کامریڈ کرشن دیو سیٹھی
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلے کیوںلُٹے
یہاں رہبری کا سوال ہے مجھے راہزن سے غرض نہیں
اِن دنوں پارلیمنٹ میں ،میڈیا میں، سیاسی جلسوںمیں، عوامی اجتماعات میں، اپوزیشن جماعتوںکی طرف سے مودی سرکار اور حکومت فرانس کے درمیان رافیل جنگی ہوائی جہازوں کے سود ا پر زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے اور الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ اس اربوں روپیہ کے سود امیں گول مال ہواہے اور ڈیفینس کے اس سودا میں ہیراپھیری ہوئی ہے۔ الزامات عائد کرنے والوںمیں کانگرس کے نئے صدر راہل گاندھی پیش پیش ہیں۔ چونکہ یہ سودا اُس ووقت ہوا جب کہ نریندرمودی فرانس کے دورہ پر پہنچے تھے۔ اِس لئے مطالبہ کیا جارہاہے کہ نریندرمودی خود اس سلسلہ میں جوابدہی کریں۔ لیکن نریندرمودی نے اس سلسلہ میں ابھی تک مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ جس سے طرح طرح کے شکوک وشبہات کا اظہار کیاجارہاہے۔ ایسے بھی وزیراعظم نریندرمودی کا یہ طریقہ کار بن گیاہے کہ تمام اہم معاملات پر استفسار کے باوجود وہ برائے را سست جواب دینے سے کنی کترا جاتے ہیں جوکہ ہرگز مناسب نہیں ہے۔ لازمی ہے کہ وہ اہم معاملات پر، خصوصی طورپر ایسے معاملات پر جن پر اُن سے برائے راست استفسار کیا جائے۔ اُن کا معقول جواب دیں۔ وگرنہ یہ سمجھا جانا قدرتی اور لازمی ہے کہ وہ برائے راست جواب دینے میں آنا کانی کررہے ہیں۔ جس سے نہ صرف معاملات میں شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیںبلکہ خود وزیراعظم کی پوزیشن بھی مشکوک دکھائی دینے لگتی ہے جوکہ انتہائی نامناسب عمل ہے۔ رافیل جنگی ہوائی جہازوں کی خرید میں بھی یہی عمل کارفرما ہے اور عوامی ذہنوں میں اس سودا کی نوعیت بھی بافورس سودا جیسی بنتی جارہی ہے۔ جس نے راجیوگاندھی کی پوزیشن کو بھی مشکوک بنادیاتھا اور نہ صرف راجیوگاندھی بلکہ پوری کانگرس پارٹی کو اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔
وزیراعظم کی خاموشی کے بعد ڈیفینس منسٹر نرملا سیتا رمن نے جو جواب دیاہے۔ وہ بھی انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ اُنہوں نے کہاہے کہ اس سودا میں چونکہ ملک کی سلامتی کے مسائل شامل ہیں اور قومی دفا ع کا مسئلہ ہے۔ اس لئے اس سودا کی تفصیلات خفیہ رکھنا مطلوب ہے اور ظاہر نہیںکی جاسکتیں۔ یہ جواب انتہائی نامعقول ہے۔ کیونکہ اس سودا کے سلسلہ میں سلامتی یاڈیفینس کے معاملات دریافت نہیں کئے جارہے ہیں۔ بلکہ ا س سودامیں ان جنگی جہازوں کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کی وجوہات دریافت کی جارہی ہیں۔ کیونکہ اس سودا کے سلسلہ میں مذاکرات تو کانگرس کی منموہن سنگھ سرکار کے وقت سے چل رہے تھے۔ لیکن اب یکلخت اس سودا کی خریداری کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیاگیاہے۔ جس پر اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ اس لئے اس سودا اضافہ کی وجوہات بنانے میں کوئی سلامتی، ڈیفینس اور قومی مفاد کاذکر محض ایک عذر لنگ ہے اور عذر لنگ گناہ بدتر ازگناہ کے مترادف ہے۔
منموہن سنگھ کی کانگرس سرکار نے فرانس کے ساتھ جو سودا طے کیاتھا۔ اُس کے مطابق126 ائیر کرافٹ کی خرید ہونی تھی۔ جن میں اٹھارہ فلائی روے کی حیثیت میں دئیے جانے تھے۔ جس کامطلب ہے کہ مکمل تیار شدہ۔ جبکہ مزید 108ہندوستان کی کمپنی Hindustan Aeronautics لمٹیڈ کے ساتھ مل کر ٹیکنالوجی ٹر انسفر کرکے بنائے جانے مطلوب تھے۔ وزیراعظم بننے کے بعد نریندرمودی نے 2015میں اس سودا پر روک لگادی۔ اب وزیراعظم نریندرمودی نے فرانس کا دورہ کیا اور حیران کن طریقہ سے بالکل نئے سودے کا اعلان کردیا۔ جس کے مطابق ہندوستان 36رافیل جیٹ گورنمنٹ سے گورنمنٹ کی بنیاد پر خریدے گا۔ اور یہ تمام فلائی روے کی صورت میں دئیے جائیںگے۔ اور اس سلسلہ میں ہندوستان کو کوئی ٹیکنالوجی کا علم مہیا نہیںکیاجائے گا۔ بجا طوپر سوال اُٹھایا گیاہے کہ جیٹ ہوائی جہازوں کی خرید ابتدائی شرائط کے بغیر کیوں کی گئی ہے اور ٹیکنالوجی کے مہیا کرنے کے بغیر کیوں کی گئی ہے ۔ یہ سودا 59000کروڑ روپے کا ہے۔ جس سے فی ائیر کرافٹ کی قیمت 1600کروڑروپیہ بنتی ہے۔ جبکہ کانگرس کی منموہن سنگھ سرکار کے وقت میں کئے گئے سودے کے مطابق 526کروڑ روپے فی ائیر کرافٹ تھی۔ اگرچہ وہ سودا کبھی تکمیل نہیں ہوا۔ اب ڈیفینس منسٹری کی طرف سے بتایاگیاہے کہ سودا 59000کروڑروپیہ کا ہے۔ جس کامطلب فی ائیرکرافٹ کی قیمت 1600کروڑروپیہ ہے۔ جب اس تفاوت کی وجوہات دریافت کی گئیں تو ڈیفینس منسٹر اور فائنینس منسٹر نے الگ الگ وجوہادت بتا کر اس کی وجہ قومی سلامتی اور ڈیفینس کے نکتہ نظر سے اصل قیمتوں کی تفصیلات بتانے سے انکارکردیا۔ الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ اس سودا میں ایک بڑا سرمایہ کار رپوریٹر امبانی جو کہ بھاجپا اور نریندرمودی کا خاص الخاص ہے بھی ملوث ہے۔ اوراُسے فائدہ پہنچانے کے لئے یہ سودا کیاگیاہے۔
بہر صورت میں تمام حالات اور واقعات سے ظاہر ہے اورمودی سرکار کی طر ف سے دئیے گئے جوابات سے بھی ظاہرہوتاہے کہ اس سود ا کے دوران دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ا س سودا نے اور اس سودا کے سلسلہ میں سرکاری جوابات نے مودی سرکار کو ملزموں کے کٹہرے میں اُسی طرح کھڑا کردیاہے۔ جس طرح بافورس سودا نے راجیوگاندھی اور کانگرس پارٹی کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑاکردیاتھا۔ اور جس کانتیجہ راجیو گاندھی اور کانگرس کی اقتدار سے محرومی کی صورت میںنکلاتھا۔ یہ تو ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس سودا کی شکل وہی صورت اختیار کرے گی یا نہیں۔ لیکن انتہا ضرور ہے کہ پاکدامی کا دعویٰ کرنے والی مودی سرکار ایک بار ملزموں کے کٹہرے میں ضرور کھڑاہوگئی ہے۔ وہ قومی سلامتی، ڈیفینس اور مفاد عامہ کی بہانہ تراشی کے ذریعہ اس سودامیں ہوئے مبینہ گھوٹالے کے الزامات سے بچ نہیں سکتی۔
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ مودی سرکار گھپلوں، گھوٹالوں، سکینڈلوں کی جواب دینے یا تحقیقات کروانے کی بجائے خود ہی یا تو ملزموں کو نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ جاری کردیتی ہے یاپھر قومی سلامتی ، ڈیفینس یا فوجی رازداری کا بہانہ تراش کر الزامات کی پردہ پوشی کررہی ہے۔ جو الزامات برسر اقتدار آنے سے پیشتر بھاجپا کانگرس حکمرانوں پر عائد کرتی تھی۔ اب اقتدارمیں آکر وہی عمل خود کررہی ہے۔ بھاجپا صدر امت شاہ کے بیٹے کی دولت میںکئی گنا اضافہ کے الزامات پر اُس نے یہی طریقہ کار اختیار کیا۔ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کے خلاف الزامات میں اُس نے اِسی حربہ کو زیر کار لایاہے۔ مرکزی وزراء کے خلاف الزامات پر بھی اس نے یہی رویہ اختیار کیاہے۔ اب اتنے بڑے رافیل سودامیں الزامات کو بھی ملکی اور قومی سلامتی آڑمیںپس پُشت ڈال رہی ہے۔
رشوت، بھرشٹاچار، گھپلوں، گھوٹالوں، سکینڈلوں کے خلاف آسمان سر پراُٹھانے والے بھاجپا نیتا بشمول نریندرمودی کے لوک پال قانون جو عوامی جدوجہد کی بدولت کانگرس بنانے پر مجبور ہوئی تھی۔ اُسے لاگو کرنے میں حیلوں بہانوں کے ذریعہ ناکام رہی ہے۔ اقتدار کے پانچ میںسے تین سال گزر جانے کے بعد ابھی لوک پال قانون نافذ نہیں ہوسکا۔ جس کے لئے مودی سرکار ذمہ دار ہے ۔ تو اور گھپلوں ، گھوٹالوں کو ختم کرنے کاکون سا طریقہ ہے؟ محض لفاظی ، محاورہ بازی، لچھے دار تقریروں سے، ہنگامہ خیز بیانات سے بھرشٹاچار اور رشوت ستانی کا انسداد نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلہ میں مودی کی بھاجپا سرکار قطعاً ناکام رہی ہے اور محض فریب کاری کام لے رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مودی سرکار بہانہ بازیوں کو بالائے طاق رکھ کر رافیل سکینڈل سمیت سارے الزامات کی جواب دہی دے۔ تحقیقات کرائے اور لوک پال قانون نافذ اُلعمل کرے۔
فی الحال مودی سرکار کے اس عمل پر تو فقط یہی کہہ سکتے ہیںکہ
بڑھانہ اپنے پاکی ء داماں کی حکائت
بند قبا کھول۔ دامن کوذرا دیکھ
وزیراعظم نریندرمودی دھڑلے سے چھاتی تان کر اعلان کررہے تھے کہ اُن کے عہد میں کوئی سکینڈل منظرِعام پر نہیںآیا۔ جو اس امر کا ثبو ت ہے کہ اُ ن کا عہد رشوت ستانی اور بھرشٹاچار سے پاک و صاف ہے۔ لیکن فی الواقعہ مرکزی وزیروں اور کئی صوبائی وزراء کے خلاف متعدد بھرشٹاچار کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ لیکن مودی سرکار اور بھاجپا قیادت نے اَز خود اُنہیں بری الذمہ قراردے دیاہے۔ لیکن اب رافیل جنگی ہوائی جہازوں کی سودا بازی میں گھپلا بازی نے مودی سرکار کی قلعی کھول دی ہے۔ اور مودی صاحب نے اس سلسلہ مون مو ت برت رکھ لیاہے۔ ابھی اتنا بڑاسکینڈل زیرِ بحث ہی ہے کہ پنجاب نیشنل بنک کا گھپلا جس میںمبینہ طورپر تیس ہزار کروڑروپے کا گول مال ہواہے کا انکشاف ہوگیاہے۔ اِسی قسم کاسکینڈل پیشترازیں مالیا نے گھپلا کرکے بنکوں کا اربوں روپیہ ہضم کیا ہواہے۔ اور مودی سرکار اُس کے خلاف کچھ نہیں کرسکی اور مالیا انگلستان میں بیٹھا ہوا دادِعیش لے رہاہے۔ مودی صاحب نے نوٹ بندی کے ذریعہ ہندستانی عوام کو ساری دولت بنکوں میں جمع کرنے پر مجبور کردیاتھا اور بنکوں میں جمع ساری دولت کارپوریٹ سیکٹر کے خدا دندان لوُٹ رہے ہیں۔ پہلے مالیا نے بنکوں کی اربوں روپیہ کی دولت لوُٹی اور اب پنجاب نیشنل بنک کی اربوں روپے کی دولت نیرو امودی لوُٹ کر ہندوستان سے باہر رفو چکر ہوگیاہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے ان خداندان کی لُوٹ کھسوٹ کی ذمہ داری سے مودی سرکار اور بذات خود نریندرمودی بچ نہیںسکتے۔ اور اُنہیں جواب دہی دینی ہوگی ۔ لیکن ستم بالائے ستم ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی نے اس سلسلہ میں ابھی تک رضاکار انہ زبان بندی کررکھی ہے۔ اِن سکینڈلوں اور گھپلوں کے سلسلہ میں ہی نہیں بلکہ بھاجپا کے صدر امت شاہ کے بیٹے کی طرف سے اپنی دولت میںکئی گنا اضافہ پر بھی مودی خاموش ہیں۔
وزیراعظم نے توکہاتھا کہ وہ حکمران نہیںبلکہ چوکیدار ہیں۔ لیکن کیا خوب چوکیداری ہے۔چوکیدار کا کام ہوتاہے کہ وہ اپنی بستی میں نہ صرف خود بیدار رہے۔ بلکہ آواز لگا کر چورچکاروں کو بھی کسی واردات سے روکے اور بستی کے باسیوں کو بھی خبردار کرتارہے۔ لیکن ہندوستان کو ایک ایسا چوکیدار ملاہے۔ جو نہ صرف چوروں چکاروں کو واردات سے روکنے میں ناکام ہے۔ بلکہ واردات کے بعد بھی خاموش ہے اور چوروں چکاروں کی نہیں بلکہ کارپوریٹ ڈکیتوں کے متعلق بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسی عمل کو کوئی اعانت مجرمانہ نہ بھی سمجھے۔ لیکن ڈکیتوں کی پردہ پوشی ضرور قراردینے پر مجبور ہوجائے گا۔
لہٰذا وقت آگیاہے کہ جس طرح عوام نے کانگرس حکمرانوں کے دور میں لوٹ کھسوٹ، سکینڈلوں، گھپلوں، گھوٹالوں کے خلاف زوردار آوا ز بلند کی تھی۔ اُسی طرح کی زوردار آواز بھاجپا کی مودی سرکار کے خلاف بھی بلند کی جائے۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
……………………….