محمد دل شیر علی مصباحی
الله رب العزت نے اپنی مخلوق کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اگر تم الله تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے،بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :’’اور جو بھی تمہیں نعمتیں حاصل ہے ،وہ اللہ کی جانب سے ہے۔‘‘(النحل۱۸،۵۳)
الله نے نعمت کے طور پر ہمیں ایسا ماحولی نظام عطا کیا ہے کہ جس میں ذی حیات(جاندار)کے ساتھ غیر حیاتی اجزا(غیر جاندار) جیسے ہوا، پانی، روشنی، مٹی اور کوئلہ وغیرہ پائے جاتےہیں۔اصطلاح میں ماحولی نظام کسی مخصوص جگہ کے تمام حیاتی اور غیر حیاتی اجزاء کے مابین باہمی تعلقات کو کہتے ہیں۔ماحولی نظام میں بے شمار حیاتی اور غیر حیاتی اجزا شامل ہوتے ہیں اور یہ سب ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر انحصار اس لیے ضروری ہے کہ وہ تمام کے تمام اپنی زندگی کے مدارج ایک دوسرے کی مدد سے پورا کرتے ہیں ،مثلاً نباتات حیوانات سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے باہر آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں اور حیوانات اس آکسیجن کی بدولت عمل تنفس مکمل کرتے ہیں، جس سے ان کی حیات رواں دواں رہتی ہے۔ مختلف جغرافیائی علاقوں اور خطوں میں مختلف اقسام کے ذی حیات پائے جاتے ہیں جو وہاں کے ماحول میں رچ بس کر اپنی زندگی گزر بسر کرتے ہیں۔ ماحولیات کے ماہرین نے بنیادی طور پر ماحولی نظام کو دو بنیادی اقسام پر منقسم کیا ہے (1)قدرتی ماحولی نظام (1) مصنوی ماحول نظام۔
قدرتی ماحولی نظام: یہ ماحولی نظام قدرتی گردو پیش کے تحت کام کرتا ہے ۔اس میں انسانی مداخلت نا کے برابر ہوتی ہے۔مصنوعی ماحول نظام میں انسان کی دخل اندازی ہوتی ہے ،جیسے خلا میں یا بنجر زمین پر مخصوص ماحولی نظام تیار کرنا ۔انسان نے خلا میں خلائی جہاز کی مدد سے مخصوص ماحولی نظام تیار کیا ہے۔قدرتی ماحولی نظام میں تمام قدرتی عوامل کارکن ہوتے ہیں قدرتی ماحولی نظام میں موجود جاندار کے جائے سکونت کے اعتبار سے اس کو دو قسموں میں تقسیمِ کیا گیا ہے جنھیں زمینی ماحول نظام اور آبی ماحول نظام کہتے ہیں۔
زمین ماحولی نظام: زمین ماحولیاتی نظام کا انتہائی اہم اور ٹھوس حصہ ہے۔جغرافیائی خطوں کے حساب سے اس کی ساخت اور نوعیت متفرق ہوتی ہے۔جغرافیائی نوعیت کے لحاظ سے پانی کا حصہ تقریبا 70 فیصد ہے اور باقی زمینی حصہ ہے۔زمینی حصہ برفانی علاقوں ،پہاڑوں، چٹانوں،وادیوں اور جنگلات پر مشتمل ہے۔بنیادی طور پر زمینی ماحول نظام کو جنگلات پر یا گھاس پر یا صحرا میں تقسیم کیا گیا ہے۔
جنگلات مختلف قسم کے پودوں سے گھرے ہوئے ہوتے ہیں، ان پودوں کے گرد و نواح میں دیگر جاندار اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ماحولی نظام میں موجود جنگلات بنیادی طور سے ماحولیات کا مرکز ہوتے ہیں بلکہ قدرتی ذرائع کا زبردست ذخیرہ بھی ہوتے ہیں۔ جنگلات سے انسان کو متعدد چیزیں حاصل ہوتی ہیں، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جنگلات سے انسان کو قیمتی اور مضبوط تعمیراتی لکڑی کے علاوہ پھل اور غذائی اشیاء جیسے شہد،گوند وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔
جنگلات سے جانوروں کو چارہ فراہم ہوتا ہے۔جنگلات میں ہمہ اقسام کے چھوٹے بڑے پودے پائے جاتے ہیں جو طبی نقطہ نظر سے سود مند ہوتے ہیں۔صنعتی اعتبار سے بھی جنگلات سے بے شمار فائدے حاصل کیے جاتے ہیں ،جیسے بانس کی مدد سے مختلف چیزیں تیار کی جاتی ہے۔بانس کو فرنیچر، فرش، ٹوکریاں، برتن، موسیقی کے آلات، کاغذ اور یہاں تک کہ کپڑے سمیت کثیر مصنوعات تیار کرنے کا ایک بڑا ذریعہ مانا جاتا ہے۔جنگل کی لکڑیاں صرف تعمیراتی کاموں کے لیے استعمال نہیں ہوتی بلکہ ان لکڑیوں کا استعمال فرنیچر بنانے اور موسیقی کے آلات تیار کرنے میں بھی کیا جاتا ہے۔ساگوان،شیشم اور دیودار وغیرہ کا استعمال وافر مقدار میں ہوتا ہے۔جبکہ نیم، کیکر،صنوبر جیسی لکڑیوں سے دیگر خدمات لی جاتی ہے۔جنگلات سے نہایتی قیمتی خوشبوئیں بھی تیار کی جاتی ہے۔بعض درخت کی لکڑیاں کوئلہ بنانے میں کام آتی ہیں۔انسان کے علاوہ جنگل دیگر حیوانات کے لیے غذا کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔
جنگلات کی کٹائی: یعنی روایتی جنگلات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ۔جو جنگلات تجارت کی غرض سے لگائے جاتے ہیں وہ اس زمرے میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔دور حاضر میں جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے تقریباً 29 ملین ایکٹرز کے رقبے کو صاف کر دیا گیا۔صدیوں سے انسان جنگلات سے فائدہ اٹھاتا آ رہا ہے، اپنے استعمال کے لیے درختوں کا صفایا کرتا رہا ہے، اپنی رہائش اور فیکٹریوں کے قیام کے لیے جنگلات کو صاف کرتا جا رہا ہے۔انسانی آبادی میں اضافے کی وجہ سے جنگلاتی زمین پر انسان کا قبضہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے جنگلات کٹتے جا رہے ہیں اور اس کی جگہ دیگر عمارتیں بنوائی جا رہی ہیں۔ترقی انسان کے لیے ضروری ہے لیکن یہ ترقی قابل بقاء ہو تو ماحولیات کے لیے فائدہ مند ہے لیکن ترقی کے نام پر راستوں کی تعمیر، ڈیم کی تعمیر، عمارتوں کے تعمیر کی وجہ سے بے تحاشا جنگلات کو کاٹا جانا اس طرح سے ماحولی نظام کا توازن خراب کرنا ہے۔اسی وجہ سے ہر سال تقریباً لاکھوں ایکڑز جنگلات تباہ ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں چھ لاکھ سے بھی زیادہ ایکڑ زمین جنگلات کی کٹائی میں ختم کر دئیے گئے۔
جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے ماحول پر بے شمار اثرات مرتب ہو رہے ہیں:(1) جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے مٹی بہہ جاتی ہے اور پانی کا توازن برقرار نہیں رہتا، جس کے نتیجے میں یا تو طغیانی آتی ہے یا پھر قحط پڑ جاتا ہے۔(2)متفرق انواع کا ناپید ہونا: جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے بہت سارے نباتات ختم ہو جاتے ہیں اور کچھ انواع ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے زمین سے ناپید ہو جاتے ہیں۔(3) پانی کی غیر متوازن حالت: درختوں کی جو جڑیں ہوتی ہیں وہ زمین کے اندر پانی کو محفوظ رکھنے کا کام انجام دیتی ہے، جس کی وجہ سے زیر زمین موجود پانی کا توازن برقرار رہتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے وہ توازن سلامت نہیں رہتا ،جس کا خمیازہ خشک سالی کی صورت میں جھیلنا پڑتا ہے۔(4)کلایمٹ چینج: یعنی موسم کی تبدیلی جو اس دنیا کے لیے درد سر بنا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ نے بھی اس پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔بے تحاشا جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے مقامی سطح پر موسمی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہے۔بارش یا تو بالکل نہیں ہوتی ہے یا بہت زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے سیلاب آتا ہے فصلوں کو اور درختوں کو نقصان پہنچتا ہے۔جنگلات کی حفاظت ہمارا فریضہ ہے، جنگل یہ ماحولی نظام کا ایک بڑا جزء ہے اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس کی حفاظت ہمارے اوپر لازمی ہے۔انسان کی بقا ہی جنگلات پر منحصر ہے۔ ہمارے لیے صاف ہوا فراہم کرنے سےلے کر لکڑیاں کاٹ کر لے جانے تک ساری چیزیں جنگل سے وابستہ ہیں، اس کا ختم ہونا ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی وجہ سے اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔
(البرکات اسلامک ریسرچ سینٹر،علی گڑھ)