بلا شبہ سچ بولنا ہی آدمیت کی پہچان ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سچ کا بول بالا اور جھوٹے کا منہ کالا ۔ جھوٹ تمام گناہوں کی ماں ہے ،اس لئے جھوٹ کواُم البرائی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں،اگرچہ جھوٹ بولنا سچی بات کہنے سے زیادہ مشکل کام ہےپھر بھی تمام عالم کی بُرائیوں میں جھوٹ عام طور پر نہایت کثرت کے ساتھ رائج ہےاور نتیجتاً دنیا بھر میں جھوٹ ہی تمام فسادات کی جڑ ہے۔ظاہر ہے کہ جھوٹا آدمی بے توقیر اور بے اعتبار ہوتا ہے،جھوٹ میں مروت نہیں ہوتی اور جھوٹ سے سچ بات کا اعتبار بھی جاتا رہتا ہے۔اسی لئےسچ بولنا اور حق بات کہنا جتنی بڑی سعادت ہے اتنی ہی بڑی آزمائش بھی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جو چیز بہت کم ہے ،وہ سچائی ہے۔گویا سچائی میں اگرچہ خوف ہے مگر باعثِ نجات ہے،اسی لئے سچےا نسان ذات پات ،اونچ نیچ اور امیر غریب کے فرق کو نہیں مانتے ہیںاور کسی سے بے جا نفرت بھی نہیں کرتے ہیں۔دورِ حاضر میں جھوٹوں کا سب سے بڑا گروہ سیاستدانوں کا ہے جو عوام سے انتخابات میں ووٹ مانگتے وقت سنہرے مستقبل کی نوید سناتے ہیں مگر کامیاب ہونے کے بعد اُن کو کچھ بھی یاد نہیں ہوتا بلکہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے فسادات پھیلاتے ہیں اور ہر بات لاگ لپیٹ کر کرتے رہتے ہیں۔چنانچہ دور جدید میں Digital technologies کے ایجاد نے جھوٹ بولنے کو ایک ہُنر بنا دیا ہے ۔ سوشل میڈیا اور AI کی ہنرمندی جھوٹ کی ایک منڈی بن چکی ہے اور ا س ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ہر کوئی پیسہ کمانے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے ۔ حالیہ ہند و پاک لڑائی میں دونوں اطراف کی سرکاری میڈیا ز اور زیادہ تر یو ٹیوبرز نے جتنا جھوٹ بولا ،اُسے تو شیطان بھی شرمسار ہوکر رہ گیا بلکہ اُن کے جھوٹے پروپیگنڈے نے تو دجال کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہوگا کہ وہ دنیا والوں پر ظاہر ہو کہ نہیں، اس کے بارے میں تو یہی مشہور ہے کہ وہ ایسا جھوٹ بولے گا کہ جنت کو جہنم اور جہنم کو جنت بنا کر پیش کرے گا ۔ دنیا جانتی ہے کہ پیشاب اور پاخانہ ایک غلاظت ہے مگر بعض سادھوؤں اور سنتوں نے لوگوں سے ایسا جھوٹ بولا کہ بعض لوگ گائے کے پیشاب اور گوبر پینے اور کھانے میں بھی فخر محسوس کرنے لگے۔اسی طرح عالمی استعماری طاقتوں امریکہ اور برطانیہ نے جھوٹ کی بنیاد پر عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور لاکھوں انسانوں کو سفاکانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔جبکہ سو فیصدجھوٹ یہ تھاکہ اِن ممالک کے پاس اجتماعی ہلاکتوں کے ایٹمی اور حیاتیاتی، کیمیائی اسلحہ ہیں ،اقوام متحدہ کے ذریعے ان پر پابندیاں عائد کی گئیں اور انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ ڈالا،حالانکہ یہ ممالک خود اس طرح کے ہزاروں اسلحہ خود رکھتے ہیں۔جھوٹ کی بنیاد پرامریکہ نے تمام ممالک کے ساتھ مل کر 20سال تک افغانستان میں تباہی مچادی اور غارت گری کرتا رہا ۔اسی جھوٹےطرز عمل کے تحت اسرائیل ایک طویل عرصے سے فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو روندتا چلا آرہا ہےاور اب ایران پر بھی جھوٹ کاہی نسخہ آزمایا جارہا ہے۔بغور جائزہ لیا جائے توجدیدٹیکنالوجی نے زندگی کے مقصد کو ہی تبدیل کر دیا ہے ،لوگ مصنوعی ذہانت کے ٹیکنالوجی کے ذریعے جنت اور جہنم کے مناظر کو اپنے موبائل فون اور کمپیوٹر اسکرین پر دیکھ لیتے ہیں، اس فن نے آخرت کے بنیادی عقائد کو مندمل کر دیا ہے ۔ جھوٹ بولنے والے دانشوروں نے یہ کہا تھا کہ جھوٹ اس تواتر سے بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھتے لگیں اور آج یہی کچھ نظر آ رہا ہے ۔گویاآج اس جھوٹ کے کلچر نے پورےعالم ِانسانیت کو آلودہ کر دیا ہے اور آدمی کا آدمی سے اعتبار اُٹھ چکا ہے ۔ میاں بیوی سے ، بیوی میاں سے، بیٹا باپ سے ، شاگرد استاد سے ، دکاندار خریدار سے اور حکمراں اپنی عوام سے جھوٹ پر جھوٹ بول رہا ہے۔افسوس ناک مرحلہ یہ بھی ہےکہ اکثر لوگ اس جھوٹ کو اپنے گھروں میں ہی فروغ دے رہے ہیں، جب کوئی اُن کے گھر پر ملنے آتا ہے اور وہ ملنا نہیں چاہتے ہیں تو وہ اپنے چھوٹے بچوںسے یہ کہلوا دیتے ہیں کہ جاؤ کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیںاور اس طرح اپنے بچوں کو جھوٹ کا ہُنر سکھا رہے ہیں۔