بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی جنگ بندی معاہدہ کے اعادہ کو اب تین ماہ ہوچکے ہیں۔ان تین ماہ کے دوران سرحدیں پُر سکون رہیں اور کہیں بھی آتشی گولہ باری کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ۔کشمیر سے لیکر کٹھوعہ تک ایل اوسی اور بین الاقوامی سرحد پر توپیں خاموش ہوچکی ہیں اور بندوقیں آگ اگلنا بند کرچکی ہیں۔جنگ بندی کا یہ معاہدہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح آیا ہے جس نے سرحدی گولہ باری سے متاثرہ لوگوں کو راحت و فراوانی کاسامان مہیا کیا ہے ۔مدتوں بعد سرحدی آبادی سکون سے اپنے گھروں میںپیر پسار کرسونے لگی ہے اور اب انہیں اس بات کا ڈر نہیں لگا رہتا ہے کہ اچانک کہیں سے کوئی گولہ گر آئے اور ان کی خوشیاں لوٹ لے ۔آج سرحدی علاقوں میں زندگی رواں دواں ہے ۔نہ صرف سرحدی علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں بلکہ زرعی سرگرمیاں بھی جوبن پر ہیں اور لوگ کسی خوف کے بغیر اپنے کھیتوں میں کام کررہے ہیں جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سرحدی علاقوں کی شادیوں میں شہنائیوں کی بھی واپسی ہوچکی ہے ۔یہ سارے مناظر اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ دل کو خوش کرنے والے ہیں کیونکہ دو ممالک کی کشیدگی کی وجہ سے سرحدی آبادی اب کئی برسوں نے توپ کی رسد بن چکی تھی اور آئے روز کی گولہ باری سے سرحدی آبادی کا جینا دوبھر ہوچکا تھا۔گزشتہ دو ایک برسوں کے دوران جنگ بندی خلاف ورزیوںکے معاملات کے سارے پرانے ریکارڈ ٹوٹ چکے تھے اور اب ایسا لگ رہاتھا کہ آمنے سامنے نا سہی ،لیکن سرحدوںپر سرد جنگ چل رہی ہے جس کی رفتار مدہم ہی سہی لیکن یہ جنگ دونوںجانب نہتے عوام کو نگل رہی تھی ۔صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم تھاکہ 2003کے جنگ بندی معاہدہ کے بعد2020کو اس معاہدہ کی خلاف ورزیوں کیلئے سب سے بدترین سال قرار دیاگیا جس دوران جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں3گنا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ تین برسوں کے دوران اس میں مجموعی طور 6گنا اضافہ ہوا ہے ۔اعداد وشمار خود بتارہے ہیں کہ سرحدوں کی صورتحال قطعی صحیح نہیں تھی۔یہ ایک طرح کی جنگ تھی جو دونوں جانب سے جاری تھی اور دونوں فریق ایک دوسرے کو اس کیلئے مورد الزام ٹھہرا رہے تھے ۔اس اشتعال انگیزی کیلئے کون ذمہ دار تھا،اُس بحث میں پڑے بغیر اس حقیقت سے قطعی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ سرحدوں پرعملی طور دہشت کی حکمرانی تھی اور ستم ظریفی کا عالم یہ تھا کہ اس کشیدگی کا خمیازہ آر پارجموںوکشمیرکی عوام کو ہی بھگتنا پڑرہاتھا اور ایل او سی کے دونوں جانب عام لوگ اس کشیدگی میں توپ کی رسد بن رہے تھے اور یوں اگر کسی کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو وہ کشمیری عوام ہی تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام ہی اس معاہدہ کا سب سے خیر مقدم کرکے دائمی امن کی اپیلیں کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس معاہدہ کا سب سے زیادہ فائدہ ہی آرپار کشمیری عوام کو ہی ملے گا۔ فوجی سربراہ جنرل ایم ایم ناراوانے ،نے بھی29مئی کو کہا ہے کہ جمو ں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گذشتہ تین؎ ماہ سے ہندوستان اور پاکستانی فوج کے مابین جنگ بندی کے انعقاد نے امن اور سلامتی کے احساس کو فروغ دیا ہے اور دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول پر لانے کیلئے یہ طویل راستہ کی طرف پہلا قدم ہے۔ جنرل نے کہا کہ جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کی دہشت گردی کے خلاف لڑائی روک دی گئی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ سیز فائر معاہدے پر عمل پیرا ہونے سے خطے میں امن و سلامتی کے مجموعی طور پر احساس کو فروغ ملا ہے اور تشدد بھڑک اٹھنے کے بعد امن کے امکانات کو تقویت ملی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ فائرنگ کا خاتمہ دونوں فوجوں کے مابین اعتماد بڑھانے ، امن کا موقع دینے اور کنٹرول لائن کے کناروں پر آبادی کے مفاد کے لئے ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ ہم جنگ بندی جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے تعلقات میں استحکام اور بہتری میں اہم کردار ادا کیا جاسکے۔دوسری جانب پاکستان کی سیول اور عسکری قیادت کی جانب سے بھی اس سرحدی جنگ بندی کے تعلق سے امید افزاء بیانات سامنے آرہے ہیں اور وہ اس کو قیام امن کی جانب ایک مثبت پہل سے تعبیر کررہے ہیں۔پاکستانی فوجی سربراہ سے لیکر وزیراعظم اور وزیر خارجہ تک سبھی لوگ بار بار سرحدی جنگ بندی کو اعتماد سازی کے ایک بڑے قدم کے طور پر پیش کررہے ہیںاور اُن کا ماننا ہے کہ اس چھوٹے سے اقدام سے دو ملکوںکے مابین اعتماد کی فضاء بحال کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔اب جبکہ دونوں جانب سے اس جنگ بندی کو کافی فوقیت دی جارہی ہے اور اس کو صحیح سمت میں اٹھایاگیا قدم قرار دیا جارہا ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ یہ معاہدہ دیر پا ثابت ہوگا اور اس معاہدہ کے طفیل دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک سلسلہ چل پڑے گا جس سے یقینی طور پر اعتماد سازی کی فضاء قائم ہوسکتی ہے جس کے ثمرات دونوں جانب کروڑوں عوام کو یقینی طور پر ملیں گے جو اب برسہا برس سے امن کے متلاشی ہیں۔