فکرو فہم
مختار احمد قریشی
ہندوستان نے پاکستان کی طرف سے کی گئی جنگ بندی کی پہل کو قبول کرکے ایک بار پھر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایک امن پسند اور سنجیدہ ملک ہے۔ یہ قدم نہ صرف خطے میں قیام امن کی کوششوں کو مضبوط کرتا ہے بلکہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو بھی راحت فراہم کرتا ہے، جو ہر وقت گولہ باری کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جنگی حالات نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں بلکہ مالی، نفسیاتی اور معاشرتی اعتبار سے بھی بہت نقصان دہ ہوتے ہیں۔ گولہ باری کے دوران لوگوں کو اپنے وہ گھر جو انہوں نے برسوں کی محنت، خون پسینے اور حلال کمائی سے تعمیر کیے ہوتے ہیں، چھوڑنے پڑتے ہیں۔ ایسے حالات میں سرکاری مشینری کو حرکت میں آنا پڑتا ہے اور جموں و کشمیر حکومت نے جن محفوظ مقامات پر متاثرین کے لئے رہائش، خوراک، طبی امداد اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کیں، وہ یقیناً قابلِ ستائش ہیں۔ جنگی ماحول کے اثرات صرف نقل مکانی تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ لوگوں کی ذہنی صحت پر بھی گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ بچے تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں، بوڑھے افراد تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، نوجوانوں کے خواب بکھر جاتے ہیں اور خواتین خوف کے سائے میں جینے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ جبکہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں بےتحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے، ٹرانسپورٹ بند ہوجاتی ہے اور روزمرہ کی زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس صورتحال کا براہ راست اثر عام انسان پر پڑتا ہے، جو پہلے ہی معاشی دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔
امن کا قیام کسی بھی مہذب سماج کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب کسی ملک یا علاقے میں امن ہوتا ہے تو وہاں ترقی خودبخود پنپنے لگتی ہے۔ تعلیمی ادارے کھلے رہتے ہیں، نوجوان اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے مواقع پاتے ہیں، کسان کھیتوں میں کھلے دل سے کام کرتے ہیں اور تاجر بےخوف ہو کر کاروبار کرتے ہیں۔ امن سے نہ صرف تعلیمی معیار بہتر ہوتا ہے بلکہ صحت، معیشت، ثقافت اور انفراسٹرکچر بھی فروغ پاتا ہے۔ سرحدی علاقوں میں جب سکون ہوتا ہے تو سیاحت کو فروغ ملتا ہے، مقامی صنعتوں کو سہارا ملتا ہے اور حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبے بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل ہوتے ہیں۔ جنگی حالات میں سرکاری خزانے کا بڑا حصہ دفاعی اخراجات اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں صرف ہوجاتا ہے، جس کا اثر فلاحی اسکیموں پر پڑتا ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسائل کی جڑ ہے۔ اصل طاقت امن میں ہے اور جو قومیں امن کو ترجیح دیتی ہیں، وہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایسا ماحول دیں جہاں وہ کھلے ذہن اور اطمینان قلب کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں اور ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔ ہمیں نفرت، تعصب اور جنگی جنون کو رد کرکے محبت، بھائی چارے اور تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
جب بھی سرحدی علاقوں میں گولہ باری ہوتی ہے، تو صرف ایک گولہ نہیں پھٹتا بلکہ انسانیت، خواب، معصومیت اور امن کے کئی قیمتی گوشے چکناچور ہوجاتے ہیں۔ جو بچے کل تک کتابوں میں رنگ بھرتے تھے، وہ آج محفوظ پناہ گاہوں میں ماؤں کے ساتھ سہمے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جو نوجوان روزگار یا تعلیم کے لئے شہر جانے کا خواب رکھتے تھے، وہ اب یا تو بےروزگار ہوتے ہیں یا بےسہارا۔ ان علاقوں کے لوگوں کا سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ ’’کیا آج سکون سے رات گزرے گی؟‘‘ ایسی فضا میں معاشرتی تانے بانے بکھرنے لگتے ہیں اور ہر فرد زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے ترسنے لگتا ہے۔ جنگ اگر کچھ دے سکتی ہے تو وہ صرف تباہی ہے، جبکہ امن ہمیں ترقی، خوشحالی، تعلیم، صحت، تعاون اور بہتر مستقبل دے سکتا ہے۔
جموں و کشمیر جیسے خوبصورت خطے میں جہاں مختلف قومیں، مذاہب اور زبانیں موجود ہیں، وہاں امن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب امن ہوگا تو ثقافتی میل جول بڑھے گا، مختلف علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کو سمجھیں گے اور غلط فہمیوں کی دیواریں خودبخود گرنے لگیں گی۔ سیاح دوبارہ ان وادیوں کا رخ کریں گے، مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گےاور حکومت کو بھی ترقیاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر وہ ملک جو جنگوں میں اُلجھا رہا، ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ جبکہ وہ ممالک جنہوں نے مذاکرات، سفارت کاری اور امن کو اپنا شعار بنایا، آج دنیا کی صفِ اول کی طاقتیں کہلاتی ہیں۔ ہندوستان کی موجودہ قیادت نے جو رویہ اپنایا، وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم جنگ کی راہوں کے بجائے گفت و شنید، سمجھداری اور تدبر کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کے قائل ہیں۔امن قائم کرنا صرف حکومتوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر شہری کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے گاؤں، بستی، شہر اور ملک میں بھائی چارے، صبر، برداشت اور محبت کو فروغ دے۔ اساتذہ، دانشور، ادیب، مذہبی رہنما، نوجوان اور طلباء سب اس مشن میں برابر کے شریک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ امن، رواداری اور انسانیت کا سبق بھی دینا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں ایک بہتر، محفوظ اور خوشحال دنیا میں سانس لے سکیں۔
جنگ بندی کی یہ پہل ایک موقع ہے، ایک دروازہ ہے، جو دیرپا امن اور باہمی اعتماد کی طرف کھل سکتا ہے۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہمیں اس دروازے سے گزر کر ایک نئی صبح کی طرف قدم بڑھانا ہوگا، جہاں نفرت کی جگہ محبت ہو، گولہ باری کی جگہ پر بات چیت ہو اور تباہی کی جگہ تعمیر و ترقی ہو۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم امن کی اس روشنی کو بجھنے نہ دیں، بلکہ اسے نسل در نسل منتقل کریں تاکہ دنیا ایک خوبصورت اور پرامن بستی بن سکے۔
انسانیت کی پہچان اُسی وقت ہوتی ہے جب ایک انسان مشکل میں ہو،اور دوسرے انسان اس کے لئے سہارا بنتے ہیں۔اگر آپ محفوظ ہیں تو اُن لوگوں کی مدد کریں جو بےگھر ہو گئے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کھانے پینے کی اضافی اشیاء ہیں، تو ان میں سے کچھ اُن کے لیے نکالیں جنہیں اس وقت ایک نوالے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہے، تو ایک بیمار یا بوڑھے کو اسپتال لے جائیں، کسی بچے کو پڑھا دیں، کسی ماں کو تسلی دیں یا کسی خاندان کو پناہ دیں۔
یاد رکھیں، کسی کو تھوڑی سی تسلی، ایک کمبل، ایک روٹی، ایک دعائیہ جملہ یا صرف ایک شانہ دے دینا کسی کی پوری دنیا بدل سکتا ہے۔ایسے وقت میں ذات، فرقہ، برادری، مذہب اور زبان سے اُوپر اُٹھ کر صرف انسانیت کو اپنائیں۔ آج اگر آپ کسی کے کام آئیں گے تو کل قدرت آپ کی مدد ایسے انداز میں کرے گی جس کا آپ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں ۔ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
ای میل۔[email protected]