مصنفہ: پروفیسرعارفہ بشریٰ
صفحات; 122قیمت:220 روپے
ناشر :جے کے آفیسٹ پر نٹرز
زیر تبصرہ کتاب’’جوش ؔملیح آبادی،ایک مطالعہ ‘‘پروفیسر عارفہ بشری کی تحقیقی وتنقیدی کاوش ہے ۔ پروفیسرعارفہ بشریٰ جو یونیورسٹی آف کشمیر میں صدر شعبہ اردو کے منصب پر فائز ہیں،کی اب تک چار کتابیں ’میر شناسی ایک مطالعہ‘‘،کشمیری میں عقیدتی شاعری‘‘، ’’منتخب مضامین‘‘اور ’’ اردو شاعری میں جدیدیت ‘‘ اردو دنیا میں متعارف ہوچکی ہیں۔ پروفیسرعارفہ بشری کی 122 صحفات پر مشتمل تصنیف کا پہلا عنوان’’ انتساب‘‘ہے جو انھوں نے اپنی’’ والدہ مرحوم ‘‘و اپنے ’’ہم سفر ‘‘کے نام لکھا ہے۔بعد ازاں کتاب کی فہرست دی گئی ہے۔جو کہ 7ابواب ’’پیش لفظ‘‘،’’جوشؔ ملیح آبادی کی شخصیت‘‘،’’جوشؔ ملیح آبادی۔شاعر فطرت‘‘،’’جوش ؔملیح آبادی کی انقلابی شاعری‘‘،’’جوش ؔملیح آبادی کی مرثیہ نگاری ‘‘،جوشؔ ملیح آبادی کا فن‘‘ اور ’’جوش ؔملیح آبادی ۔یادوں کی بارات ‘‘پر مبنی ہیں۔مصنفہ پیش لفظ میں لکھتی ہیںکہ مجھ میں جوش ملیحؔ آبادی کو مطالعہ کرنے کا ذوق شوق کس طرح پروان چڑھانیز مجھے جوش ؔملیح آبادی کی شاعری نے کس طرح اپنی تحویل میں لے لیاکو نہایت ہی اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔
یوں تو جوش ؔملیح آبادی پر بہت سی کتابیں خصوصا ان کی سیاسی تعلیمی زندگی و دیگر عنوانات سے موسوم تصنیف ہوچکی ہیں،لیکن مذکورہ کتاب کی خاص بات یہ ہے اس میں جدت ہے اور صحیح معنوں میں جوش ؔملیح آباد ی کی شخصیت ،فطری ،انقلابی شاعری،مرشیہ نگاری اور ان کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے اور جوشؔ ملیح آبادی کی ادبی زندگی کے ان پہلووں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ابھی تک عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔اس کتاب کا پہلا باب’’ جوش ؔملیح آبادی کی شخصیت‘‘ہے اس باب میںجوش ؔملیح آبادی کی شخصیت یعنی خاندان، پیدائش ،بچپن،تعلیم ،پر گفتگو کی گئی ہے۔ جوش ؔملیح آبادی کے خاندانی حالات بیان کرتے ہوئے مصنفہ نے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بطور حوالہ پیش کرکے کتاب کی اہمیت وافادیت میں اضافہ کردیا ہے۔مصنفہ رقمطراز ہیں:’’وہ بچہ جس کا باپ شاعر،داد بھی شاعر،دو سوتیلے چچا بھی شاعرہوں،بڑی پھو پھی،بڑی بہن اور بڑا بھائی بھی، جس کا حقیقی ماموں بھی شاعر ہو،جس کی دادی مزا غالب کی قربت دار ہو اور اردو فارسی کے اشعار بر محل سناتی رہی ہو،جس کی خالص لکھنوی ہو اور رات کے وقت ’’کھلی ہے کنج قفس میں میری زبان صیاد کی ‘‘لوری دیدے کر اس بچو کو سلاتی ہو ،جس کے گھر میں آئے دن لکھنو کے شاعر آتے جاتے ہو اور تیسرے چوتھے مہننے مشاعر رہتے ہوں،اور جو شعراء کے دیوانوں کو پتنگ اور گولیوں کی طرح کھیل کر پروان چڑھا ہو وہ شعر نہیں کہے گا تو اور کیا کہے گا۔‘‘(ص۔۔۔۱۴)
کتاب کا دوسرا باب’’جوشؔ ملیح آبادی۔شاعر فطرت‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔اس باب میں جوشؔ ملیح آبادی کی شاعری کو فطرت کے آینئے میں دیکھنے کی سعی کی گئی ہے کیونکہ انھوں نے فطرت کے کے رنگا نگ پہلووں کی عکاسی کی ہے، انہوں نے درجنوں نظموں میں حسن فطرت کے بدلتے رنگوں کی مصوری کی ہے اس لئے فطرت پرستی کو ان کی شاعری کا بنیادی اور اہم موضوع قرار دیا گیا ہے۔
لہریں ہنس ہنس کے عجب نغمے سناتی ہے مجھے
ڈالیا ںپھولوں کی جھک جھک کے بلاتی ہے مجھے
بقول پروفیسر عارفہ بشری:’’جوشؔ فطرت کے ایک بڑے پرستار ہے ،فطرت پرستی بچپن ہی سے جوش ؔکی گھٹی میں پڑی تھی،ان کی پیدائش فطرت کے ماحول میں ہوئی تھی‘‘۔(ص۔۔۔۳۶)
تیسرا باب’’جوش ؔملیح آبادی کی انقلابی شاعری‘‘جو اس کتاب کا سب سے نہایت اہم باب ہے۔اس باب میں انھوں نے جوش ؔملیح آبادی کو شاعر انقلاب کے طور پر پیش کیا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ملک کی آزادی جنگ جو انیسویں صدی کے آخر سے شروع ہوچکی تھی میں آزادی کے ترانے لکھے اورانہوں نے ملک کو آزاد کرانے ،لوگوں کے دلوں میں انقلاب کی آگ بھرنے اور غلامی کی زنجروں کو توڑنے میں قلم سے جو کام لیا اس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ؎
کام ہے میر ا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
ان کا یہ شعر بہت مقبول ہوا اور جوش ؔکی انقلابی گھن گرج ملک کے طویل وعرض میں لہرانے لگی۔اس شعر سے جوشؔ شاعر انقلاب کہلائے گئے۔پروفیسر عارفہ بشری شاعر انقلاب کے باری میں لکھتی ہے: ’’جوشؔ کی آواز جوش ؔکی آوازتھی ،ان کی باغیانہ تڑپ اور گھن گرج سب سے الگ تھی شاعر انقلاب کہلانے کا عزم کسی کو ملا تو صرف جوشؔ کو۔۔۔‘‘(ص۔۔۔۔۶۱)
کتاب کا چوتھا باب’’جوشؔ ملیح آبادی کی مرثیہ نگاری‘‘پر مشتمل ہے۔اس باب میں جوشؔ ملیح آبادی کے مذہبی ،سماجی اور سیاسی زندگی کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔چناچہ انہوں نے مرثیہ لکھے ہیں جو حضرت حسینؓکے تئیں اپنی محبت و احترام کے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔جہان تک مرثیہ کا تعلق ہے جوش ؔنے اسے رسوم وقیود سے آزاد کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے اور انہوں نے انسانوں پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بھی بدل ڈالااس طرح شہادت حسین ؓ کو ایک نئے Dimension میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
جوشؔ اپنی ایک مرثیہ ’’حسین اور انقلاب‘‘میں لکھتے ہیں:
پھر زندگی ہے سست وسبک گام اے حسین
پھر حریت ہے مور دالزام اے حسین
مجروح پھر ہے عد ل و مساو ات کا شعار
اس بیسویں صدی میں پھر طرفہ انتشار
جوشؔ کی اس مرثیہ ’’حسین اور انقلاب‘‘کے پس منظر پر پروفیسر عارفہ بشری رقمطراز ہیں: ’’جوش ؔنے اپنے مرثیوں میں حضرت حسین ؓسے متاثر ہوکر اپنے سینے کی آگ بھردی ہے۔۔۔وہ ظلم و استبداد کی طاغوتی قوتوں کو فناکرنا چاہتے ہیں۔‘‘(ص۔۔۔۔۸۱)
کتاب کا پانچواں باب ’’جوش ؔملیح آبادی کا فن‘‘ہے جس میں مصنفہ نے جوش ملیح آبادی کے فن سے بحث کرتے ہوئے ان کی نظموں،غزلوں ،مرثیوں،کردار،تکنیک اور اسلوب پر بات کی ہے۔جوش ؔکے اسلوب بیان پر پروفیسر عارفہ بشریرقمطراز ہیں:’’جوش ؔنے غزل کی روایت کی توسیع کے بجائے حالی اور آزاد کی نظم جدید کی روایت میں نئی جان ڈالی دی ہے اور لفظوں پر اپنے غیر معمولی قابو کو پیش کیا ،اسکے علاوہ انہوں نے اپنے عہد کے سیاسی اور معاشرتی حالات کو اپنے بلند آہنگ انداز سے پیش کیا‘‘۔(ص۔۔۔۸۴)
کتاب کا آخری باب ’’جوش ؔملیح آبادی ۔یادوں کی بارات‘‘ہے۔’’یادوں کی بارات‘‘ جوشؔ ملیح آبادی کی سوانح عمری ہے۔جوشؔ کی حالات زندگی کو مصنفہ نے نہایت کی اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے ۔جوش ؔکی حالات زندگی کو مدنظر رکھ کرپروفیسر عارفہ بشریرقمطراز ہیں :
’’اس کی خصوصیات یہ ہے کہ جوش ؔنے بڑی بے باکی ،جرات اور اعتماد کے ساتھ اپنی شخصیت کے محاسن کے ساتھ اپنے مصائب کا بھی ذکر کیا ہے ۔کتاب کی ابتدا اس شعر سے ہوتی ہے ۔‘‘(ص۔۔۔۔۱۱۸)
اطراف و جہات کو مرتب کرلے
رودا د حیات کو مرتب کرلے
اس سے پہلے کہ بھول جائے سب کو
یادوں کی برات کو مرتب کرلے
مختصر یہ ہے کہ یہ کتاب اس امر کی عکاس ہے کہ جوش ؔملیح آبادی اردو ادب کی ان عبقری شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے اردو زبان وادب کی سرزمین کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی ہے۔ یہ کتاب جوش شناسی کے باب میں ایک قابل قدر اضافہ تصور کی جائے گی۔کتاب کی طباعت کافی اچھی ہے قیمت بھی مناسب ہے۔نیز یہ کتاب قاری اور طلبا کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی اور باشعور قار ئین اسے ضرور بنظر تحسین دیکھیں گے۔
��� رعناواری سری نگر،،ربطہ نمبر:9697330636