آریہ سماج ہندوئوں کی ایک اصلاحی تحریک تھی جس کی بنیاد سوامی دیانند سرسوتی نے ۱۸۷۵ء میں ممبئی میں ڈالی۔ سوامی دیانند سرسوتی نے اسلام کے خلاف تیز وتند گفتگو اور شوخ وطراز لب ولہجہ سے مسلمانوں کو سخت ٹھیس پہنچائی۔ اس کی ایک مشہور اور بد نام زمانہ کتاب ’’ستیارتھ پرکاش ‘‘ تھی ۔سوامی دیانند سرسوتی کی اس دریدہ ذہنی پر گاندھی جی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ ’’سوامی دیانند نے اسلام اور دیگر مذاہب کی غلط تصویر دکھائی ہے۔ ان کی کتاب ستیارتھ پرکاش مایوس کن ہے۔‘‘ (بحوالہ مقدس رسولؐ بجواب رنگیلا رسول) سوامی دیانند سرسوتی ہی کی سرپرستی میں آریہ سماج والوں نے ایک کتاب بعنوان ’’رنگیلا رسول‘‘ لکھی۔ اس کتاب میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر انتہائی برے لہجے میں حملے کئے گئے جس کی وجہ ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان زبردست افرا تفری پھیل گئی۔ آریہ سماج نے ہی بعد میں سنگٹھن اور شدھی تحریکوں کو جنم دیا۔ سنگٹھن تحریک کا بنیادی مقصد ہندوؤں کو ایسی تعلیم وتربیت سے روشناس کرانا تھا کہ وہ اپنی حفاظت، تربیت، تعلیم اور نظم ونسق کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اس طرح کی تربیت دینا کہ وہ مخالفین کا اچھی طرح سے مقابلہ کر سکیں۔ چھوت چھات کی رسم کو ختم کرنا، غیر ہندئوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ویدک دھرم قبول کرنے کی دعوت دینا اور ہندوئوں میں خودی وخوداعتمادی کی روح پھینکنا اس تحریک کی بنیادی غرض و غایت تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوئوں کا اسلام اور عیسائیت کی طرف مائل ہونا اور پھر قبول کرنا ایک عام سا رجحان بن گیا تھا، اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے شدھی تحریک نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پھر سوامی شردھانند نے ۱۹۲۳ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہا صبا کی بنیاد ڈالی۔ سوامی شردھانند (۱۹۵۶) جالندھر کے ایک گائوں تلوا کے رہنے والے تھے، اس کے والد اس کو منشی رام کے نام سے پکارنے لگے جو پورے ملک میں مشہور ہوا۔ شردھانند نے پہلے ۱۹۲۰ء میں سنگھٹن تحریک کی بنیاد ڈالی پھر ۱۹۲۳ء میں شدھی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی اور فوراً اس کے صدر منتخب ہوئے۔، ان تینوں تنظیموں کا بنیادی ایجنڈا ان لوگوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا ،اپنے آبائی مذہب یعنی ہندو ازم کی طرف واپس لانا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے مذہب سے بھٹکے ہوئے ہندوں ہیں لہٰذا ان کو کسی بھی قیمت پر اپنے موروثی مذہب کو قبول کروانا ہے۔ اسی پروگرام کو شدھی اور سنگھٹن کی تحریک کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ۱۹۲۸ء میں شردھانند نے کھلے طور پر اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر ہتک آمیز الزامات لگائے۔ ہندو ذرائع ابلاغ نے بھی اسلام کے خلاف ایک زبردست مہم چھیڑ دی اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اسلام کے عالمگیر پیغام اور تعلیمات کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا گیا اور اسلام کو خاکم بدہن امن وامان کے لیے خطرہ ٹھہرایا۔ انہوں نے قرآن مجید کو نعوذباللہ دہشت گردی کا ذریعہ بتایا اور رسول اللہؐ کی پاک زندگی پر بھی ناروا اور نازیبا جملے کسے۔ غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق جس کے ذہن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جو بھی خیال آتا تھا وہ بول دیتا تھا۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو ہندوئوں میں سب سے بڑے دانشور اور صاحب الرائے تصور کئے جاتے تھے ۔ان دانشوروں نے بھی کہا کہ اسلام خون ریزی اور قتل وغارت گری پر مبنی مذہب ہے۔ گاندھی جی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور اب بھی تلوار ہے۔‘‘ شدھیوں نے اچھا خاصا لٹریچر رسول پاکؐ کی ذات اقدس کی غلط تصویر پیش کر نے کے لیے شائع کیا۔ ان کے ایک دانشور پنڈت کالی چرن نے ایک کتاب ’’ویکہیترا جیون‘‘ (Strtange life)لکھی جس میں اس نے رسول پاکؐ کی ازدواجی زندگی پر نازیبا الفاظ کسے اور اسلام کو تلوار سے پھیلا ہوا مذہب قرار دیا۔ یہ فتنہ ہندوستان کے ہر کونے میں پھیلا۔ اسلام اور رسول پاک ؐ کی ذات مبارک پر دل آزار تنقید کر کے ہر طرف مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ اس صورت حال میں مسلمانانِ ہند ہر طرف سے خوف ودہشت اور سراسیمگی کی حالت میں مبتلا ہوئے۔ گویا یہ مسلمانوں پر ایک عظیم سانحہ کی طرح تھا یہ زمانہ خاص طور سے ۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۲۵ء تک کا تھا۔ اس پورے عرصے میں مسلمانوں پر تنائو کا ماحول تھا۔
آریہ سماج، سنگھٹن اور شدھی تحریک کے اسلام، پیغمبر اسلام ؐ پر لگا رہے بے جا الزامات واعتراضات سے نہ صرف مسلمانوں کے دل ودماغ بدحواس ہو گئے تھے بلکہ اس ستم گری سے دیواریں تک بھی کانپ اٹھی تھیں۔ شردھانند نے اسلام، قرآن، محمد عربیؐ کے خلاف ہرزہ سرائیاں، انتہائی غلیظ گالیوں اور بہتان تراشیوں سے خوب خوب کام لیا۔ شردھانند نے اپنے ان ناپاک عزائم ومقاصد کو انجام دینے کے لیے تین اخبارات جاری کئے جن کے نام روزنامہ ’’تیج، ارجن اور پھر گرو گھنٹال‘‘ ہیں۔ ان تینوں اخبارات میں وہ اور اس کی شدھی تحریک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اشتعال انگیز باتیں لکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات پر کھلے بندوں استہزاء کرتے تھے۔ غرض کہ آریہ سماج، شدھی تحریک اور شردھانند نے اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانا اپنا مقصد واحد قرار دیا۔
غازی عبد الرشدید کا رول:
غازی عبد الرشدید ایک عام مسلمان تھے لیکن انتہائی غیرت مند، باایمان اور حقیقی عاشق رسولؐ تھے۔ وہ دہلی کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور وہیں ایک اخبار میں بحیثیت خوش نویسی کا کام کرتے تھے۔ حلال روزی کمانا، وقت پر دفتر پہنچنا اور نکلنا اور صوم وصلوٰۃ کے سخت پابند تھے۔ وہ شدھی تحریک کی ہرزہ سرائیوں سے بہت مغموم تھے اور مسلمانوں کی حالت زار سے بار باراشک بار ہوئے تھے، چونکہ عشق رسولؐ سے ان کا دل لیس تھا کجا کہ کوئی کافر شخص رسول پاکؐ کی ذات اقدس پر اتہامات کا جرأت کر ے ، یہ ان کے برداشت سے باہر تھا۔ غازی صاحب ۲۳؍ دسمبر ۱۹۲۶ء میں اپنے دفتر سے نکلے اور سیدھے نیا بازار دہلی پہنچے جہاں شردھانند کو گولی کا نشانہ بنا کر انہیں واصل جہنم کر دیا۔ انہوں نے شاتم رسولؐ شردھانند کو اس کے گھر میں ہی اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد غازی صاحب نے موقع واردات سے فرار ہونے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی اور اسی وقت گرفتار ہوئے۔ ان پر دفعہ ۳۰۲ کے تحت مقدمہ چلا۔ اگلے روز تمام اخبارات غازی صاحب نے شہ سرخیوں میں اپنی جگہ بنائی۔ اس عاشق رسولؐ کو شردھانند کے قتل کرنے پر کوئی افسوس نہیں تھا بلکہ اس کارخیر پر فخر تھا۔ انہوں نے عدالت میں کھلے بندوں اقبال جرم کیا۔ غازی صاحب پر سیشن کورٹ نے ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۷ء کو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا اور پھر جولائی کی آخری تاریخ کو دہلی کے سینٹرل جیل میں اسے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
غازی صاحب کو پھانسی دینے سے قبل ہی مسلمانوں کا بے پناہ ہجوم سینٹرل جیل کے سامنے تھا جن میں بچے، برقع پوش عورتیں بڑی بے تابی اور اشک بار چہروں کے ساتھ غازی عبد الرشید کے آخری دیدار کے انتظار میں تھے۔ جیل کی انتظامیہ غازی صاحب کو جیل ہی کے اندر دفن کرنا چاہتی تھی لیکن مسلمانوں کے زبردست احتجاج اور اصرار نے جیل حکام کو اس بات پر مجبور کر دیا اور بالآخر انہوں نے غازی صاحب کی میت مسلمانوں کے حوالے کر دی۔ مسلمانوں نے غازی صاحب کو جلوس کی صورت میں جامع مسجد پہنچایا اور درمیان جلوس ہر طرف سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں اور جامع مسجد میں ۶۰؍ ہزار کی تعداد میں مسلمانوں نے جنازے میں شرکت کی اور ان کو شہید کی حیثیت سے سپرد خاک کیا۔ نماز جنازہ کے بعد غازی صاحب کو فوج کی نگرانی میں جیل کے سامنے والے قبرستان میں دفن کیا گیا۔اللہ تعالیٰ ان کے قبر کو پر نور کرے اور جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے ۔ آمین ۔