نئی دہلی// ہندوستان اور چین کے درمیان سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بین الاقوامی خاص طور پر چین کے میڈیا نے انڈیا کے موقف پر سوال اٹھائے ہیں۔چینی میڈیا نے ہندوستان میں انگریزی اخبار دا ٹائمز آف انڈیا میں شائع ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے جس کی ہیڈ لائن ہے ’ڈوکلام تنازع: نارازگی کے باوجود چین جنگ نہیں چاہتا، انڈیا کو یقین‘۔اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ’انڈیا کے دفاعی ادارے کو یقین ہے کہ تمام اشتعال انگیز باتوں کے باوجود چین جنگ کا خطرہ مول نہیں لے گا۔ یہاں تک کہ کوئی چھوٹی موٹی فوجی کارروائی بھی نہیں کرے گا۔‘چینی اخبار گلوبل ٹائمز کی ویب سائٹ پر اس سے متعلق مضمون کی ہیڈلائن کے ساتھ لکھا ہے کہ ’چین جنگ نہیں چھیڑے گا یہ طے ہے، کیا انڈیا منتر پڑھ رہا ہے؟‘مضمون میں لکھا ہے ’ہم حیران ہیں کہ انڈین دفائی ادارے میڈیا میں دعوے کر رہی ہیں کہ چین کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا۔ دلی خود بدترین حالات کے لیے تیار نہیں ہے لیکن ہندوستان کی عوام کو بہترین دنوں کے لیے تیار کرنے کی کوش کر رہا ہے۔‘مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ جنگ کے 55 برس بعد بھی انڈیا بہت بھولا ہے۔ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ان لوگوں نے سبق نہیں سیکھا ہے۔چین کے سرکاری اخبار نے لکھا ہے ’انڈیا کو لگتا ہے لڑائی میں امریکہ ان کی مدد کرے گا اور چین پر نفسیاتی دباو¿ ڈالے گا۔ شاید ان کو سِنو۔ یو ایس گریٹ پاور گیم کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ انڈیا شاید چین کے خلاف لڑائی میں سپائڈر مین، بیٹ مین اور کیپٹن امریکہ سے مدد کی امید لگائے بیٹھا ہے۔‘چین میں پاکستانی اخبار دا نیوز انٹرنیشنل کی اس خبر کو بھی کوریج دی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انڈیا نے آخرکار چین کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور چھہ اگست کو ڈوکلام سے فوج ہٹا لی۔ اخبار نے دعویٰ کیا کہ انڈیا نے ڈوکلام سے اپنی زیادہ تر فوج ہٹا لی اور سرحد پر صرف پچاس فوجی ہی تقعینات ہیں۔اس سے قبل چینی وزارت دفاع کے ترجمان نے بیان دیا تھا کہ دو اگست تک ڈوکلام میں انڈین فوجیوں کی تعداد 400 سے کم ہو کر 48 ہو گئی تھی۔ تاہم انڈین اہلکاروں نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔بی جے پی کے اہلکاروں کی طرف سے انڈیا میں چینی اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل کا چین میں خوب مزاق اڑایا جا رہا ہے۔ چینی میڈیا میں بھی اس موضوع کو توجہ دی گئی ہے۔گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے ’کچھ اڈین ادارے ان انڈین فوجیوں کے لیے جھنڈے لہرانے اور جنگ کی نعرے لگانے سے بعض نہیں آ رہے ہیں جو غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کر گئے اور اشتعال انگیز بیان دے رہے ہیں۔‘ایک دوسرے چینی نے لکھا کہ ’انڈیا اور دیگر ہمسایہ ممالک کے تاجر چینی اشیا اس لیے خریدتے ہیں کیوںکہ یہاں کا سامان سستہ اور اچھے معیار کا ہے۔ آپ اپنا راستہ خود کاٹ رہے ہیں۔‘