مولاناسعید احمد حبیب
بلاشبہ پہلگام کے دلخراش سانحے نے ہندوستان کی ایک ارب چالیس کڑوڑ عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہندوپاک کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ مختصر تباہی کے بعدجنگ بندی ہوگئی ہے۔ جنگ بندی کی خبر خوشگوار نوید بن کر آئی۔ امن کتنا انمول ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے۔ ٹرمپ کا ٹویٹ پڑھا خوشی ملی ،میری کیفیت کا عالم یہ ہے کہ ایکطرف اس ٹویٹ پر مسرور ہوں تو دوسری طرف اس ٹویٹ کے سیاق و سباق کے اثرات و خطرات پر جو تحفظات ہیں اسے بتانے کیلئے یہ وقت موزوں نہیں ہے ۔ ظاہر ہےکہ ہمارے لئے جو حالات بن چکے تھے ان حالات سے خلاصی کیلئے صبح شام نہ جانے کتنی دعائیں کی کیونکہ یہاں عملی طور جنگ کا سماں تھا۔
جنگ تو جنگ ہے جس کا انجام ہلاکت ہے ،بربادی ہے، اجڑجانا ہے ،جنگ یتیمی دیتی ہے ،مائوں کی کوکھ چھین لیتی ہے، ہنستی کھیلتی ،نسوانیت کو بیوہ بنا دیتی ہے، کمزورں کو بے دست و پا کردیتی ہے، غریبوں کو محتاج بنادیتی ہے، بیماروں کو بے آسرا کردیتی ہے، بارود کی بدبو ہر خوشی اور ہر خوشبو چھین لیتی ہے، جنگ چھیڑنے والوں کی خبر نہیں مگر یہ طے ہے کہ جس نہتی عوام پہ یہ جنگ مسلط کی جاتی ہے وہ مستقبل کی کئی دھائیوں تک اپنی نسلوں کے ناقابل تلافی نقصان کو بھگتتے رہ جاتے ہیں۔ جنگ نہ چھاونیاں چھوڑتی ہے اور نہ سکولوں کو بخشتی ہے، جنگ نہ مجرموں کو معاف کرتی ہے اور نہ بے قصور امن کے خواہوں کو جینے دیتی ہے۔ ایسا نہیں کہ حکمرانوں کو جنگ کی تباہی اور نقصانات کا اندازہ نہیں ہوتا مگر ان کی شرارت اور انا کی ضد کا خمیازہ بے قصوروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ تاریخ کی ہر جنگ نے یہی بتایا ہےکہ جنگ لاحاصل ہے ،بے سود ہے۔
ہندوپاک کو یہ فیصلہ کرنا ہے اور یکبارگی کرنا ہے کہ بقاء چاہئے یا تباہی چاہئے۔ آٹھ دھائیاں گزر گئیں، ہندوپاک لڑتے چلے آرہے ہیں، نتیجتا پاکستان دو لخت ہوگیا۔ عالمی امداد کے سہارے کبھی ملک نہیں چلتے۔ ملک خودداری خود کفالت اور مضبوط سیاسی استحکام سے چلتے ہیں۔ ملک اشتعال انگیز نعروں اور حقیقت پسندی سے منہ چرا کے نہیں چلتے ۔پاکستان کی پوری تاریخ غیر سیاسی استحکام کمزور عدلیہ اور فوجی حکمرانی کے چلن سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان سیاسی و مذہبی قتل گاہ بن کے رہ گیا۔ کتنی اعلیٰ سیاسی و نامور مذہبی شخصیات کا قتل عام ہوا ۔کیا یہی وہ نعرہ تھا جس کیلئے پاکستان بنایا تھا ۔تقسیم کی تاریخ اور وجوہات پر بات کی جائے تو یہ مضمون کبھی ختم ہی نہیں ہوسکتا۔ اس بیتے منحوس پل کو کیا یاد کیا جائے مگر جب دو ممالک وجود میں آگئے، آج دونوں سوچیں کس نے کیا پایا کیا کھویا۔حقیقت پسندی جینا سکھاتی ہے، جینے کا ہنر دیتی ہے، شیخ چلی کے سہانے خواب خود فریبی کا عادی بنادیتے ہیں، ایکدوسرے کو گیدڑ بھبکیاں دھمکیاں دینے سے قومیں نہ بنتی ہیں نہ سنورتی ہیں بلکہ تیسری مفاد پسند طاقت کا آلہ کار بن کے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان نے کئی ریاستوں کی شورش کے باوجود ترقی کی ہے، اپنی معیشت کو محفوظ کیا ہے، ملک کو بکھرنے سے بچایا ہے مگر اب بھی اس کو عظیم بننے کیلئے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے ۔ہندوستانی ہندوستان میں اور پاکستانی پاکستان میں رہ رہی اپنی نسل نو کی فکر کریں۔ اس جھگڑے اور فساد کی ذہنیت کو چھوڑیں۔
خدرا کشمیریوں کو جینے دیں۔ کشمیری جینا چاہتا ہے، اسے شورش سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اسے بندوقوں کی گن گرج نے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے، اب وہ مزید تباہی نہیں دیکھنا چاہتا۔ جنگ کی فضاء میں امن کی پکار بہت معنی رکھتی ہے، ایوانوں کے نوابوں تک اس پکار کو پہنچایا جائے،بس بہت ہوگیا ،ہماری بستیوں کو گولہ بارود نہیں، کاغذ قلم چاہئے۔ دونوں ممالک کے حکمران نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور وقت رہتے اسی جنگ کی گونج میں امن کو تلاش کریں۔ حالات کو پھانپنا اور حقیقت شناسی سے کام لینا، یہ حکمت ہے دانائی ہے۔ دوستی کرلیجئے، انانیت اور ضد چھوڑ دیجئے، اچھے پڑوسی بن کر رہنا سیکھئے، وگرنہ ایک صدی ہونے کو ہے اور زخم رس رہا ہے۔ وقت گذر گیا اور کوئی بات نہ بنی تو ان کھنڈروں کو دیکھ کر ندامت اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ سنبھل جائیے اور مل بیٹھ کر مسائل سلجھا لیجئے حقیقت پسندی کا یہی تقاضہ ہے۔ پاکستان یہ اعتراف کرے کہ بیس کڑوڑ مسلمانوں کو غیر معتبر کرنا اسکی طرف سے سراسر ظلم اور زیادتی ہے جو دیکھا ہے اور جو سچ سمجھ میں آیا ہے وہ یہی ہےکہ پاکستان صدق دل سے امن کی راہ پر چلتے ہوئے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے، ماضی کی غلطیوں کو نہ دوہرائے اور ہندوستان سے بھی یہی امیدہے کہ وہ خطے کا ایک بڑا اور ذمہ دار ملک بن کر امن کیلئے وسیع القلبی سے کام لے اور دونوں ممالک اپنی اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنائے اور اپنی عوام کی بہتری اور خوشحالی کیلئے موثر اقدامات اٹھائیں۔
اپنی بستیوں کی چہل پہل باقی رہے، کھیت کھلیاں بستے رہیں، بچوں کی اٹھکلیاں مسکان بکھیرتی رہیں، جوانیاں سلامت رہیں، ہر سفید ریش پر برف نما سفیدی کی چمک باقی رہے، بس یہی حسرت ہے، اسی کو پانے کی چاہ میں اپنا درد بیاں کیا، دل کھول کے رکھا ہے، اب آپ کیا تجزیہ کرینگے وہ آپ جانیں اور آپ کا زاویہ نگاہ ۔ وطن کی خیر ہو بس ۔
(مضمون نگار جامعہ ضیاء العلوم پونچھ جموں وکشمیرکے نائب مہتمم ہیں)