Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! جھوٹی پَرتیں۔اصلیت میں عافیت ہے فکرو ادراک

Towseef
Last updated: June 3, 2024 11:13 pm
Towseef
Share
11 Min Read
SHARE

سید مصطفیٰ احمد ۔ بڈگام

جہاں بھی ہم نظر دوڑاتے ہیں، ہر انسان کی اصلی پرت کے اوپرپَرتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ کسی نے مذہب کی پرت تو کسی نے ذات کی پرت چڑھا کر رکھی ہے۔ کوئی نظریاتی پرت کا پاسباں ہے، تو کوئی قوم پرستی کابُت اپنے دل میں سجائے ہوئے بیٹھا ہے۔ کوئی خوبصورتی کے پرتوں کے پیچھے رواں دواں ہے تو کوئی بدصورتی کی غلیظ تہوں میں کھویا ہوا ہے۔ الغرض اس کارخانۂ دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو مصنوعی پرتوں سے لپیٹا ہوا نہ ہو۔ اس ضمن میں Osho Rajneesh کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں جو انسان اپنی اصلی شکل میں دکھائی دیتا ہے،اُسے تو پھر کسی اور پرت کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔ وہ خالص ہوجاتا ہے، پھر نہ وہ چھوٹا بڑا، گورا کالا ، ہندو مسلمان، برہمن دلِت وغیرہ ،غرض کچھ بھی نہیں رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو انسان اپنی اصلی حالت پر برقرار نہیں رہتا ہے، وہ ہر کچھ ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایسے انسان کو چہروں پر چہرے لگانے پڑتے ہیں۔ یہاں پر Gabriel Okara کی بات معقول لگتی ہے کہ آج کی اس مادیت پرست دنیا میں ہر انسان چہرےپر چہرا لگا کر اصل شخصیت سے غافل ہوگیا ہے، اس بات کی تصدیق سائنس نے بھی کی ہے۔ جب سارے انسان پرتوں کے عادی ہوجاتے ہیں تو اُنہیںچہروں پر چہرے لگانے یعنی پرتیں چڑھانے کے دوران گذر جانے والے وقفے میں پیدا ہونے حالات تک کا بھی ادراک نہیں رہتا ہے کہ وہ کچھ سے کچھ دکھائی دینےلگے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مصنوعی تہوں کا اتنا عام چلن ہوگیا ہوتا ہے کہ یاد ہی نہیں رہتا ہے کہ کس جگہ پر اور کتنی مدت تک کونسا چہرہ لگا کر لوگوں کے سامنے اپنی آپ کو پارسا جتاتا چلا آرہا ہے۔

انسان کی بناوٹ متضاد چیزوں کا سنگم ہے۔ جتنی اچھائیاں انسان میں ودیعت کی گئی ہیں، اتنی ہی بُرائیوں کی بھی مقدار رکھی گئی ہیں، لیکن ایسے کون سے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان جھوٹی پرتوں کا اتنا شیدائی ہوجاتا ہے کہ اَنّانیت کے بھنور میں conditioning کی ایسی بُری عادت پڑتی ہے کہ اصلیت کہیں دور لیکن مصنوعی دُنیا کی دل کو موہ لینے والی عارضی چمک دمک دائمی رونق کو پھیکا کرکے دیتی ہے۔ کچھ وجوہات کا ذکر مندرجہ ذیل سطروں میں کیا جارہا ہے۔

پہلا ہے انانیت :اس مرض نے بہت سارے پارسا لوگوں کی ناؤ کو ڈبویا ہے۔ دنیا کے بنائے ہوئے اصولوں کے رنگوں میں رنگ جانے کی خاطر ایک انسان اتنے رنگوں میں رنگ جاتا ہے کہ وہ آخرکار اَنّا پرستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب ایک انسان دنیا کے بنائے ہوئے اصولوں کو اَزلی سچ مان لیتا ہے تو اس پر جھوٹوں پرتوں کا چڑھنا یقینی ہے۔ اس طرح سے یہ انسان آہستہ آہستہ فریبی دُنیا کا باشندہ بن کر کسی بھی ایسی چیز کو برداشت نہیں کرپاتا ہے جو اس کی خیالی دنیا کے منافی ہے۔ اس طرح مصنوعی پرتیں اتنی پیاری لگتی ہیں کہ اب یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں یہ نازک پرتیں کھو نہ جائیں اور یہ دنیا مجھے نکما نہ سمجھ بیٹھے۔ اس کا آخری نتیجہ جھوٹی تسلیاں اور خود فریبی کی منحوس شکلوں میں نکل کر آتا ہے۔

دوسرا ہے زندگی کے متعلق محدود نظریہ : جس انسان کو آج تک یہ بات سمجھ میں نہ آئی ہوں کہ میری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے، تو ایسے انسان کا جینا اور مرنا ایک جیسا ہے۔ رات اور دن کے آنے جانے میں قدرت کے حسین مگر باریک راز چھپے ہیں۔ اگر قدرت ہمارے سامنے اپنے اصلی روپ میں جلوہ گر ہے تو ایک انسان کے لئے ایسی کونسی مجبوری آن پڑتی ہے کہ وہ پرتوں اور نکلی چہروں کے مکھوٹے پہن کر اپنی اندرونی اور باہر کی گند کو دنیا کی مشک سے کچھ وقت کے لئے معطر کرتا ہے۔ اگر ہمیں زندگی حقیقی معنوں میں سمجھ میں آئی ہوتی، تو خود فریبی کی پرتیں چڑھانے کی کوئی مجبوری نہیں پڑتی۔ اپنی اصلی حالت پر رہ کر اس دنیا کے امتحان سے پاس ہوکر ہم امر ہوجاتے۔ اس دنیا کی میں سرخ رو ہوتے اور موت کے بعد کی دنیا میں بھی سکون اور اطمینان کے لمحات میسر ہوتے۔
تیسرا ہے دوسروں کی خاطر جینا : دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے کہ ایک انسان اپنی زندگی میں طوفانوں کو خود دعوت دیتا ہے تاکہ دوسروں کی عارضی خوشیوں میں کوئی خلل نہ پڑے۔ کتنا بدنصیب وہ انسان ہے جو دوسروں کے خاطر اپنی اصلیت کو داؤ پر لگاتا ہے اور پھر یہ امید لگائے ہوئے بیٹھتا ہے کہ میرا بیڑا پار ہوگا۔ اس قسم کی سوچ پر افسوس اور ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج تک ہم نے کچھ ایسا ہی کیاہے۔ دوسروں کو خوش کرتے کرتے ہم کب غم کی وادیوں میں چلے گئے ،اس کا خیال بھی ہم کو نہ رہا۔

اب ہم کچھ اثرات کی بات کرتے ہیں جو جھوٹی پرتیں چڑھانے کی وجہ سے ہماری زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا ہے سکون قلب کا ختم ہونا : جھوٹی پرتوں کی وجہ سے ایک انسان کی زندگی میں سے اندر اور باہر دونوں قسم کا سکون ختم ہوجاتا ہے۔ جب ایک انسان کو صرف یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کیسے وہ دنیا میں سب سے اچھا دِکھے اور کیسے لوگ اس پر تعریفوں کے پھول نچھاور کریں تو اس انسان کی زندگی سے سکون کا ختم ہونا ظاہر سی بات ہے۔ پرتوں کا مسلسل اُتارنا اور چڑھانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے طاقت کے علاوہ بے ہوشی بھی بہت ضروری ہے۔ دوسرا ہے زندگی کا ضائع ہونا : اصلیت سے دور بھاگ کر خود فریبی کے پرتوں کا غلام بننے کا نتیجہ زندگی ضائع ہونے کی شکل میں نکل کر آتا ہے۔ اس خوبصورت زندگی کا مقصد کچھ ٹھوس اور پائیدار کرنے میں مضمر تھا، لیکن اپنی بےحسی اور جہالت کی وجہ سے یہ انمول زندگی ان بے بنیاد چیزوں کی ٹوہ میں صرف ہوگئی کہ پچھتاوے کے علاوہ اور کوئی بھی چارہ نہیں ہے۔ جب اس زندگی کے بارے میں خدا ہم سے سوالات کے ڈھیر لگائے گا، اس وقت ہماری زبان پر تالا چڑھا ہوگا اور وہی وقت ہماری بے غیرتی کا کھلا ثبوت ہوگا۔ تیسرا ہے خالق سے دوری : اپنے آپ سے بیگانہ ہونے والا شخص کبھی بھی ساحل تک پہنچنے کی ہمت نہیں کرسکتا ہے اور جب ساحل تک پہنچنے کی سکت ایک انسان میں موجود ہی نہ ہوں تو خدا تک پہنچنے کی ہمت کیونکر پیدا ہوگی۔ جو انسان اپنی اصلی حالت میں خود کے سامنے کھڑا ہونے کی حالت میں نہ ہو، وہ اللہ کے سامنے کیسے کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس انسان کی زندگی میں ہر روز نہ تھمنے والے طوفان تباہی کے بازار گرم کرتے رہیں گے۔ ہر آن آنسوؤں سے آنکھوں کو تر کرنا پڑے گااور خود سے ہی نفرت ہونے لگے گی۔ چوتھا اور آخری ہے سماج کی خرابی : اب جب کہ ہر طرف مصنوعی لوگ گھوم پھر رہے ہیں تو اس کا سیدھا اثر سماج کی تباہی میں نکل کر آئے گا۔ جو سماج cosmopolitan ہونے کے باوجوداپنے اندر پائے جانے افراد کو اپنے کام سے کام رکھنے کی زور دار تلقین کرتا رہتا ہے، وہ سماج کبھی بھی پستی کا شکار نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس جس سماج میں دوسروں کو خوش رکھنے اور اپنی اَنا کو پورا کرنے کے زہریلے کیڑے ہوں، وہاں تباہی کا چار سو ہونا عام سی بات ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ انسان اپنی اصلی حالت پر آنے کی بھرپور کوشش کرے، ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی کے مصداق ہم سب کو انفرادی سطح پر تبدیلی لانی کی فکر کرنی چاہیے۔ جیسے کہ مندرجہ بالا سطروں میں Osho کی بات ہوئی تھی۔ وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ جب تک نہ ہم، ہم ہوجاتے ہیں، تب تک اس دنیا میں سکون اور آرام کی باتیں کرنا دیوانوں کے خواب کے مانند ہیں۔ انسان کو جاگنا پڑے گا، مکھوٹے پہن کر زیادہ دیر تر سچ کی پردہ داری نہیں کی جاسکتی ہے۔ سچ سورج ہے، گھنے بادلوں کے بیچ سے اپنی کرنوں سے دنیا میں روشنی بکھیر دے گا۔ اصلیت کا سورج ہر روز اُگتا ہے۔ ہمارے مکھوٹے گرتے جاتے ہیں لیکن ہم وہ عجیب مخلوق ہیں جو ان پَرتوں کو دل سے لگا کر بیٹھے ہیں کہ کہیں میری حقیقت آشکارا نہ ہوجائے۔ جو انسان جیسا ہے اگر وہ اُسی شکل میں لوگوں کے یہاں جانا اور پہچانا جاتا ہے، یہ اس سے بہتر ہے کہ جسم کے اوپر مصنوعی تہوں کے ڈھیر لگے ہوں۔ باتوں میں مصنوعیت، چلنے میں مصنوعیت اور زندگی کے ہر شعبے میں مصنوعیت سے بہتر ہے کہ اصلی حالت میں ہی انسان دکھائی پڑے ،چاہے پھر وہ خونخوار بھیڑیا ہی کیوں نہ ہو۔ تو آئیے ہم اپنی اصلی اصلاح کی فکر کریںاور اس زندگی کا حقیقی حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
بالائی علاقوں میں بارشوں سے بڑے پیمانے پرنقصانات | 300بھیڑ بکریاں ہلاک، متعدد نالوں میں پانی کی سطح میں اضافہ
خطہ چناب
بانہال کے شعلہ بیان عالم دین محمد یعقوب ربانی 64 سال کی عمر میں فوت فضاء سوگوار،مولانا رحمت اللہ قاسمی کی پیشوائی میں سینکڑوں لوگوں کی نماز جنازہ میں شرکت
خطہ چناب
ناشری ٹنل کے آر پار ہلکی بارشوں کے باوجود قومی شاہراہ پر ٹریفک جاری
خطہ چناب
امرناتھ یاتریوں کی بس کیلا موڑ ٹنل کے اندر حادثے کا شکار | چار یاتری معمولی زخمی ،ز خمیوں کی حالت مستحکم:حکام
خطہ چناب

Related

کالممضامین

وزیراعظم مودی کا دورۂ مالدیپ | ہند۔مالدیپ دوطرفہ تعلقات کا تاریخی پس منظر

July 22, 2025
کالممضامین

کشمیرکی دستکاریاں اور ہنرمند کاریگراں | کیا پشمینہ کی نرم دھاگے اُمید بُن رہے ہیں؟ صنعت

July 22, 2025
کالممضامین

کھیرے اور لوکی۔ بہتر پیداوار کیسے حاصل کریں؟

July 22, 2025
کالممضامین

! آن لائن گیمبلِنگ ایپس تفریح نہیں، تباہی ہے شارٹ کٹ سے کمائی کا خواب، دائمی نقصان کا انجام

July 22, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?