ہلال بخاری
یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک بار پھر عقل و فہم نے بالآخر غالب آ کر جنوبی ایشیا کو ایک تباہ کن جنگ سے بچا لیا ہے۔ بھارت اور پاکستان حالیہ کشیدہ حالات کے باوجود ایک بڑے تصادم سے پیچھے ہٹنے میں کامیاب رہے، جس کے نتیجے میں خطے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کی جانیں محفوظ ہو گئیں۔
یہ ایک کھلا سچ ہے کہ جنگ کسی بھی فریق کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی۔ خصوصاً جب معاملہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہو، تو اس کا انجام صرف اور صرف بربادی ہوتا ہے۔ جنگی جنون کی اس فضا میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کسی بیرونی دباؤ یا ثالثی بالخصوص امریکہ کی طرف سے دبائونے اس بار ممکنہ تصادم کو ٹالنے میں کردار ادا کیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کو سراہا اور ثالثی کی پیشکش کی۔ ان کا یہ کہنا کہ بھارت اور پاکستان کی دشمنی ہزار سال پرانی ہے، یقیناً مبالغہ ہے، لیکن اس بیان میں یہ اشارہ ضرور ہے کہ ان مسائل کی جڑیں گہری اور پرانی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی سفارتی مداخلت نے ثابت کیا ہے کہ کبھی کبھار بیرونی قوتیں بھی مثبت کردار ادا کر سکتی ہیںخاص طور پر جب ہمارے اپنے سیاسی رہنما جذباتی بیانات اور لاحاصل ردِعمل سے آگے بڑھنے کو تیار نہ ہوں۔
اس واقعے نے یہ بھی واضح کر دیا کہ مستقل امن کا حصول صرف جنگ بندی یا وقتی تھماؤ سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے سنجیدہ اور دیرپا اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے ہاں موجود شدت پسند تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف ٹھوس اور نتیجہ خیز کارروائی کرے۔ یہ گروہ نہ صرف ہمسایہ ممالک کے لیے خطرہ ہیں بلکہ خود پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے بھی چیلنج بن چکے ہیں۔
دوسری جانب، بھارت کو بھی اپنے اندرونی ماحول پر نظر ڈالنی ہو گی، جہاں میڈیا کا ایک طبقہ جنگی جنون اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کو فروغ دے رہا ہے۔ اس قسم کی رپورٹنگ نہ صرف حالات کو مزید بگاڑتی ہے بلکہ عوامی شعور کو بھی مسخ کرتی ہے۔
صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کرنے کی بجائے، دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ہر ممکن موقع سے فائدہ اٹھائیں تاکہ بات چیت کا در کھلا رہے۔ مسائل کا حل کسی کی ہار یا جیت نہیں بلکہ باہمی مفاہمت اور عوامی فلاح میں پوشیدہ ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی فریق توسیع پسندی کی سوچ نہ رکھتا ہو۔
بر صغیر کے عام لوگ امن و سکون اور ترقی کے خواہاں ہے۔ کچھ انتہاپسند ذہنیت لوگوں کی وجہ سے سب کا جینا حرام کرنے کا کسی کو حق نہیں ہونا چاہیئے ۔ امن و سلامتی میں ہی ہماری بہتری کا راز پوشیدہ ہے اور ہر ایک کو امن سکون کے لئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔
آخرکار، ہمیں ماضی کی تلخیوں اور غیر لچکدار معاہدوں کی قید سے نکل کر مستقبل کی جانب دیکھنا ہو گا۔ پائیدار امن صرف اس وقت ممکن ہے جب دونوں ممالک خلوصِ نیت سے امن کو اپنا نصب العین بنائیں اور ایسے اقدامات کریں جو نہ صرف جنگ کو روکتے ہیں بلکہ دیرپا خوشحالی کی بنیاد بھی رکھتے ہیں۔