بلاشبہ وادیٔ کشمیرکو اپنے قدرتی حُسن کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل ہے اور اپنی خوبصورتی کے باوصف اسے جنت ِ بے نظیر کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔اِس کے اس حُسن اور خوبصورتی میں جہاں صاف و شفاف دِلکش فضائوں ،راحت اور صحت بخش ہوائوں ،پُر فریب و پُر سکون نظاروں نےدوبالا کردیا تھا ،وہیں اونچے برف پوش پہاڑوں،سَر سبز میدانوںو مرگزاروں ،تھرکتےہوئےپُر سوز جھرنوں،میٹھے پانیوں کے چشموں،شفاف ندی نالوں اور دریائوںنے بھی چار چاندلگادیا تھا جبکہ سَر سبز و جنگلات کےشاداب سنگھار نے اِسےپُر کشش اور بیش بہا خطہ بنا دیا تھا۔لیکن افسوس صد افسوس!آج جب اس وادیٔ کشمیر کے اطراف و اکناف پر نظر ڈالی جاتی ہے تو اُس کا وہ قدرتی حُسن کافی حد تک ماند پڑچکا ہے،جس سے قدرت نے اسے مالا مال کردیا تھااور جس کی بنا پر اسے کرہ ٔ ارض پر جنت کا خطہ بھی قرار دیا جارہا تھا۔ظاہر ہے کہ ایک طویل عرصے سے یہاں کے باشندوں اور یہاں کےغیر ذمہ دار حاکموں نے ہر سطح پر اور ہر معاملے میں اپنی لالچ،خود غرضی اور ناکارہ روش کے تحت لوٹ لوٹ کر اور نوچ نوچ کےنہ صرف اس کی خوبصورتی کو مسخ کرڈالا بلکہ اس کے بے مثال حُسن کو بھی مسمار کے رکھ دیا گیا ہے۔جس کے نتیجے میں اب یہاں کے ماحولیاتی نظام میں ایسا تنائو پیدا ہوگیا ہے کہ یہاں کے بیشترلوگ مختلف قسم کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں اوراب خشک سالی کے باعث نئے نئے آلام و مصائب کا بھی شکار بن رہے ہیں۔بغور دیکھا جائے تو ہم نےجنگلات کو ملیا میٹ کرکے جہاں سر سبز و شاداب پہاڑیوں کو گنجا کرکے رکھ دیا ہے وہیںجنگلاتی پرندوں ،جانوروں اور درندوں کی پناہ گاہیں تک چھین لی ہیں،یہی وجہ ہے کہ وقفہ وقفہ کے بعد جنگلی جانورخوراک کی تلاش میں انسانی بستیوں میں گھس کر ہلاکت خیزیاں مچارہے ہیں۔چنانچہ ہماری کالی کرتوتوں کی وجہ سے ہی یہاں کےپانی کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں،برف پگھل رہی ہے،پہاڑیاں کھسک رہی ہیں،زمینیں خشک ہورہی ہیں،درخت ننگے ہورہے ہیں یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ گاس پھوس اور درخت بھی سوکھ چکے ہیں،جس کے نتیجے میں روز افزوںپہاڑی اور دور دراز جنگلاتی علاقوں میں آگ کی وارداتیں بھی رونما ہورہی ہیں،جو دور دور تک پھیل کر کروڑوں روپے کی مالیت کےسبز سونے کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔گذشتہ مہینے یعنی دسمبر کے دوران بھی پونچھ، راجوری، کپواڑہ، بانڈی پورہ، گاندر بل کےعلاوہ کرناہ اور اوڑی کے جنگلات میںآگ کی وارداتیں ہمارے لئے چشم کُشا ہیں،جن میں بڑے پیمانے اونچے اونچے درخت بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر آگ پر قابو پانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ کوششیں عموماً ناکام ثابت ہورہی ہیں۔جنگلات میں آگ لگنے کی ان وارداتوں سے جہاں جنگلات کا صفایا ہورہا ہے ،وہیں ماحولیات کی نظام پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے اور اس کا توازن مزید بگڑتا جارہا ہے۔، جس کا خمیازہ بالآخر ہمیں کو بھگتنا پڑرہاہے۔تعجب کا مقام ہے کہ جموں و کشمیر میں ایک لمبے عرصے کے دوران انسانی ہاتھوں نےقدرتی وسائل کے ساتھ جتنی چھیڑ چھاڑ کی ہے ،اُس سے تو یہاں کی حکومتی انتظامیہ بھی پوری طرح واقف ہے لیکن وہ بھی تاحال اپنے پیشروئوں کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے اور اس معاملے میں کسی قسم کوئی مثبت پیش رفت کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔جس کے نتیجے میں صورت حال جُوں کی تُوں چلی آرہی ہے۔حالانکہ جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کی وجہ سے اب جنگلات کی شرح آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے،پھر بھی محکمہ جنگلات کے ذمہ دار حکام خاموش تماشائی بنے بیٹھےہوئےہیں۔حالانکہ ا یک تحقیقاتی رپورٹ میں آگاہ کیا گیا تھاکہ جموں و کشمیر میں42822مربع کلومیٹر جنگلاتی رقبہ انتہائی خطرے میں ہے اور فارسٹ سروے آف انڈیا کی طرف سے بھی جنگلات میں آگ لگنے کی وارننگ جاری کردی تھی،جبکہ چند برسوں میں 186 ہیکٹر پر محیط جنگلات آتش زدگی کی وجہ سےبُری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہاں کی سرکاری مشینری اور یہاں کا عوام حسبِ روایت بے حِسی ،لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ کردار،بغیر کسی شرم اور خوف و کھٹکےنبھاتا چلاجارہا ہےجوکہ ایک انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ضرورت اس بات کی ہےکہ یو ٹی سرکار کا موجودہ انتظامیہ سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے میں متحرک ہوجائےاور اس بات کا بھرپور جائزہ لیں کہ جنگلات کے تحفظ پر معمور عملہ ،جس میں فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے کارکن ، پولیس اہلکار،محکمہ مال کے اہلکار اور رضا کارطبقہ شامل ہیں، آخر کر کیارہے ہیںکہ تواتر کے ساتھ وہی سب کچھ ہوتا چلا آرہا ہے ،جس سے جموں و کشمیر بچی کچی قدرتی خوبصورتی دن بہ دن مزید مسخ ہوتی جارہی ہے اور یہاں کا ماحولیاتی نظام بَد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔عوام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس معاملے میں حکومت کو اپنا ہر ممکن تعاون پیش پیش رکھیں۔