طارق شبنم
’’بابا۔۔۔۔۔۔ یہ کون سی ذات کے جانور ہیں،میں نے پہلے کبھی انہیںاس جنگل میں نہیں دیکھا ہے ‘‘۔
جنگلی جانور کے بچے نے گھپا کے سامنے سے چند آدمیوں کو گزرتے ہوئے دیکھ کر اپنے دادا سے پوچھا ۔
’’ ہشششش۔۔۔۔۔۔‘‘۔
دادا ،آدمیوں کو دیکھ کر جس کے کان سرخ ہوگئے ،نے انگلی کے اشارے سے ا سے چپ رہنے کو کہا ،وہ خاموش ہو کر تب تک ان آدمیوں کو دیکھتا رہا جب تک نہ وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے خاموش رہنے کو کیوں کہا ؟ یہ جانور کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟‘‘
’’ بچہ ۔۔۔۔۔۔ یہ جانور نہیں بلکہ اس سنسار کے سردار آدم زاد ہیں اور یہ جنگلوں میں نہیں بلکہ شہروں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں‘‘ ۔
’’ سردار ۔۔۔۔۔۔ آدم زاد ۔۔۔۔۔۔ بچے کی سمجھ میں بات بالکل نہیں آئی‘‘ ۔
’’ بابا ۔۔۔ سردار تو شیر چا چا ہوتا ہے پھر۔۔۔؟اور یہ شہر اور دیہات ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ بچہ ۔۔۔۔۔۔ شیر توہمارے جنگل کا سردار ہوتا ہے ، یہ آدم زاد سارے دنیا پر راج کرتے ہیں ۔ ہمارے جنگل سے دور جن بستیوں میں رات کو ٹمٹماتی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں ،یہ وہیں رہتے ہیں ان ہی جگہوں کو شہر کہتے ہیں ،لیکن تم ان بستیوں کی طرف جانے کی غلطی ہرگز نہیں کرنا اور جب بھی کبھی جنگل میں آدم زاد نظر آئیں تو ان سے دور رہنا‘‘ ۔
بابا نے بچے کو نصیحت کرتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔
’’وہ کیوں ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
بچے نے معصومیت سے پوچھا۔
’’ کیوں کہ ۔۔۔۔۔تجھے جو بولا وہ کرو‘‘ ۔
بابا نے کڑک لہجے میںکہہ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی ۔آدم کی مشابہت کا وہ بے لباس بوڑھاجنگلی جانورجس کے جسم پر لباس کے بدلے لمبے لمبے با ل تھے سینکڑ وں سالوں سے اسی جنگل میں رہتا تھا ،اس کا اپنا بڑا اور خوشحال کنبہ تھاجو محض جنگلی پھلوں اور سبزیوں پر گزارہ کرتا تھا ،غاروں اور گھپائوں میں رہتا تھا ۔دو ٹانگوں پرچلنے والے جنگلی جانورروں کی وہ واحد ذات تھی جو کم وبیش انسانوں کی طرح بولتے بھی تھے ۔اس بنا پر سارے جنگلی جانور اس کنبے کا احترام کرتے تھے ۔قوی اور طاقت ور ہونے کے با وجوداس کنبے سے تعلق رکھنے والے جانور کبھی کسی کمزور جانور کو نقصان یا تکلیف نہیں پہنچاتے تھے بلکہ ایسا کرنا گناہ سمجھتے تھے اور اپنی نسلوں کو بھی یہی تربیت دیتے تھے۔
بوڑھاجنگلی جانور شہروں اور قصبوں میں رہ رہے آدم زاد کی کرتوتوں سے اچھی طرح واقف تھا اور جانتا تھا کی آدم زادحرص ولالچ کے کیچڑ میں اس قدر لتھڑا ہوا ہے کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے اپنے ہی نسل کا صفایا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ کچھ دیر سوچوں میں گم رہنے کے بعد با با غذ ا کی تلاش کے لئے نکلااور اس کا پوتا ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر انسانوں کی بستی کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گہری سوچوں میں ڈوب گیا ۔
’’آخر یہ ہماری شکل وصورت والی کون سی ذات ہے ،دیکھنے میں تو بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن با با ان سے کیوں اتنا ڈر رہے ہیں ؟‘‘
اس کے ذہن میں کئی سوالات کلبلانے لگے ۔ کافی دیر تک بستی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچوں میںکھوئے رہنے کے بعد اچانک نہ جانے اس کی سوچ کے ظلمت کدے میں کون سا نیا روشن دان کھل گیا کہ وہ مطمعن ہوکر اپنی گھپا میں چلا گیااور کچھ جنگلی پھل کھا کر سستانے بیٹھ گیا ۔اب وہ روز طفلانہ انداز میں گھنٹوںٹیلے پر بیٹھ کر ہنستے مسکراتے بستی کی طرف دیکھتا رہتا تھا ،وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ۔
ایک دن شام کو حسب معمول بوڑھے جنگلی جانور کے کمبے کے سارے جانور گپھا میں آگئے لیکن اس کا پوتانہیں آیا ۔کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد بھی جب وہ نہیں آیا تو وہ اُس کی تلاش میں نکلا اور سارا جنگل چھان مارا لیکن اس کا کئی اتہ پتہ نہیں ملا ،وہ تھکا ہارااپنا ریزہ ریز ہ وجود لئے من من بھاری قدموں سے واپس آیا اور پریشانی کی حالت میں گپھا میں بیٹھ گیا ۔گپھا میں ماتم کا سماں تھا ،کنبے کے سارے جانوراور دوسرے پڑوسی جانور بھی اس کے غائب ہونے پر سخت پریشان تھے کیوں کہ اس کا باپ سولہ سال پہلے جب اس بچے کی عمرصرف ایک سال تھی ، بھی اسی طرح غائب ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور دوسرے دن انسانی بستی کے نزدیک اس کی لاش ملی تھی ۔آدھی رات کے بعد اچانک بچے کے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں جنہیں سنتے ہی با با تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گپھا سے باہر گیا ،جس کے پیچھے ان کے گھر کے دوسرے جانوربھی گئے ۔کچھ دور انہوں نے دیکھا کہ بچہ زخموں سے چور خون میں لت پت پڑا ہوا درد سے کراہ رہا تھا ،اس پر خوف و ہیبت کی تھر تھری اور کپکپی چھائی ہوئی تھی اورآنکھوں سے موٹے موٹے آنسوں نکل رہے تھے جب کہ شیر اس کے پاس خشم ناک نگاہوں سے بستی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔بچے کی یہ حالت دیکھ کر با با کے دل پر چھریاں چلنے لگیں ۔انہوں نے بچے کو اٹھایا اور گپھا میں لے گئے جب کہ شیر غصے کی حالت میں اپنی گپھا میں چلا گیا ۔با با نے اس کے زخموں کی مرہم پٹی کی اور کچھ جنگلی جڑی بوٹیاں کھلائی جسے اس کو کچھ افاقہ ہوا اور اس کو آرام آگیا ۔
’’بچہ ہمارے اس خوب صورت جنگل میں لڑائیاں جھگڑے تو ہوتے نہیں اور نہ ہی ہم ایک دوسرے کو نْقصان پہنچاتے ہیںپھر تمہاری یہ حالت کس نے بنائی ؟‘‘
صبح جب بچہ بیدار ہو گیا تو با با نے اسے پیار سے پوچھ لیا ۔اس نے پہلے کوئی جواب نہیں دیا لیکن آخر بول پڑا ۔
’’با با۔۔۔ میں کل بڑے شوق سے بستی کی طرف گیا تھا تاکہ وہاں رہ رہے آدم زاد سے دوستی کرلوں،لیکن مجھے دیکھتے ہی درجنوں آدم زاد جنگلی آدم۔۔۔جنگلی آدم۔۔۔ چلاتے ہوئے قہر بن کر مجھ پر ٹوٹ پڑے اور میں بڑی مشکل سے جان بچا کرنکل توگیالیکن کچھ دور چل کر بے ہوش ہو کر گر پڑا،پھر شیر چا چا مجھے وہاں سے اٹھا کر لے آیا‘‘۔
’’بچہ ۔۔۔ میں نے تجھے کہا تھا کہ وہاں جانے کی غلطی ہر گز نہیں کرنا ۔۔۔ تو خوب صورت لباسوں میں چُھپے ان بے رحم وحشیوںکی اصلیت نہیں جانتا ہے ۔وہ جنگلوں اور جنگلی مخلوق کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیںاور شوق سے ہمارا شکار کرتے ہیں ۔۔۔‘‘۔
’’با با ۔۔۔۔۔۔ مجھے بستی کے آدم بہت اچھے لگے تھے اسی لئے چلا گیا ۔ حالانکہ ان کا رویہ دیکھ کر مجھے ان سے سخت نفرت ہوگئی اور اگر میں چاہتا تو میں کئی آدمیوں کو مار سکتا تھا لیکن میں نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ‘‘۔
بچے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
’’نہیں بچہ ۔۔۔تم نے ٹھیک کیا ایسا کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ویسے بھی یہ لوگ بغض و عناد اور اپنی خود غرضیوں کی بنا خود ہی ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں‘‘۔
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘
بچہ یہ سن کر حیرت زدہ ہو گیا ۔
’’ہاں بچہ ۔۔۔۔۔۔دنیا میں کسی جانور یا دوسری مخلوق نے انسان کا اتنا خون نہیں بہایا ہے جتنا کہ انسان نے خود بہایا ہے‘‘ ۔
’’مگر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ایک دوسرے کو کیوں مارتے ہیں ؟‘‘
’’بیٹا ۔۔۔۔۔۔ مالک نے انہیں ساری مخلوقات سے افضل بنایا تھا لیکن مالک کی نا فرمانی اور اپنی کالی کرتوتوں کی وجہ سے وہ یہ مقام کھو چکے ہیں۔انسانیت اور محبت کی تعلیم کو بھول کر اور اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے ایک دوسرے کو لڑائیوں میں مارتے ہیں ،جنگوں میں مارتے ہیں ،رشتوں میں مارتے ہیں ،نفرتوں سے مارتے ہیں ،محبت کے نام پر مارتے ہیں ،دشمنی میں مارتے ہیں ،دھوکہ دہی سے مارتے ہیں ، غرض یہ انسان کائینات کی واحد مخلوق ہے جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے مختلف بہانوں سے اپنی ہی نسل کا خون بہانے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔
بابا ۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے جنگلی آدم۔۔۔ جنگلی آدم ۔۔۔کہہ کر کیوں پکار رہے تھے ؟‘‘
’’یہ وحشی آدم زادخود کوترقی یافتہ ، عقل مند چالاک جب کہ دوسری مخلوقات کو بے کار سمجھتے ہیں، رہی بات ہماری تو ہماری اور ان کی مشابہت ایک جیسی ہے لیکن ہمارے حصے میں جنگل آئے اسی لئے یہ اپنی سیاہ کاریوں کو بھول کراپنے گریبانوں میں جھانکے بغیر ہمیںوحشی سمجھ کر جنگلی آدم کہتے ہیں‘‘ ۔
٭٭٭
اجس بانڈی پورہ ،کشمیر
موبائل نمبر؛9906526432,