یو این آئی
نئی دہلی/جاپانی مارشل آرٹ جوڈو جس کی مقبولیت ہندوستان میں بڑھ رہی ہے ، جوڈو فیڈریشن آف انڈیا یعنی جے ایف آئی 1965 میں قائم کیا گیا تھا اور اسی سال کے دوران اسے بین الاقوامی جوڈو فیڈریشن سے وابستگی حاصل ہوئی ۔ جے ایف آئی نے 1966 میں حیدرآباد میں پہلی قومی جوڈو چیمپئن شپ کا انعقاد کیا ۔ سیئول میں 1986 کے ایشین گیمز میں پہلی بار کسی ہندوستانی ٹیم نے بین الاقوامی جوڈو مقابلے میں حصہ لیا ، یہ بھی پہلی بار تھا کہ جوڈو کو ایشین گیمز میں بطور ایونٹ شامل کیا گیا تھا ۔ ہندوستان نے اپنے پہلے بین الاقوامی جوڈو ٹورنامنٹ میں چار کانسہ کے تمغے جیتے ۔ ہندستان کا نام بلند کرنے والے جوڈو کھلاڑیوں میں سے ایک اوتار سنگھ بھی ہیں ، جو ایک ممتاز جوڈوکا ہیں ۔ وہ جوڈو مقابلوں میں بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اوتار نے 2016 کے ریو اولمپکس میں حصہ لیتے ہوئے 12 سالوں میں اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے والے پہلے ہندوستانی جوڈوکا بن کر سرخیاں بٹوریں ۔ ایک چھوٹے سے قصبے سے عالمی میدان تک کے ان کے سفر نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ۔ جوڈو میں اوتار کی لگن اور محنت نے انہیں پذیرائی اور تعریفیں حاصل کرائیں ۔ وہ اب بھی بہترین کارکردگی کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ، جس کا مقصد جوڈو میں اپنی کارکردگی سے اپنے ملک کو بلندیوں پر لانا اور ہندوستان میں کھلاڑیوں کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرنا ہے ۔اوتار سنگھ ،کی پیدائش 3 اپریل 1992 کو گورداس پور ، پنجاب میں ہوئی۔پنجاب کے گرداس پور کے ایک متوسط طبقے کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اوتار کو اکثر مطلوبہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ٹورنامنٹس سے دستبردار ہونا پڑتا تھا ۔ ترکی گرینڈ پری ایونٹ میں حصہ لینے کے لیے ان کے والدین نے اسے اپنی زندگی کی بچت ان کے کیرئیر کے لئے داؤں پر لگا دی تاکہ وہ ترکی جانے کے لیے ٹکٹوں کی ادائیگی کر سکیں ۔ 2016 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں سنگھ نے سنجے مہارجن ، محمد جہانگیر عالم اور محمد کاکڑ کو شکست دے کر طلائی تمغہ جیتا تھا ۔ صرف پانچ مقابلوں میں حصہ لینے کے بعد سنگھ نے اپنی عالمی درجہ بندی کو 200 ویں سے نیچے 79 ویں تک بہتر کیا ہے اور سب کو اپنی گیم کی مہارتوں پر یقین دلایا ہے -بشمول ان میں جو ان میں صلاحیتیں نہیں دیکھتیں ۔اوتار کے خاندان میں کوئی بھی کھیلوں میں شامل نہیں تھا ۔ اوتار اپنے خاندان میں پہلا فرد ہے جو کھیلوں میں شامل ہوا اور یہ کہ جوڈو ان کے شہر میں ایک بہت مقبول کھیل تھا اس لیے وہ اس کی طرف اور راغب ہوئے ۔ گرداس پور ریاست پنجاب کا یہ 6 فٹ 4 انچ گبرو جوان اوتار کو جوڈو کے لیے اونچائی کا قدرتی فائدہ حاصل ہے اور اس کے بعد سے انہوں نے قومی سطح پر طوفان برپا کر دیا ہے ۔ اوتار ابھینو بندرا ، سشیل کمار ، یوگیشور دت ، سائنا نہوال جیسے ہندوستانی اولمپین سے متاثر تھے ، جنہوں نے کھیلوں میں تمغے جیتے ہیں ۔۔اوتار سنگھ کے لیے 2016 اہم رہا ہے ، کیونکہ انہوں نے نہ صرف گوہاٹی میں ساؤتھ ایشین گیمز میں گولڈ جیتا تھا بلکہ اسی سال ایشین جوڈو چیمپئن شپ میں اپنی کارکردگی کے بعد ریو میں 2016 کے اولمپک گیمز کے لیے بھی کوالیفائی کیا تھا ۔سب سے زیادہ کریڈٹ ان کے کوچ یشپال سولنکی کو جاتا ہے ۔ جنہوں نے نہ صرف اس بات کا خیال رکھا کہ ان کی تربیت کیسے ہو بلکہ انہوں نے اوتار سنگھ کو اپنے چھوٹے بھائی کی طرح رکھا۔ ہندوستان کے پہلے جوڈوکا ، اوتار کے پاس ان کی حمایت کرنے کے لیے کوئی تنظیمی حمایت نہیں تھی ، کیونکہ جوڈو فیڈریشن آف انڈیا (جے ایف آئی) کو نامناسب انتخابی طریقہ کار اور نیشنل اسپورٹس ڈیولپمنٹ کوڈ کی عدم تعمیل پر تسلیم کیا گیا تھا ۔ اس لیے اوتار بمشکل ہی کسی ٹورنامنٹ میں شرکت کر سکے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ا نہوں نے ایونٹ میں شرکت کی کمی کے باوجود کافی پوائنٹس حاصل کیے اور کوالیفائی کیا۔انہوں نے جوڈو میں سال2016 میں گوہاٹی میں منعقدہ ساؤتھ ایشین گیمز میں 90 کلوگرام کے زمرے میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔اوتار سنگھ 2016 میں ریو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے والے واحد ہندوستانی مرد کھلاڑی ہیں ۔ اسی سال وہ اپنے کیریئر کی اعلی ترین عالمی درجہ بندی 79 پر پہنچے ۔انہوں نے 2014 کے کامن ویلتھ گیمز میں بھی ہندوستان کی نمائندگی کی جو گلاسگو میں منعقد ہوئے تھے ۔ سال 2011 میں اوتار سنگھ نے ایشین جونیئر جوڈو چیمپئن شپ میں کانسہ کا تمغہ جیتا تھا ۔ریو 2016 کے اولمپین اوتار سنگھ 2018 کی یورپی چیمپئن شپ کے کانسہ کا تمغہ جیتنے والے اور سابق عالمی نمبر ایک کھلاڑی مردوں کے انڈر 100 کلوگرام زمرے میں اسرائیل کے پیٹر پالچک سے شکست کھا بیٹھے ۔ اوتار اپنی کامیابی کا سہرا اپنے خاندان کی طرف سے ملنے والے تعاون کو دیتے ہیں ۔ مشکل وقت میں خاص کر اولمپک کوالیفائرز کا سفر کرنے کے لیے اپنی زندگی کی بچت کی قربانی جو ان کے ماں باپ نے دی جس سے ان کی حوصلہ افزائی میں مزید اضافہ ہوا ۔اس کے بعد انہیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ اپنے ملک کا سر فخر سے بلند ضرور کریں گے ۔اوتار سنگھ آنے والی نسل کے بچوں کو کھیلوں کے تئیں زیادہ سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔ وہ نوجوانوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سخت محنت کریں اور بڑے خواب دیکھیں کیونکہ یہی چیز انہیں کامیابی کی طرف لے جائے گی ۔یو این آئی