہ کے بیچ سے گزرتے گزرتے جھیل شیر اسر تک پہنچا ۔ یہاںپانی کافی یخ بستہ تھا ،ہم نے مشکل سے ہاتھ دھوئے اور تھوڑا تھوڑا پانی پی لیا ۔ ہمارے مسلمان اساتذہ صاحبان نے وضو کرکے نماز ادا کی ۔اتنے میں ہیڈماسٹر صاحب نے کپڑے اتارکر جھیل میں ڈبکی ماری اور تیرتے تیرتے جھیل کے وسط تک چل پڑے ۔ہم کافی پریشان ہوکر رونے لگے کہ اتنے سرد پانی میں ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کس طرح سے واپس آئیں گے ۔مسلمان اساتذہ بھی افسو س کرنے لگے اور پچھتانے لگے کہ اللہ جانے اب کیا ہوگااور ہم پر کیا گزرے گی ۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے بیچ میں پہنچ کر ڈبکی لگائی تو کچھ منٹ نظر ہی نہ آئے ۔ ہم سخت واویلا کرتے رہے ۔آخر اللہ تعالیٰ کا کرنا کیا تھا کہ چند منٹ بعد وہ پھر سطح آب پر نمودار ہوکر مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلاتے رہے ۔واپس آکر بتا دیا کہ مجھے کہیں نچلی تہہ تک کا پتہ ہی نہ چلا ،یعنی جھیل کی تہہ ہی نہ ملی ۔ہم خوشی خوشی سے پھولے نہ سمائے کہ ہیڈماسٹر جی واپس آگئے ۔اساتذہ بھی خوش ہوکر واپسی کی تیاری کرنے لگے ۔رات بھر منہ مرگی میں ایک خالی کوٹھے میں رہے ۔رات گزار کر دوسرے دن واپس چلے آئے ۔بہر حال جھیل شیر اسر کو اگر سیاحت کے نقشے پر لایا جائے تواس کی سیاحت کا فیضان دور دور تک پھیل سکتا ہے اور حکومت و عوام کو اس سے کافی آمدنی حاصل ہوسکتی ہے ۔اس مقام کو سیرگاہ کی صورت دینے سے نہ صرف علاقہ بھر میں اقتصادی بدحالی پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ہزاروں بے روز گار افراد کو روز گار کے مواقع بھی فراہم ہونے کے امکانات روشن ہیں ۔ تیس چالیس سال پہلے یہاں سیاحوں کی کافی تعداد گھوڑوں پر سامانِ زیست لاد کر سیر و تفریح کے لئے آیا جایا کرتی تھی جس سے مزدوروں کو بھی روزگار ملتا تھا ۔اس جھیل کے دوسرے طرف جھیل گنگا بل ہے جو ایک مشہور جھیل ہے اورجس کا بھرپور نظارہ گنڈولہ کے ذریعے ہوسکتا ہے ۔ آخر پر عرضداشت یہ ہے کہ جھیل شیر اسر واقعی ایک منفرد وممتاز صحت افزاء مقام ہونے کے ناطے حکومت وقت کی توجہ کی محتاج ہے ۔حکومت وقت سے خاص کر محکمہ سیاحت کے ذمہ داران سے مود بانہ گزارش ہے کہ اس گمنام سیاحتی مقام کو جتنی جلد ہوسکے اپنی کرم فرما توجہات سے نوازیں ۔ یہ کارخیر عوامی مفاد کا منافع بخش کام ثابت ہوگا ۔ہم یہی توقع رکھتے ہیں کہ حکومت وقت اس جھیل کے سجنے سنوارنے کے مفید کام میں مزید تاخیر نہیں کر ے گی۔