کسی زمانے میں کسی ملک میں ایک لکڑہارا رہتا تھا ،وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹھ کباڑ لاکر بازار میں فروخت کرکے اپنی اور اپنی فیملی کی روزی روٹی کے سادھن جُٹاتا تھا ۔اُس کے پاس سواری اور لکڑیاں ڈھونے کے لئے ایک گدھا تھا ۔ایک روز جب لکڑہار ے نے لکڑیاں بیچ ڈالیں تو خلاف ِمعمول ایک عجیب ہانک لگائی کہ میں اپنا گدھا بیچنا چاہتا ہوں مگر اس کی قیمت پانچ سو روپے ہے ۔وقت بڑا سادگی اور سستے کا تھا، اس لئے راہ چلتے لوگوں اور دکاندار وں نے گدھے کی قیمت سنی تو حیران رہ گئے کیونکہ اگر گدھے کی مہنگی قیمت بھی لگائی جاتی تو پانچ چھ روپے سے زیادہ نہ بنتی ۔اس لئے آس پڑوس کے لوگ اور اُس کو جاننے والے دوکاندار بھی اُس سے پوچھنے لگے :آخر ایسا بھی کیا ہے گدھے میں ، جو اس کی اتنی زیادہ قیمت لگائی جارہی ہے؟لکڑ ہارا جواب میں بڑی سنجیدگی سے بولا کہ گدھا میرا ہے ،قیمت میں لگارہا ہوں اور وقت بھی میرا بلکہ زبان بھی میری ہے ۔کوئی اسے خریدے یا نہ خریدے ،میں ہانک لگاتا جائوں گا۔
اتفاق سے اسی روز ملک کے بادشاہ کو کہیں جانے کے لئے اسی بازار سے گذرنا تھا ، اُس نے ایک جگہ جب لوگوں کی بھیڑ دیکھی تو اپنے سپاہی معاملے کی تحقیق کے لئے دوڑادئے۔واپسی پر انہوں نے بادشاہ کے روبرو حقیقت حال کی عرض کی تو بادشاہ بھی سن کر چکرا گیا ۔ اُس نے فوراًحکم دیا کہ شخص ِمذکورہ کو بادشاہ کے حضور پیش کیا جائے۔حکم کی تعمیل میں کوئی وقت نہیں لگا ۔گدھے کا مالک گدھے کے ہمراہ بادشاہ کے سامنے دست بستہ حاضر ہوا ۔بادشاہ نے جب لکڑ ہار ے سے گدھے کی بے انتہا قیمت لگانے کی وجہ پوچھی تو شخص مذکورنے راز کھولا۔عرض کرنے لگا :حضوراس گدھے میں یہ خصوصیت ہے کہ جو اس پر سوار ہوتا ہے اُس کو دائیں طرف سے فلاں مقام مقدسہ اور بائیں جانب سے فلاں مقام ِمقدسہ نظر آتا ہے ۔حضور ،مجھے پاگل کتے نے نہیں کاٹا کہ اس معمولی سے جانور کی اتنی قیمت کیسے لگاتا اگر یہ وصف اس میں نہ ہوتا ۔بادشاہ نے کہاٹھیک ہے ،یہ گدھا ہم نے خریدا مگر شرط یہ ہے کہ تمہارا دعویٰ اگر غلط ثابت ہوا تو صفائی کے لئے مزید کوئی وقت دئے بغیر تمہارا سر دھڑ سے الگ کردیا جائے گا۔
باہمی قول وقرار کے بعد بادشاہ نے اولاًگدھے پر سوار ہونے کی خواہش ظاہر کی ۔ جونہی بادشاہ نے ایک پیر رکاب میں ڈالا ،لکڑہار ا ہاتھ جو ڑ کر آگے آیا اور کچھ پوشیدگی میں عرض کرنے کی اجازت چاہی۔بادشاہ سے اجازت ملنے پر لکڑہارے نے کہا :حضور !گستاخی کی معافی چاہتا ہوں ،گدھے پر سوار ہوکر اُسی شخص کو شرف زیارت ہوگا جو باایمان ہو،سچ بولتا ہو،حق تلفی نہ کرتا ہو،ظلم و زیادتی سے پرہیز کرتا ہواور حقوق العباد کا پاس و لحاظ رکھتا ہو۔بادشاہ نے آنکھ کی ایک جھپک میں اپنے باطن کو ٹٹولا اور سوچا کہ گدھے پر پہلے وزیر کو سوار کردینا چاہیے،دیکھتے ہیں کہ اس کا ردِعمل اور جواب کیا ہوگا ۔وزیر کو گدھے پر بیٹھنے کا حکم ہوا ۔وہ بیٹھا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر خوشی اور سرشاری کا موڈ بنایا ۔اب ظاہر ہے کہ اگر واقعی کوئی دیندار ،باایمان اور خداترس اللہ کا نیک بندہ ہوتا تو دوسری بات تھی مگر برسر اقتدار حکومت کے کارندوں سے تو کوئی توقع رکھنا تو دور کی بات ہے ۔اس لئے وزیر کو کیا خاک’’ زیارت‘‘ نصیب ہوتی مگر اُس نے سوچا کہ اگر وہ سچ بولتا ہے تو وہ ظالم ،جابر اور بے ایمان قرار پاتا ہے اور اُس کا اصلی چہرہ سامنے آتا ہے ۔اس لئے بھرم قائم رکھنے کے لئے اور اپنی عزت برقرار رکھنے کے لئے اُس نے جھوٹی خوشی اور جعلی مسرت کا سہارا لے کر ’’زیارت‘‘ سے مشرف ہونے کا جھوٹا اقرار کرلیا اور اُس کے بعد جب بادشاہ گدھے پر سوار ہوکر نیچے اُترا تو اُس نے نہ صرف گدھے والے کو رقم ادا کرنے کا حکم دیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اُس کو شاہی دربار میں عزت کے ساتھ ایک اونچی مسند پربٹھایا جائے۔
وزیر و بادشاہ دو نوںنے نہ کچھ دیکھا چہ جائیکہ ’’زیارت‘‘ سے سرفراز ہوتے ،اس لئے اگر وہ سچ بولتے تو ظالم و بے ایمان قرار پاتے جو وہ تھے ہی۔اس لئے مفت میں شہرت ملنے کی وجہ سے اپنے عزت و وقار کی خاطر،اپنی پوزیشن ،کرسی اور اقتدار کی خاطر انہوں نے غلط کہا ،جھوٹ بولا اور اپنا بھرم قائم رکھا اور یہی دوغلا پن ،یہی جھوٹا ملمع ،یہی بھرم ۔۔۔۔۔وادی کے بیشتر مسلمان باپ قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ایک باپ سے جب اُس کی زندگی ،خانگی معاملات اور بچوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ انتہائی خوشی ،مسرت اور اطمینان کا اظہار کرتا ہے مگر خوب معلوم ہونا چاہئے کہ وہ صرف ایک جھوٹا بھرم قائم رکھنے کے لئے ایسا کرتا ہے ۔ورنہ اُس کا دل رو رہا ہوتا ہے ،اُس کا ضمیر اُس کو ملامت کرتا ہوتا ہے ،اُس کی روح اُس کو کچھوکے لگاتی رہتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کو اپنے گناہوں کی سزا مل رہی ہے ۔اُس نے بیٹی کوجو موبائیل فون خرید کر دیا ہے وہ اُس فون کو کیسے اور کیونکر استعمال کرتی ہے ۔اُس کو معلوم ہے کہ اُس کی بیٹی اُس کے سامنے اُس لباس میں،اُس حلیے میںاُس کے سامنے آتی ہے جس کو صریحاً بے حیائی کہا جائے گا ۔اُس کو معلوم ہے اُس کی بیٹی سہیلی کے گھر ایک دن ،دو دن ،کبھی کبھی اُس سے زیادہ دن ٹھہرتی ہے مگر باپ نہ سہیلی کو جان رہا ہوتا ہے اور نہ اُس کے گھر کو ،نہ اُس کے گھریلو ماحول کو ۔باپ کو معلوم ہے اُس کا بیٹا فون پر رات رات بھر باتیں کرتا رہتا ہے مگر وہ اُس سے پوچھ تاچھ نہیں کرتا ۔وہ اپنے بیٹے کے بالوں کے سٹائل کو دیکھتا ہے ،پہناوے کو دیکھتا ہے ،کلائیوں کو دیکھتا ہے ،کانوں کی مندریوں کو دیکھتا ہے اور ٹانگوں کے ساتھ چمٹے ایک عجیب و غریب پہناوے کو دیکھتا ہے۔یہ ساری خرافات گرچہ اُس کی ہی کمائی کی دین ہوتی ہے مگر یہ باپ اُس لڑکے کو بلکہ بچوں کو کبھی نہیں پوچھتا کہ آخر وہ کس مسلک ،کس مشرب،کس تہذیب اور کس تمدن کی ترجمانی کرتے ہیں؟وہ آنے والے دنوں میں جب وہ خود برسر اقتدار ہوں گے کس کلچر اور کس سماج کی نمائندگی کریں گے ؟بچے کو آزاد چھوڑنا کوئی بُرائی نہیں مگر اُس پر نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ہم اسلامی نام کے ساتھ دنیا میں بود و باش رکھتے ہیں ،اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آقا ئے نامدارؐنے بچوں کو اُن کی عمرو استعداد کے مطابق بھروسہ کیا ،کام بھی تفویض کیا مگرساتھ میں اُن پر کڑی نظر بھی رکھی ۔اتنا ہی نہیں بلکہ ایک بار ایک باپ نے اپنے بیٹے کے بے وطیرہ طریقے سے بال مونڈھ لئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس باپ کو تنبیہ کی کہ بالوں کی تراش خراش بھی قاعدے سے ہونی چاہئے۔ہمیں ان باتوں سے سبق لینے کے ساتھ ساتھ بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔ ویسے ہمارے پاس اب رہ ہی کیا گیا ہے ،جھوٹا بھرم بھی کب تک ساتھ دے گا ؟بقول پروفیسر حفیظ بنارسیؔ ؎
یہی بدلا ہوا چہرہ تو اب پہچان ہے اپنی
ہمارا اصل چہرہ کھوگیا آئینہ خانوں میں
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995